اور میں نم دیدہ نم دیدہ (6)-ابوبکر قدوسی

مغرب کی نماز ختم ہوئی، ہمارا ارادہ تھا کہ صحنِ حرم میں جا کر ارکانِ عمرہ ادا کیے جائیں تاکہ سفر کا مقصد پورا ہو ۔ عمرہ بنیادی طور پر چار امور کا نام ہے ، میقات پر احرام باندھ کر اور لفظوں میں نیت کرنے کے بعد آپ حرم کعبہ میں جا کر سب سے پہلے سات چکروں  پر مشتمل طواف کرتے ہیں ، طواف کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر دو نفل ادا کرتے ہیں اس کے بعد زمزم پی کر سعی کو نکل پڑتے ہیں ، جو صفا و مروہ نامی دو پہاڑیوں کے مابین کچھ چلنے اور کچھ آہستہ روی سے بھاگنے کا نام ہے ۔ سعی کے بعد حجامت بنواتے ہیں اور احرام اتار دیتے ہیں ۔ یوں آپ کا عمرہ تمام ہوتا ہے۔
حرم کا صحن لوگوں سے بھرا ہوا تھا ، عشاق تھے کہ پروانوں کی مانند شمع کی اور چلے آ رہے تھے ۔ حرم کے بیرونی صحن میں لوگوں کو منظم اور مرتب کرنے کے لیے جا بجا نائیلون اور فائبر گلاس کی بنی رکاوٹوں سے حد بندی کی گئی تھی اور اس حد بندی کے نتیجے میں مطلوبہ دروازے تک پہنچنے کے لیے آپ کو انہی راستوں پر چلنا پڑتا تھا جس راستے پہ حرم کے ہمارے مہربان میزبان ہمیں چلانا چاہتے ، بالکل شعر کے اس مصرے کی طرح کہ
میں تیرا چراغ ہوں ، جلائے جا بجھائے جا

اور ساتھ ساتھ ” یلا حاجی ” کے صوتی تازیانے اور کبھی پھول سمان نرم لہجے میں فرمائش نما فہمائش ۔۔۔۔ ایک روز میں تھکا ہارا دار التوحید ہوٹل کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا ، اسی اثناء میں حرم کا ایک محافظ آیا اور نرمی سے مجھے ادھر سے اٹھنے کا کہا ۔ میں نے فرمائش کی کہ پہلے کہو ” یلا حاجی” اس کا قہقہہ بلند ہوا اور میں ادھر سے اٹھ گیا ۔

جو شخص پہلی بار حرم آتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ، عمرے کے لیے برائے طواف ، بیت اللہ کے صحن یعنی مطاف میں جائے تو اس کے لیے بسا اوقات اچھا خاصا مسئلہ ہو جاتا ہے ، جیسا کہ ہمارے ساتھ بھی ہوا ۔ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ آپ جس دروازے سے چاہیں   داخل ہو جائیں اور مطاف میں جا پہنچیں ، بھلے پہلے ہی رک جائیں ۔ اب   مگر ایسا نہیں تھا ۔ آپ ایک دروازے سے داخل ہوتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ آپ اوپری منزل پر جا کر نکلیں گے اور کبھی یہ دروازہ آپ کو  تہہ خانے میں لے جانے گا ۔ سیدھا مطاف تک پہنچنے کے لیے دروازے مخصوص ہیں جن کا زائرین کو اوّل روز معلوم نہیں ہوتا اور وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے خود کو تھکاتے رہتے ہیں ۔ ہاں ایک بار کی تلاش و دریافت کے بعد سب آسان ہو جاتا ہے ۔ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ مجھے اس دروازے تک رہنمائی چاہیے کہ جو سیدھا خانہ کعبہ کے اندرونی صحن میں لے جائے ۔ انہوں نے مجھے کہا گیٹ نمبر تین پر چلے جائیے، لیکن “میری سرکار” نے کہا کہ اس کی بجائے باب ملک عبدالعزیز کی طرف چلتے ہیں وہاں ایک دروازے پر ڈیوٹی پر معمور نیم بزرگ یعنی ادھیڑ عمر ” شرطے” نے ہمیں کہا کہ ” گیٹ نمبر اناسی (79) پر چلے جائیے لیکن وہ نسبتاً دور ہے ” ہم پھر واپس گیٹ نمبر تین کی طرف چل دیے ۔ ہم اندر داخل ہوئے تو یہ وہ حصہ تھا جو عثمانی دور کے برآمدوں سے نسبت پیچھے سعودی تعمیر تھی اس میں لوگ طواف تو کر رہے تھے لیکن تعمیراتی کام کے سبب حرم کی طرف بورڈ کی عارضی دیوار قائم کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے حرم نظر نہیں آ رہا تھا ۔ ہم قریب تر آ کر دور ہی دور تھے اور فیض کے اس مصرعے کی تصویر بنے ہوئے تھے کہ
“قریب آ کے دور” ہو کتنے ۔

اب ہم پوچھتے ہوئے اس راستے کی تلاش میں تھے کہ جو ہمیں صحن میں لے جائے دو تین دروازوں سے کوشش کی لیکن وہاں رکاوٹیں تھیں ۔ کافی لمبا چکر کاٹ کے اور لوگوں سے پوچھتے ہم اسی جگہ پہنچے جہاں اوّل وقت ہمیں شرطے نے بتایا تھا کہ گیٹ نمبر 79 پر چلے جائیے ۔لیکن اس تلاش میں عشاء کی نماز کے لیے اذان ہو چکی تھی ، اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک نووارد موجودہ انتظامی رکاوٹوں اور تقسیم کے سبب کس قدر مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے اور جب معلوم پڑتا ہے کہ عمر بھر جس کی تلاش میں سرگرداں رہے وہ تو ایک قدم کی دوری پر تھا تو انسان کے اندر تک تھکاوٹ اتر آتی ہے ۔ گزرے ہجر کی ساری تھکاوٹیں بالکل وہی کیفیت پیدا کر دیتی ہے کہ
تیرے قدموں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
جی چاہتا ہے کہ جس کے لیے اتنا ٹوٹے وہ اسی طرح سمیٹ بھی لے ۔ معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز کے بعد در جاناں کے آگے سے یہ پتھر ہٹا دیے جائیں گے اور ترسی ہوئی مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی۔

نماز پڑھی ، نماز کے بعد سپاہیوں نے وہ رکاوٹیں ہٹا دیں اور مطاف سے لوگ نماز پڑھ کے باہر آنے لگے اور ساتھ والے راستے سے جو اندر جانا چاہتے تھے ، ان کو اندر جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ یہ پابندی اس لیے لگائی جاتی ہے کہ جب نماز کا وقت ہو تب لوگوں کا اندر آنا جانا بند کر دیا جائے تاکہ اندر نماز کے لیے صف بندی کرنے میں بھی سہولت ہو اور ساتھ ساتھ نماز کے وقت میں اضافی اژدہام نہ ہو جائے ۔ میں صحن حرم میں داخلے کی سیڑھیاں اتر رہا تھا ، آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھ رہے تھے
نے تاب وصل دارم ، نے طاقت جدائی
کہتے ہیں کہ بیت اللہ پر جب پہلی نظر پڑے تو جو دعا مانگی جائے وہ مراد کو پہنچتی ہے ۔ میں کب سے ہی دعائیں سوچ رہا تھا ۔ ہزار خیال اور ہزار دعائیں دماغ میں آ رہی تھی اور میں اس پیاسے کی طرح کہ جو صدیوں سے پیاسا ہو اور برسوں کی بھوک ہو اس کے سامنے ہزار خوان سجے آ جائیں تو اس کو سمجھ نہیں آتی کہ آغاز کہاں سے کرے ۔۔

میں جانتا تھا میں اس شہنشاہ کے دربار میں ہوں کہ جو واپس نہیں لوٹاتا کہ جس کے دروازے پہ خیر ہی خیر ہے ، خالی جھولیاں بھر دی جاتی ہیں ، تمناؤں کے سوکھے دریا سیراب ہو جاتے ہیں ، آرز ؤوں کے خشک کنویں پھر سے بار آور ہوتے ہیں ، میں اس بادشاہ کے حضور جا رہا تھا کہ جہاں وہ باتیں بھی سنی جاتی ہیں کہ دل کے نہال خانوں میں چھپی ہوتی ہے اور نوک زبان پر آ کر آواز و ساز کی صورت میں ڈھل نہیں پاتیں ۔ وہاں وہ بھی سنا جاتا ہے جو انسان کے دماغ کے چھپے گوشوں میں محفوظ ہوتا ہے اور ہم کسی کو ان خواہشات و مناجات میں شریک نہیں کرتے ۔
جو حال پوچھا تو ہم حال دل سنا نہ سکے
زباں پہ آئے فسانے کو لب پہ لا نہ سکے
لیکن یہ جو آنکھوں سے اُترے ساون ہوتے ہیں نہ  ان کے جلترنگ میں ہزار زبانوں کا تکلم ہوتا ہے ، یہ سب کہہ لیتے ہیں
باتیں جو زباں تک آ نہ سکیں
آنکھوں نے کہی آنکھوں نے سنی

میں قدم قدم سیڑھیاں اتر رہا تھا ۔ گردن جھکائے ، آنکھیں زمین پر بچھائے کہ یکبارگی ہی اس کے حضور جا کے اکھیاں کھولیں گے ۔ میں کھڑا تھا کسی گناہ گار کی طرح ، میں اس کالے غلاف والے گھر کے مالک کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا ، جو سوچا تھا سب رہ گیا ۔ جو چاہا تھا سب دل کی سرگوشیوں میں بہہ گیا ۔
بس حاضری کے ان لمحوں میں یہی کہہ پایا اور بار بار کہتا رہا کہ
“مالک ! ایک بار پھر حاضری ہو جائے ، اس گناہگار کو اب ہجر کی سنگلاخ راہوں پہ دوبارہ ایسا نہ تڑپائیے گا کہ مدتوں تک آ نہ سکوں”
میں یہ دعا کر رہا تھا کہ اسی برس اسی سال میں میں دوبارہ آؤں ۔۔ باقی باتیں اور دعائیں پھر مانگ لی جائیں گی۔۔۔

سامنے بیت اللہ تھا ، پورے جلال کے ساتھ اور پوری ہیبت کے ساتھ اور بے کنار وقار کے ساتھ ، اتنا وقار کہ جس کا انسانی عقل احاطہ ہی نہیں کر سکتی ۔
میں کچھ دیر کھڑا رہا دعائیں نوک زبان پر تھیں ۔ میں دعا کر رہا تھا ، اللہ اس گھر کا وقار یوں ہی سلامت رکھنا اس گھر کی عزت یوں قیامت تک قائم رہے  ۔
سامنے پیش منظر میں ہزاروں حاجی سفید براق احرام میں ملبوس طواف میں مصروف تھے ۔
بابا جی صمصام کے پنجابی میں کہے اشعار جیسے کسی صحیفے کی مانند دل و دماغ میں اتر رہے ہیں
اللہ مدت گزری سکدیا نوں
جوگی سانگ بناون نو جی کردا اے
تیرے گھر دے دوالے نچ نچ کے
مجرہ وکھاون نوں جی کردا اے

جس خوبی سے اور کمال استعاروں سے مولانا علی محمد صمصام نے حرم کے فراق میں اپنی تڑپ کو بیان کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے لیکن آج اگر یہ کہا جائے تو اتنا آسان نہ ہو کہ ضرور اس پر کوئی نہ کوئی فتویٰ صادر ہو جائے ۔ مجھے مولانا علی محمد صمصام کے اشعار کے سبب معلقات کی یاد آگئی ۔

عربوں میں تین میلے ہوتے تھے ان میلوں میں جہاں دیگر ثقافتی سرگرمیاں منعقد ہوتی تھیں ، وہیں پر شعر و شاعری کے مقابلے بھی ہوتے ۔ ان میں سے بڑا اور مشہور میلہ عکاظ کا ہوتا تھا ۔ عکاظ کا میلہ سب سے بڑا ہوتا تھا اور ہم مسلمانوں کے لیے اس کی اس لیے بھی تاریخی اہمیت ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت کے بعد مکی زندگی کے دور تبلیغ میں اس میلے میں جایا کرتے اور وہاں پر جا بجا چھوٹے چھوٹے مجموں میں لوگوں کو دعوت توحید دیا کرتے تھے ۔

شعر و شاعری کے حوالے سے عکاظ کے میلے میں عرب کے بڑے بڑے شعراء اپنا کلام پڑھتے اور جس کلام کو مقبولیت عامہ حاصل ہو جاتی اور اسے سب سے بہتر کلام سمجھا جاتا اسے بیت اللہ کی دیوار پر لکھ کر لٹکا دیا جاتا بعض روایات یہ بھی ہیں  کہ یہ ریشمی کپڑے پر سونے کے پانی سے لکھا جاتا ۔جس شاعر کا کلام منتخب کیا جاتا ، اس کو اس برس کا سب سے بڑا عرب شاعر مانا جاتا
ان اشعار و قصائد کو معلقات کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس میں اختلاف ہے کہ معلقات کی تعداد کتنی ہے ، بعض آٹھ ، بعض نو اور بعض دس کہتے ہیں لیکن اس بات میں تقریباً اتفاق ہے کہ سب سے پہلے جو کلام بیت اللہ کی دیوار کے ساتھ لٹکایا گیا وہ امرا القیس کا تھا ۔
وُقُوْفاً بِهَا صَحْبِي عَلَّي مَطِيَّهُـمُ
يَقُوْلُوْنَ لاَ تَهْلِكْ أَسَىً وَتَجَمَّـلِ
وإِنَّ شِفـَائِي عَبْـرَةٌ مُهْرَاقَـةٌ
فَهَلْ عِنْدَ رَسْمٍ دَارِسٍ مِنْ مُعَوَّلِ
امراؤ القیس نے کیا کمال کہا تھا کہ اس کے رونے پر پاس ٹھہرے احباب نے کہا کہ فرقت محبوب میں کیوں روتے ہو اور خود کو ہلاک کرتے ہو ، سو صبر کرو۔۔۔۔۔ لیکن رونا بھی تو کبھی شفا ہو جاتا ہے ، ہاں اگر کوئی سننے والا ہو تو کیونکر شفا نہ ہو ۔۔
اس کے علاوہ دیگر شعراء کے کلام کو بھی بیت اللہ کی دیواروں کے ساتھ لٹکایا جاتا رہا ۔۔

معلقات میں جاہلی ادب اپنی پوری شان و شوکت میں نظر آتا ہے ۔ سبع معلقہ کے سات شاعر ہیں جن کا یہ کلام ہمارے برصغیر کے مدارس کے نصاب کا بھی حصہ رہا ہے ، کم کم ابھی شائد کہیں ہو ، عربی زبان و ادب پر عبور حاصل کرنے کے لیے ان کا شامل نصاب ہونا بہت خوبی کی بات ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے اپنے اس دیس کے امراءالقیس و زہیر و متنبی یعنی میر و غالب و مومن کا کلام ہمارے مدارس کے شامل نصاب نہیں ۔پچھلے دنوں تو ایک فتویٰ نظر سے گزرا کہ میر و غالب کو پڑھنا ہی جائز نہیں ۔

اس ہجوم میں کہ جہاں کھوے سے کھوا چھل رہا ہو وہاں خواتین کے لیے طواف کرنا کچھ ایسا آسان نہیں ہوتا ، ساتھ ساتھ مردوں کے لیے بھی امتحان ہوتا ہے ۔ اور اگر انسان ہجوم سے بچنا چاہے تو اس کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ اوپری منزل پر چلا جائے لیکن تب یہ طواف کئی میلوں پر طویل ہو جاتا ہے جس کی سکت اور استطاعت ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتی ۔۔۔ پھر یہ بھی تو ہے کہ دوران طواف حرم کے ساتھ ساتھ چلنا اپنی جگہ اہم ہے ۔ ہمارے برصغیر کے لوگوں میں بعض عجیب و غریب عقائد و تصورات رواج پا گئے ہیں کہ جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، لیکن ہم نے انہیں عقیدہ بنا رکھا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ یہ تصور کہ دوران طواف بیت اللہ کی طرف نگاہ نہیں کرنی ۔  بھلا انسان پیاسا جائے اور پیاسا رہ جائے یہ کہاں کی عقلمندی ہے ۔

اسی طرح ایک تصور یہ بھی کہ جوتے پہن کر طواف نہیں کر سکتے ۔۔ یہ تصور بھی درست نہیں ، خود میں نے جوتے پہن کر ہی طواف کیا ، اس دوران میرے کاندھے پر کسی کا ہاتھ آیا تو مڑ کر دیکھا ۔ ایک پاکستانی بزرگ تھے جنہوں نے میرے جوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جوتے کیوں پہن رکھے ہیں ، یوں آپ کا طواف نہیں ہو گا ۔۔۔ نرمی سے عرض کیا کہ مکرم ” میرا ہو جاتا ہے ” ۔ اس پر ان کی آنکھوں میں میری گمراہی کی دریافت بہت واضح تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply