” ھل من ناصر ینصرنا” محمد نصیر زندہ کی رباعیات۔۔ اظہر نقوی

محمد نصیر زندہ صاحب کے اس شعری مجموعے کا عنوان “ھل من ناصر ینصرنا “ ہے جو کہ واقعہ کربلا سے نسبت رکھتا ہے ۔ یہ جملہ بزبان حضرت امام حسین  علیہ لسلام دس محرم الحرام سن اکسٹھ ھجری اتمام حجت کے طور پر جاری ھو ا ۔ جس کے معنی ہیں “ہے کوئ جو میری مدد کرے “؟
میں سوچ رہا تھا کہ زندہ صاحب نے اس جملے کا انتخاب کیونکر کیا ۔وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ۔ اور اس کا جواب ان کے اس شعری مجموعے کو پڑھنے کے بعد ہی ملا ۔ وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہ جملہ کائنات میں آج بھی اسی طرح گونج رہا ہے جسطرح کربلا میں صدیوں پہلے گونجھا تھا ۔ انسانیت چیخ چیخ کر پکار رہی ہے ۔ کربلا آج بھی بپا ہے ہمیں حسین  علیہ السلام کی ضرورت ہے ۔ اس مجمو عے سے لی گئ ایک رباعی:
پیکارِ حسین کی صدا آتی ہے ۔
راہوارِ حسینکی صدا آتی ہے ۔
ظلم و ستم و جبر کی زنجیروں سے۔
انکار ِحسین کی صدا آ تی ہے ۔
زندہ صاحب سے میری ملاقات اسں وقت ہوئ جب ایک مشاعرہ بتاریخ 4 فروری 2023 درشان امیر المومنین حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام منعقد کیا گیا ۔ جناب طاہر یاسین طاہر صاحب کے توسط سے مشاعرےکا انعقاد ہوا اور ان ہی کی بدولت زندہ صاحب سے ملاقات کا شرف ملا۔
زندہ صاحب کے بارے کچھ کہنا میرے بس کا کام نہیں ۔ شاعری کی صنف رباعی میں انکو جو دسترس حاصل ہے انتہائ قابل تعریف ہے ۔ ان کی رباعیات پڑھ کر مجھے اندازاہ ہوا کہ وہ مجھے نہ جانتے ہوۓ بھی مجھ سے بات کر رہے ہیں اور ایک پیغام دے رہے ہیں ۔ جیسے ان کی رباعیات ہمارے درو دیوار پہ لکھی ہوئی ہیں ۔ جس کائنات کی وہ بات کر رہے ہیں اس کو ہمیں تلاش کرنا ہے ۔ وہ مجھے انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں ۔ زندہ صاحب کی یہ رباعی ملاحظہ ہو ۔
سورج میری کائنات میں آۓ تو ۔
کمبخت کہیں مرا پتہ پاۓ تو ۔
افلاک پہن لیں مری تصویر کا رنگ ۔
آئینہ مرے حسن سے ٹکراۓ تو ۔
زندہ صاحب کے اس خوبصورت کلام پربہت کچھ لکھا جانا چاہیے ۔ ان کی شاعری بالخصوص ان کی رباعیات کی تشریحات کی جا سکتیں ہیں ۔ مجھے بہت کچھ کہنا باقی ہے لیکن ابھی اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ جب اگلی بار سرزمین پاکستان پہ قدم رکھوں گا انشاءاللہ زندہ صاحب سے ملاقات ہو گی ۔
(اظہرنقوی ۔ٹورونٹو ۔ کینیڈا )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply