کتھا چار جنموں کی ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط35

کتھا چار جنموں کی ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط34

یورپ میں کچھ آوارگی کے دن!
اس سے اگلے برس کا یورپ کا سفر صرف دو وجوہات سے تھا ایک تو یہ تھی کہ ہائیڈل برگ یونورسٹی سے (جس میں کسی زمانے میں علامہ اقبال اپنی درسیات کاکورس کر رہے تھے) دعوت نامہ آیا ہوا تھا کہ میں ایک تقریر کے لیے آؤں۔ دوسری وجہ اپنی دوست صدف مرزا صاحبہ کے پے در پے دعوت نامے تھے کہ میں کوپن ہیگن (ڈنمارک) آ کر اردو بولنے والی تارکین وطن پاکستانی خواتین کے لیے ان کی نئے  اردو چینل کا افتتاح کروں اور کچھ دن ٹھہر کر کوپن ہیگن کی ادبی فضا میں سانس لوں۔

دونوں وجوہات میرے لیے ایسی تھیں کہ میرے آتش زیر ِ پا جنون ِ سفر کو مہمیز کر سکیں۔ اس لیے  پھر ایک بار صرف ایک رات لندن میں کونی ؔ صاحبہ (Ex. Mayor, Hanslow) کے گھر ٹھہر کر میں جرمنی کے لیے پرواز کر گیا۔ ہوائی اڈے سے باہر نکلا تو دیکھ کر حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ صدف مرزا صاحبہ بنفس نفیس، ڈنمارک سے جرمنی آ کر مجھے خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہیں، وہ اس لیے تشریف لائی تھیں کہ وہ بھی یونیورسٹی میں بطور مہمان خصوصی مدعو تھیں۔ ان کے ساتھ طاہرہ رباب بھی تھیں۔ وہ رات طاہر ہ رباب صاحبہ کے مہمان رہے اور دوسری صبح یونیورسٹی میں تقریر کے لیے ہائیڈل برگ روانہ ہوئے۔

اس یونیورسٹی سے میرا جذباتی تعلق ان دنوں سے ہے، جب میں 1972ء میں اپنے ملٹن کینز کے قیام کے دوران پانچ دنوں کے لیے ایک جرمن لیڈی رفیق کار کے ہمراہ جرمنی آیا تھا۔ میں نے اسے علامہ اقبال کے بارے میں بتایا تھا اور ایک شام ہائیڈل برگ پہنچنے پر اور ہوٹل میں قیام کے بعد ہم دونوں دریائے نیکر کے کنارے کنارے ٹہلتے ہوئے دور تک نکل گئے تھے۔ میں ایک چٹان پر بیٹھ گیا تھا اور آنکھیں بند کر لیں تھیں اور یہ تصور کیا تھا کہ کسی زمانے میں شاید اسی چٹان پر اقبال بھی اسی طرح پاؤں پانی میں لٹکائے ہوئے بیٹھے ہوں۔دریائے نیکر کے بارے میں ان کی نظم حفظ تھی اور میں نے اپنی دوست جرمن لیڈی کو پہلے اردو میں سنائی اور پھر اس کا انگریزی میں ترجمہ کر کے سنایا۔ اس کا تبصرہ مجھے آج تک یاد ہے، اس نے کہاتھا، Some permanent features of geography, such as mountains, rivers, canals, do have a soul of their own and these souls get strengthened by great human personalities’ interaction with them.
بہر حال اس بار ہائیڈل برگ کی تقریب کچھ پھیکی ہی رہی۔مشرقی زبانوں کے شعبے کی صدر، ڈاکٹر کرسٹینا اولڈ جن سے ترکی کے سیمینار میں اس سے پچھلے برس تجدید ملاقات ہوئی تھی، موجود تھیں لیکن چونکہ یہ موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے سمیسٹر کا آخری دن تھا۔وہ اپنا کام سمیٹنے میں مصروف تھیں۔ بہر حال ان سے رابطہ رہا اور وہ تقریب میں شامل ہوئیں۔ تقریب کے علاوہ ایک جگہ اور رکنے کے بعد ہم نے طاہرہ رباب صاحبہ سے رخصت طلب کی، ان کا شکریہ ادا کیا، ان کی مہمان نوازی کے لیے ان کے ممنون ہوئے اور پھر صدف مرزا مجھے پہلے سڑک کے اور پھر ریل کے راستے سے، جرمنی اور ڈنمارک کی سرحد کو، ”کشتی پر ریل گاڑی“ سے پار کرتے ہوئے کوپن ہیگن لے گئیں۔۔۔

مجھے بہت اچھا لگاکہ مجھ سے عمر میں بہت چھوٹی ایک دوست اور رفیق، جیسے بڑے لوگ ایک بچے کی انگلی پکڑ کر اسے میلہ دکھاتے ہیں، سمندر، جھیل، کشتی پر لدی ہوئی پوری ریل گاڑی، آس پاس کے دیہاتی اور شہری منظرنامے دکھاتی ہوئی لیے چلی جا رہی ہے۔ ایسے مواقع کم میسر آتے ہیں جب ہم خود کو ڈھیلا، relaxed چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم دو ذمہ دار ہاتھوں میں ہیں اور ہمیں فکر و تردد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گوئٹے کا ایک قول اس کے ایک ڈرامے سے یاد آیا،جو میں نے صدف صاحبہ کو سنایا بھی اور پھر ترجمہ نہیں کیا کہ وہ جرمن زبان بخوبی سمجھتی ہیں۔
Das Ewig-Weibliche zieht uns hinan.
GOETHE, Faust, II. (Last lines)
ترجمہ: ”آفاقی (ملکوتی)نساء (جنس لطیف) ہمیشہ ہمیں بلندی کی طرف راغب کرتی ہے۔“

بجائے اس کے کہ میں اپنی یاداشت پر زور دے کر ڈنمارک کے بارے میں لکھوں، میں اپنے ہی ایک انگریزی کالم سے جو Canadian Asian News میں اشاعت پذیر ہوا تھا، ایک اقتباس نکال کر یہاں لگا رہا ہوں۔ اس میں ڈنمارک کے بارے میں کچھ ضروری ”اطلاعات ِ عامہ“ ہیں۔
So that is how my host Sadaf  and I went to Denmark. This nation, in spite of its small size, has always punched above its weight internationally. Vikings were great sailors and raiding from Denmark and other Nordic nations they changed the course of 9th and 10th century European history. It was Danish leadership that united all of Scandinavia called the Union of Kalmar. Now Denmark leads entire Europe in being the best managed welfare state. It made EU members uncomfortable when it rejected the
Mastricht Treaty and it became an opt-out nation from EU.
Believe me, when I say that I found more cyclists in Denmark than in the rest of Europe combined. Office goers cycle their way to the metro and both the metro and bus stations provide ample cycle parking space – free of charge. This helps in maintaining the environmental health of the nation. Another thing that appeals to an art loving wanderer like me is Danish cinema. Through the late 1990s and early 2000s the Dog me movement directors often used hand-held cameras to dynamic effect in a conscious reaction against high-tech, big-budget cinema. I invited my poet and film-maker friend Gulzar’s  attention to this fact and he promised to visit Denmark at his earliest opportunity. (Gulzar and I were supposed to meet and stay together in London but his trip to Glasgow came in the way and then the ash cloud made it impossible for him to fly back. We talked
almost daily – on Sadaf’s  phone, of course, because I am allergic to cell phones.)

کوپن ہیگن میں پاکستانی اور ہندوستانی تارکین وطن کا تناسب نوّے اور دس کے برابر ہے۔ یعنی ہندوستانی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی زیادہ تر پنجاب کے دواضلاع، جہلم اور گجرات سے آ کر یہاں آباد ہوئی ہے۔ صدف مرزا اپنے کچھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ اس فلاحی کام میں مصروف ہیں کہ اس پنجابی کمیونٹی کو اپنی ثقافت اور زبان سے منسلک رکھا جائے اور اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے پرنٹ اور برقیاتی شعبوں کو سرگرم رکھا جائے۔ ٹی وی نساء کا شروع کیا جانا اسی لائحہ عمل کا ایک حصہ تھا اور مجھے اس میں شرکت کر کے بہت خوشی ہوئی۔ اس اجلاس میں سب کی سب خواتین تھیں اور ٹیپ کاٹنے وغیرہ کی رسم سے پہلے تقاریر تھیں۔ خدا جانے میں کیسی اردو بولتا ہوں لیکن اپنے وطن کی پنجابی خواتین کو سامعین میں پا کر میں نے اپنی تقریر میں اردو اور پنجابی کا شیر و شکر جیسا ذائقہ پیش کیا جو انہیں بہت پسند آیا۔ کچھ اور دوست جو وہاں ملے، ان میں ڈاکٹر ساجدہ سر فہرست تھیں، جو پاکستان میں زلزلے اور سیلاب کے بعد فلاحی کاموں کے لیے خود کو رات دن مصروف ِ کار رکھ رہی تھیں۔ ان کے بارے میں میرے کالم میں یہ یادگار جملہ ہے۔
A simple, unassuming lady, she captivates one’s heart and mind both.

اقبال اختر صاحب سے ملاقات ہوئی جو ایک اچھے غزل  گو شاعر ہیں۔ مقبول بھٹی صاحب ملے جو اپنے فلاحی کاموں میں مصروفیت کے علاوہ قلم کی دولت کے بھی دھنی ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ٹی وی لنک کی ٹیم کے روح رواں چودھری سرور ہیں، ان کے ساتھیوں میں زبیر رائے اور این ارشد صاحبان ہیں۔ ان سب سے مل کر بہت اچھا لگا۔ ”سہارا ٹائمز“ کے سلطان گوندل صاحب، تو مجھے ایسے لگا، جیسے میرا کوئی کھویا ہوا بھائی یا بیٹا مجھے دوبارہ مل گیا ہو۔ ناصر ملک صاحب ایک معروف نام ہیں اور ان سے رسائل و جرائد میں اکثر ملاقات ہوتی ہے، لیکن بنفس نفیس ان سے ملنا، ان سے باتیں کرنا، ان کے در دولت پر حاضر ہونا، ان کی لائبریری کو دیکھنا، اور انہیں اپنی کتاب پیش کرنا ۔ یہ سب میرے لیے نعمت مترقبہ تھی۔

میرے لیے ایک خوش کن لمحہ چاند شُکلا صاحب کو ملنا تھا۔ موصوف ہندی اور اردو دونوں میں لکھتے ہیں اور سوہن راہی صاحب کے علاقے پھگواڑہ کے ایک قریبی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے دن جناب ظہور ملک صاحب اور این ستار صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جن کی وجہ سے ”سہارا ٹائمز“ اس قدر مقبول ہے۔ انہوں نے میرے لیے ایک شعری نشست کا بندوبست کیا جس میں شعر خوانی ہوئی۔ جیسے کہ میرا خیال تھا، صنف غزل اپنا سکہ ہر جگہ جمائے ہوئے ہے اور نظم کم کم ہی دکھائی پڑتی ہے۔

جو انٹرویو اپنے ٹی وی چینل کے لیے صدف مرزا صاحبہ  نے لیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ میرا خیال ہے، زندگی میں پچاس سے زیادہ ریڈیو، ٹی وی،’ساکھشاتکار‘ انٹرویو جو میرے ساتھ ہوئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ ’جاندار ا‘ انٹرویو صدف صاحبہ کے ساتھ تھا۔ اس کی پوری کہانی میں نے اپنے انگریزی کالم میں اس طرح درج کی۔
This interview conducted by Sadaf Mirza was a unique event. Her lively self, mercurial way of asking sudden questions, smiles, frowns and other ricks of a TV anchor’s trade, must have entertained the TV watchers more than my answers – which were just matter of fact. Her natural charm filled all the gaps that I left unfilled.
Indeed, she beat me at my own game.

Advertisements
julia rana solicitors london

چند دن جو کوپن ہیگن میں گزرے، صدف مرزا صاحبہ کی وجہ سے بہت دیر پا اور مثبت تاثرات کا ایک گلدستہ لیے ہوئے میں لوٹا۔ یہ خاتون خوش اخلاق دوست ہیں۔ اچھا لکھتی ہیں، اچھا بولتی ہیں اور فلاح ِ نسا ء کے لیے اچھا کام کر رہی ہیں۔خیر ِ خلائق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ ان کی زائد الوصفی میں ان کا شاعرہ ہونا بھی شامل ہے۔ یہ میرے علم میں ہے کہ آج کل ڈینش ادب کو اردو میں متعارف کروانے میں کوشاں ہیں اور اس کے لیے وہ اردو میں ڈینش ادب کی تاریخ تالیف کر رہی ہیں۔ یورپ کے مختلف ممالک میں اردو کی ترویج و ترقی میں کئی انجمنوں کا ہاتھ بٹاتی یں۔چند دنوں کے قیام کے بعد میں لوٹ آیا لیکن واپس آتے ہوئے میں کوپن ہیگن کے احباب کی شیریں یادیں اپنے ساتھ لے آیا۔ فیس بک پر اب بھی کبھی کبھی صدف مرزا، چودھری سروراور نصر ملک صاحب سے ملاقات ہو جاتی ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتھا چار جنموں کی ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط35

Leave a Reply