• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں حد سے بڑھتی مذہبی جذباتیت ایٹم بم سے کم نہیں/ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان میں حد سے بڑھتی مذہبی جذباتیت ایٹم بم سے کم نہیں/ڈاکٹر ندیم عباس

میں مذہبی قائدین سے اپیل کروں گا کہ خدارا آگے آئیں اور اس سماجی ایٹمی حملے سے میرے ملک کو بچائیں، ورنہ یہ سلسلہ ہمارے گھروں تک بھی پہنچ جائے گا اور یہ آگ معاشرے کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی چاہیئے کہ ایسے واقعات کے پیچھے موجود عناصر کی سرکوبی کریں، انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوائیں اور پھر ان کی میڈیا پر نشر و اشاعت کریں۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

مذہب انسان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ مذہب میں نفرت، عداوت اور بغض کی نفی کی جاتی ہے۔ مذہب انسانوں میں برابری اور باہمی پیار و محبت کی تعلیم دیتا ہے۔ مذہب اسلام کی بات کی جائے تو بانی اسلام اور خاندان پیغمبر اسلامﷺ کا اسوہ محبت اور کردار کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی مکی اور مدنی زندگی کا ملاحظہ کریں یا حضرت علیؑ کے دور خلافت کا، کہیں یہ نہیں ملتا کہ مذہب کی بنیاد پر کسی پر تشدد کیا گیا ہو یا صرف اس لیے کسی کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کیا گیا ہو کہ ان کا نظریہ مختلف ہے۔ نبی اکرمﷺ کا میثاق مدینہ ملاحظہ کریں یا آپﷺ کا نجران کے مسیحیوں کے ساتھ معاہدہ سامنے رکھیں، ہر دو میں غیر مسلموں کو بطور شہری قبول کیا گیا، ان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا اور انہیں کسی قسم کی پابندی میں نہیں جکڑا گیا۔ ان کی مذہبی، معاشی اور معاشرتی آزادیوں کا پورا پورا خیال رکھا گیا۔ حضرت علیؑ کے زمانہ خلافت و حکومت کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ اسلامی تاریخ میں پہلی بار آپ کو ایک خارجی فکر سے واسطہ پڑا، جس کا آپ نے دو محاذ پر مقابلہ کیا، ایک فکری محاذ تھا، دوسرا خارجیوں کی بدامنی کا۔ ہمارے معاشرے کو حضرت علیؑ کی سیرت کے اس پہلو سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کیسے اپنے وقت کی ایک پرتشدد اور فکری تحریک کا مقابلہ کیا، جس کی بنیاد بقول خوارج قرآن تھی۔

وطن عزیز میں لوگوں کی ذہنی ساخت مذہبی تشدد اور انتہاء پسندی والی بن رہی ہے، بلکہ بعض علاقوں میں تو جذباتیت کا یہ عالم ہے کہ صرف توہین کے الزام پر لوگوں نے پولیس سٹیشن جلا دیئے اور ملزموں کو اٹھا کر لے گئے اور آگ لگا دی۔ چند دنوں سے فیصل آباد میں جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے والی خاتون کا معاملہ میڈیا پر ہے، جو ذہنی مریض ہے، جسے علاج اور ہمدردی کے ضرورت ہے، اسے لے کر پورے ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کر دی گئی اور ریاستی مشینری پوری طاقت سے سامنے نہ آتی تو بین الاقوامی میڈیا پر ہمارا ایک اور برا چہرہ پیش کیا جا رہا ہوتا۔ پچھلے تین دنوں میں لگاتار تین واقعات ہوئے، جنہوں نے پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک چینی انجنیئر نے دیر سے آنے پر مزدورں کی ڈانٹ ڈپٹ کی، مقابلے میں مزدوروں نے ایک منٹ نہیں لگایا اور توہین مذہب کا الزام لگا کر قریب تھا کہ اس بیچارے کو جلا دیتے، بڑی مشکل سے انتظامیہ نے جان بچائی، ورنہ سیالکوٹ کی تاریخ دہرائی جاتی۔

قارئین کو یاد ہوگا جب ایک سرلنکن مینجر کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یہ سوچ ہمارے معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے، جس میں مدمقابل سے ذاتی اختلاف پر توہین رسالت یا مذہب کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ کراچی میں ایک مسیحی خاتون آفیسر نے صرف یہ کہا تھا کہ آپ غلط پارکنگ کر رہے ہے، اس پر اسے کار والے صاحب نے کہا کہ چپ کر جاو، ورنہ ابھی توہین رسالت کا الزام لگا کر مولوی جمع کر لوں گا۔ یہ تو خدا بھلا کرے ویڈیو بنانے والے کا، ورنہ اس بیچاری کو جان بچانے کے لیے ملک سے بھاگنا پڑتا۔ دوسرا واقعہ ہمارے ایک فیس بک کے دوست کے ساتھ پیش آیا، اس کے مطابق میں اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترا، ایک ٹیکسی والے نے آگے بڑھ کر بڑے ادب سے سامان پکڑ لیا، میں اس کے ساتھ ہو لیا، جب ٹیکسی میں داخل ہوا تو شدید قسم کی بدبو آرہی تھی، اس پر میں نے نہ جانے کا فیصلہ کیا اور اسے سامان اٹھانے پر تین سو روپے دیئے اور کہا اس کی صفائی کراو اتنی بدبو آرہی ہے۔

ٹیکسی والے نے کہا ہم سب نے قبر میں جانا ہے، وہاں سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ اس پر میں نے کہا جب قبر میں جائیں گے تو دیکھیں گے، البتہ وہاں بھی ایسی بدبو نہیں ہوگی، یہ کہہ کر میں ٹیکسی سے اتر گیا اور کریم کی ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا، انتے میں وہ ٹیکسی والا پانچ سات اور ٹیکسی والے لے کر آگیا، کہنے لگا کہ اس آدمی نے مذہب کی توہین کی ہے، اس پر میں نے اس سے پوچھا کیا کہا ہے؟ اس پر وہ بڑی چالاکی سے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہنے لگا کہ میں وہ کفر اپنی زبان پر بھی نہیں لا سکتا، یہ دیکھ کر قریب تھا کہ وہ مجھ پر حملہ کرتے، اتنے میں پولیس والے آگئے، انہیں صورتحال بتائی تو انہوں نے ٹیکسی والے سے کہا کہ یہاں سے چلے جاو، ورنہ اندر کر دیں گے اور مجھے بحفاظت گاڑی میں روانہ کیا۔

جان کی امان پاوں تو عرض کروں، ابھی خبر چل رہی ہے کہ سرگودھا میں ایک اجتماعی حملہ کرکے قادیانیوں کی عبادتگاہ میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ اس طرح کسی غیر مسلم کی عبادتگاہ کو نشانہ بنانا اسلام میں درست ہے؟ پاکستان کے قانون کو اپنے ہاتھ لے کر اس طرح کی افراتفری معاشرے کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔کسی بھی شخص کے ساتھ ذاتی ،مسلکی،مذہبی اختلاف کو بنیاد بنا کر توہین مذہب کا الزام لگایا اور اس کی مال و جان کے درپے ہوگئے۔ اس طرح تو ہر شخص اپنی تفہیم کے خلاف کسی بھی تعبیر پر توہین کا فتویٰ لگا کر کسی کو بھی قتل کر دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں مذہبی قائدین سے اپیل کروں گا کہ خدارا آگے آئیں اور اس سماجی ایٹمی حملے سے میرے ملک کو بچائیں، ورنہ یہ سلسلہ ہمارے گھروں تک بھی پہنچ جائے گا اور یہ آگ معاشر ے کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی چاہیئے کہ ایسے واقعات کے پیچھے موجود عناصر کی سرکوبی کریں، انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوائیں اور پھر ان کی میڈیا پر نشر و اشاعت کریں۔ موجودہ صورتحال کو شاعر نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
مفلس شہر کو دھنوان سے ڈر لگتا ہے
پر، نہ دھنوان کو رحمان سے ڈر لگتا ہے
اب کہاں ایثار و اخوت وہ مدینے جیسی
اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply