ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے۔۔سلمیٰ اعوان

سچی بات ہی یہ  ہے کہ  دنیا عالم حیرت تو ہے ہی لیکن کمال یہ ہے کہ اِس عالم حیرت میں جہاں ستاروں پہ کمند یں ڈالی جاچکی ہیں ہماری مقتدرہ و اشرافیہ اپنی کوتاہ کوشی، کم فہمی اور ذہنی و فکری افلاس کے ایسے ایسے نمونے اور مظاہرے پیش کرتی ہے کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔۔دور کیا جانا اب یہ جذباتی و غیر جذباتی والے معاملے کو ہی دیکھ لیں بندہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے نا۔
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا۔۔

اب کیا کہیں یہی نا یا ہم شدید کند ذہن ہیں یا یہ عقل سے پیدل ہیں۔اب دیکھیے نا  چند دن پہلے کسی نے ایک بڑا دلچسپ کلپ شیئر کیا۔سامنے پردہ سکرین پہ میاں نواز شریف تھے اور پیچھے آواز عمران خان کی۔بات کیا کررہے تھے۔حرف بہ حرف وہی جو میاں نواز شریف آجکل اپنی تقریروں میں فرماتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ میاں صاحب اب نام لے لے کے انگلیاں اُٹھاتے ہیں۔تب کپتان چونکہ تب تک ایمپائر کی انگلی اُٹھنے سے اتنا نااُمید نہیں تھا تو اُس نے صرف اشارات کی زبان اختیار کی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مقتدرات کو تختہ ء مشق بنایا۔

پر بات تو ایک ہی ہے۔ ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ تب عمران خان صاحب سڑکوں پہ تھے اور اب جناب میاں نواز شریف صاحب۔نعرے وہی گھسے پٹے۔وہ پنجابی کا بڑا مشہور محاورہ ہے کہ روندی  یاراں نوں تے ناں لیندی  بھراواں دے (یعنی یاروں کے لئے روتی ہے اور بھائیوں کے نام لیتی ہے) ۔اب جب تک اُمید باقی تھی تب تک تو سب اچھا تھا۔الیکشن کے موقعے پہ سب کی دوڑیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔بندہ حیران ہوتا ہے کہ تب کیا پاکستانی عوام پہ ڈالروں کی بارش ہورہی تھی کہ ”ووٹ کو عزت دو“کے نعرے کو کسی پرانے کوارٹر کے کسی بند صندوق میں دفن کررکھا تھا۔یہ ایک پانچ دس مہینے کے دورانیے میں کون سا ایسا نیا عذاب عوام پہ نازل ہوگیا کہ عوام کی بدحالی سے پیارے میاں صاحب کی جان پہ بن آئی۔وہ میر ؔ کا کیا خوب شعر ہے:
میر بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

کون نہیں جانتا کہ ہماری حکمران اشرافیہ کی نظر میں عوام کی کیا اہمیت ہے۔پروین شاکر نے شایدیہ ہماری کم نصیب عوام اور اِن سیاستدانوں کے بارے میں ہی لکھا تھا کہ:
وہ جہا ں   بھی گیا، لوٹا تو  میرے پاس آیا،

بس یہی بات ہے  اچھی  میرے ہرجائی کی

اب جب کہ حالات کی گردش اور الیکشن کے دھول دھپوں نے ہمارے ملک کے اصل حکمرانوں کے جسموں سے وہ چند دھجیاں بھی نوچ لی ہیں جن سے وہ طاقت کے سرچشموں کو ڈھانپے ہوئے تھے ایک سوال جس کی بازگشت بار بار مجھے سنائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے،کیا سیاستدان اتنے ہی مظلوم ہیں جتنا یہ جتلاتے ہیں۔ اگر سیاستدانوں کے کردار اور کارکردگی کا as a class جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ اتنے بھی مظلوم نہیں۔اگر بھٹو عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتا اور مجیب کو حکومت بنانے کا موقع دیتا تو کیا ملک آج ایسا ہی ہوتا۔ اگر بھٹو وزیر اعظم کے روپ میں سول ڈکٹیٹر نہ بنتا تو کیا ضیا الحق صاحب مارشل لا لگا سکتے تھے۔کیا میاں نواز شریف اپنے من پسندوں اور اپنے تابعداروں کو ہر جگہ بھرتی کرنے کی بجائے اداروں کو مضبوط کرتے۔ اداروں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ اُنھیں اِسی طرح کی بے انصافیوں کا سامنا کرنا  پڑتا۔اگر اداروں کے سربراہوں کی تقرریاں اپنی ذاتی وفاداری اور شخصی پسند و ناپسند کی بجائے میرٹ پہ کی گئی ہوتیں تو کیا آج میاں صاحب کو یہ دن دیکھنا پڑتا۔ اگر اُس وقت جب عمران خان چار حلقوں کے نتائج کھولنے کا مطالبہ کررہا تھا میاں صاحب اُس وقت اُس کا مطالبہ مان کر الیکشن کمیشن کو آزادو خودمختار کردیتے تو یہ کیسے ممکن ہوتا کہ اُن کا مینڈیٹ اُن سے چھین لیا جاتا؟اس کہانی کے تیسرے کردار پیپلز پارٹی کا تو ذکر ہی کیا وہ تو مانو قبروں کی مجاوری کرتے اور اُن قبروں کی کمائی کھانے پہ کامل یقین کے ساتھ operateکرتے ہیں۔مرنا تو اُن کا ہے جن کوآج ساری ناانصافیاں یادآرہی ہیں اور عوام کے درد سے بے حال ہوئے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پر افسوس کہ ہر ہرجائی کی طرح ن لیگ کو بھی عوام کی یاد تب آتی ہے جب سارے دروازے بند ہوجائیں۔لیکن کب تک؟آخر کب تک یہ میوزیکل چیئیرز کا کھیل چلتا رہے گا۔کل کو جب عمران خان اقتدار سے باہر ہوجائے گا تو اُس کو بھی عوام کا درد ستانے لگ جائے گا۔ آج چاہے مہنگائی اور معاشی بدحالی سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ کسی کو ہے کچھ خیال اس بے چاری مظلوم قوم کا۔ویسے ان نکموں اور نااہلوں کے بھی کیا کہنے؟ایک چو ر اُتوں چتر والا محاورہ شاید اُنھی جیسے کسی کردار کو دیکھ کر معرض وجود میں آیا ہوگا۔اِن کے کارناموں پہ تو بات کرنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔اِن کے بارے میں تو تسکین کا ایک ہی خیال رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ موت برحق ہے اور دنیا فانی ہے۔سو بھائی لگے رہیں اِس میوزیکل چیئر کے کھیل میں۔بقول آئن سٹائن کسی کے پاگل ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ایک ہی عمل بار بار دہرا کر ہر دفعہ مختلف نتیجے کی توقع رکھے۔

Facebook Comments