شاہ رخ کی موت۔۔اورنگزیب وٹو

31 فروری2020
شاہ رخ کے قتل پر ملک بھر میں احتجاج
کشن گنج میں بسیں جل گئیں۔ہندوستان ٹائمز اورنگ آباد میں ایم ایل اے نے دلتوں کے ساتھ مل کر شاہ رخ کے لیے جلائی موم بتیاں۔دی ہندو-
آخر کیوں لی گئی  جان۔کلکتہ میں بہن جی کا سوال
یو پی میں اب نہیں چلے گی سرکار۔مسلمانوں کا دوٹوک اعلان
جنتر منتر میں ہزاروں جمع،جنتا مانگتی ہے جواب۔بیورو رپورٹ
شاہی مسجد سے آیا بیان،شانتی کی اپیل۔دلی
بھگوان داس بولے ایک اور نہیں بنے گا پاکستان۔میرٹھ
کشمیر میں ٹوٹا کرفیو،آسام کا انٹرنیٹ ہوا جام۔دی ٹائمز
مراٹھا مندر کا علاقہ بنا شمشان گھاٹ۔زی نیوز
یہ آخر ہو کیا رہا ہے بھارت میں،کہاں ہے سرکار؟۔عالمی سہارا
بھارت میں شاہ رخ کی موت پر دنگے پھوٹ پڑے۔مسلمانوں کے تیور بدلہ لینے کے لگتے ہیں۔اُدھر ہندوؤں نے بھی پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کر دیا ہے۔اُتری ہند کےحالات بڑے نازک ہیں اور کسی بھی وقت مہا بھارت کا بگل بج سکتا ہے۔مسلمانوں کو پاکستانی فوج کے گھس بیٹھیوں کی مدد کی بھی خبریں   ملی ہیں۔آج جو بھارت جل رہا ہےکل رات تک حالات بالکل نارمل چل رہے تھےاور پھر وہ سب ہوا جو کسی کے دماغ میں نہیں تھا۔

29 فروری 2020
اس رات شاہ رخ گوری کے ساتھ اپنے گھر موجود تھا۔آدھی سے زیادہ رات گزر جانے کے بعد شاہ رخ نے گوری کے نمبر پر میسج بھیجا۔
”کل 11.30 پر دل والے دلہنیا لے جائیں گے۔“
موسم بھی ان کا ساتھ دے رہا تھا۔شاہ رخ نےبلو جینز کے ساتھ سفید شرٹ پہنی۔گوری نے پٹیالہ شلوار کے ساتھ مختصر شرٹ پہنی اور اپنی فیورٹ فلم دیکھنے کے لیے چل پڑے۔آج ان کا ارادہ آٹو سے جانے کا تھا۔وہی آٹو اور وہ دونوں۔مراٹھا مندر سینما تک پہنچتے پہنچتے انہیں ایک گھنٹہ لگ گیا۔رکشا ممبئ کی ٹریفک اور شور میں چلا جا رہا تھا اور وہ دونوں اس شہر میں گزرے سالوں کو انگلیوں پہ گن رہے تھے۔ان راستوں کو وہ بڑے اچھے سے جانتےپہچانتے تھے۔

ہمیشہ کی طرح ان کا مخصوص پلان تھا۔11.20 پر سینٹرل ممبئ  ریلوے اسٹیشن پر اترنا۔11.25 پر نیچرل آئس کریم پارلر سے آئس کریم اور 11.30 پر 1000 سیٹوں پر پھیلے سینما کی سیٹ نمبر 995,996 پر بیٹھ کر امریش پوری کی آواز میں پہلا جملہ ”یہ لندن ہے“۔ پچھلے 24 سالوں سے وہ یہی کرتے آئے  تھے۔ممبئ  انہیں پسند تھا،اسی شہر نے ان کی زندگی کو ایک نام اور پہچان دی تھی۔ممبئ  کا دل بہت بڑا تھا۔اس نے لاکھوں انسانوں کو اپنے اندر سمو رکھا تھا۔ہندو، مسلمان، مراٹھا،بہاری، مارواڑی، بنگالی، سندھی سب کو قبول کر رکھا تھا۔یہ صرف ممبئ  ہی نہیں تھا یہ بھارت تھا جس کے ہزار رنگ تھے۔شاہ رخ اور گوری مسلمان ہندو ہوتے ہوئے  بھی ایک دوسرے سے محبت کر سکتے تھے،زندگی جی سکتے تھے۔انہیں گرو تھا اپنے مہان بھارت پہ۔سینما کے وہ تین گھنٹے ان کے لیے بہت قیمتی ہوتے۔اس وقت وہ خود کو کالج کے زمانے میں محسوس کرتے اور ان لمحوں میں وہ ایک دوسرے میں گم ہو کر رہ جاتے۔انٹرول میں دونوں ایک ساتھ باہر آۓ اور اپنی مخصوص ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ممبئ کا موسم بدلتا محسوس ہو رہا تھا۔سمندر کی طرف سے آنے والی ہوائیں کسی وقت بھی موسم میں تبدیلی لا سکتی تھیں۔
آج بارش ہو گی۔
لگتا ہےصحیح دن چنا ہے ہم نے۔
اگر ہم آج مس کر دیتے تو بہت پچھتاتے۔
ہم مس کیسے کر سکتے تھے؟ ممبئ  میری جان،لگتا ہے آج کا دن ایک اور یادگار دن بننے جا رہا ہے۔
ناؤ جسٹ رائز یور ہائی  نس،انٹرول ختم ہو رہا ہے۔
اس نے جھک کر گوری کا ہاتھ پکڑا اور اپنے مخصوص فلمی انداز میں اس کا ہاتھ کندھے پر رکھ کر سینما کی طرف چلنےلگا۔
فلم اپنے کلائمکس کی طرف بڑھ رہی تھی جب سینما کے دروازے زور زور سے بجنے لگے،شور کی آوازیں فلم کےساؤنڈ سے بھی بلند ہو رہی تھیں۔سینما بینوں کو بھی بے چینی کے آثار محسوس ہو رہے تھے اور سر گوشیوں نے فلم سے توجہ بالکل ہٹا دی تھی۔اسی لمحے شاہ رخ نے موبائل فون نکالا تو اس کی وال پر بے تحاشا خبریں گردش کر رہی تھیں مگر ان میں دو لفظ ایک ساتھ جڑے نظر آرہے تھے۔یہ دو لفظ ایک ساتھ آتے تو اس کی آنکھوں کے سامنے ماضی اور حال کے کئی  واقعات گردش کرنے لگتے۔یہ دو لفظ اُسکے باپ کے سامنے بھی دوسرا راستہ بن سکتے تھے مگر انہوں نے عمر بھر ترنگا سینے سے لگائے   رکھا اور اُسے بھی وہی روایت پوری کرنے کا سبق دیا تھا۔اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور اِسکا انجام کیا ہو گا۔اس نے گوری کا ہاتھ پکڑا اور وہ سینما سے باہر آ گیا۔بتاؤ مجھے ہوا کیا ہے؟
بلوے ہو رہے ہیں۔
بلوے۔اوہ گاڈ۔مگر بلووں سے ہمارا کیا؟
میں مسلمان ہوں۔
تو؟
کوئی سوال نہیں پلیز ابھی۔
بٹ۔۔۔۔
میری پہچان اس وقت صرف مسلمان کی ہے اور مسلمان ہونا اس وقت بہت خطرناک ہو سکتا ہے اس لیے چپ چاپ ٹیکسی میں بیٹھو پلیز۔
ٹیکسی میں بیٹھتے ہی اسے احساس ہو گیا تھا کہ ممبئ ی کا موسم بدل چکا تھا۔وہ جس ممبئی کو چھوڑ کر سینما کے اندھیرے ہال میں داخل ہوا تھا وہاں سے نکلتے ہی خود کو اندھیرے میں ڈوبتا دیکھ رہا تھا۔

16 اگست 1947۔ممبئی
تاج محمد کے سامنے دو راستے تھے۔پاکستان چلاجاتا جہاں اس کے بھائی تھے،اس کا آبائی شہر تھا۔وہاں ترقی کے امکانات بھی تھے۔اس کے سارے جاننے والے بھاگ گئے تھے۔جانے والے اسے کہہ گئے تھے کہ جان جا سکتی ہے،جتنی جلدی ہو سکے ہندوستان چھوڑ دو۔
ہندوستان چھوڑ دوں؟ اچھا چھوڑ کے  وہاں چلا جاؤں جو کل رات کو ہندوستان تھا اور آج وہ پاکستان ہو گیا۔کمال ہے۔بہادر شاہ کی دلی اب ہندوستان ہو گئی اور لاہور پاکستان ہو گیا۔چلو زندہ تو چلے جائیں گے ان مُردوں کا کیا ہو گا جو بے چارے مفت میں مارے جائیں گے۔ تاج محمد خان جس نے انگریز کے لیے ہندوستان چھوڑ دو کا نعرہ لگایا تھا نے ،ہندوستان چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

29فروری 2020
ٹیکسی میں بیٹھتے ہی شاہ رخ نے فون نکالا اور تیزی سے پیغامات دیکھنے لگا۔بلوے اور احتجاج زور پکڑ رہا تھا مگر ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں تھی۔ٹیکسی ڈرائیور نے مین روڈ کی بجاۓ گاڑی چھوٹے رستے پر ڈال دی۔
ڈرائیور یہ سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟
میڈم یہ سانپوں کو دودھ پلانے کا نتیجہ ہے۔
کیا؟
میڈم جدھر سے آپ نکل کے آرہے ہو ادھر آج گولی چلے گی۔
لیکن کیوں؟
میڈم جو فلم وہاں سے بیس سال سے نہیں اتری آج اترے گی۔یہ سالے خان،ایک پاکستان بھی خان ہے۔کھاتے اِدھر کا،گاتے اُدھر کا ہیں۔
شاہ رخ اور گوری سارا رستہ خاموش سنتے رہے اور ٹیکسی ڈرائیور ریلوے سٹیشن سے اندھیری ایسٹ تک بنا  رُکے بولتا رہا۔میٹرو سٹیشن کے قریب ہی وہ ٹیکسی سے اترے اور ٹکٹ لے کر میٹرو کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر بعد سٹیشن پر اعلان ہونے لگا کہ آج میٹرو نہیں جاۓ گی۔سرکار نے احتجاج کی وجہ سے اس روٹ پر شام تک گاڑی بند کر دی تھی۔
اب انہیں بھوک بھی لگ رہی تھی اس لیے انہوں نے ٹیکسی لینے کی بجاۓ کھانا کھانے کےلیے ہوٹل کا رخ کیا۔کھانے کی  میز پر بیٹھتے ہی انہیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ غلط جگہ بیٹھے ہیں۔تھوڑی دیر بعد ہی ہوٹل کے سامنے دو گاڑیاں رکیں اور چھ سات لوگ ہوٹل میں داخل ہوۓ۔وہ ہو ٹل میں بیٹھےلوگوں سے ان کے نام پوچھ رہے تھے۔کچھ لوگوں سے شناختی کارڈ بھی مانگ رہے تھے۔وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوۓ کھانا کھا رہے تھے جب دو لڑکے ان کی طرف آۓ۔
کیا نام ہے؟
شاہ رخ خان۔
کیا کھا رہے ہو؟
کھانا۔
کھانے میں کیا؟
گوشت کھا رہے ہو تم؟ گؤو ماتا کاٹ کے کھا رہے ہو؟
نہیں،یہ میری بیوی ہندو ہے۔ہم ویجیٹیرین ہیں۔
خان کی بیوی ہندو۔لّو جہاد۔
نہیں ہم چلتے ہیں یہاں سے،سوری۔
جاتا کہاں ہے؟یہاں سے نکل کر کون سا تو پاکستان چلا جاۓ گا۔
میں انڈین ہوں۔
تو انڈین ہے؟ تو بول جے شری رام؟
جے شری رام۔
چل اب بجرنگ بلی بھی۔
جے بجرنگ بلی۔
ابے بجرنگ بلی کے آگے تو ان کا علی بھی۔۔
اور وہ خاموشی سے گھر آ گیا۔
اس رات35 :2 پر اس نے اپنے فون پر چند جملے ٹائپ کیے،فیس بک پر پوسٹ کیے اور گھر سے باہر آ گیا۔

31 فروری 1948
تاج محمد اور پنڈٹ نہرو آمنے سامنے کھڑے تھے۔پنڈٹ نہرو نے تاج محمد کو تمغہ آزادی دیتے ہوۓ کہا ”ان جیسے لوگ ہمارے بھارت کو مہان بنائیں گے۔یہ دیش بھگت ہی ہماری قوم کی آشاؤں کا مرکز ہیں۔ہمارا مہان بھارت ہی ہماری کھوج اور منزل ہے۔یہ ہندو مسلمان سکھ عیسائی سب کا ہے۔“تاج محمد کو اسکی وفا کا صلہ مل گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

30فروری 2020صبح 3:05 منٹ
شاہ رخ سڑک کنارے لیٹا تھا اور گاڑیاں بھاگی جا رہی تھیں۔لاش کو سب سے پہلے حاجی علی جانے والے ملنگوں نے دیکھا اور اپنی ویگن میں ڈال کر پولیس اسٹیشن لے گئے۔

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply