کشن گنگاکی وادی(قسط3)- جاویدخان

دوسری قسط پڑھنے ے لیے لنک کھولیے

 

 

 

تیسری قسط

کشن گنگاکے ماں باپ :۔
دائیں پہاڑ کی چوٹی بلند ہوئی جارہی تھی اَور اس کے  بازو  زمین سے چوٹی کے نیچے تک ٹیڑھی میڑھی ڈھلوانیں بنارہے تھے۔چوٹی چاندنی رات میں چمک رہی تھی۔جیسے رات کے اس پل میں وہ سنورکراَورسج کر بیٹھی ہو۔اُس کاپربتی رُوپ سنہری کرنوں میں نکھر گیاتھا۔اپنی قامت کے ساتھ وہ دوسری چوٹیوں سے منفر د تھی۔آسمانی قندیل نے جہاں باقی زمین کوروشنی بخشی تھی۔چوٹی پر اُس کی خاص عنایت تھی۔ایسی ٹھنڈی ٹھنڈی ،روشن عنایتیں ہر پربت کے نصیب میں کہاں۔پربت روشن تھا ۔اس کے چٹیلی حصّے جو گیلے تھے چمک رہے تھے۔شاید پربت کی چوٹی پرپانی رس رہاتھا۔

جب کہ ہمارے دونوں اَطراف پہاڑوں کامتوازی سلسلہ قائم تھا۔بلند و بالاچاندنی میں نہاتاپربتی حُسن ۔ان پہاڑوں نے کشن گنگاکو اپنے قدموں میں لیٹارکھاتھا۔جیسے ماں باپ بن کراسے زندگی دے رہے ہوں۔جیسے زمانوں سے اسے پالنے پوسنے میں لگے ہوں۔جیسے انھوں نے کشن گنگا کو زمانوں سے سنبھال رکھاہو۔اَور جیسے صدیوں سے اس کے اطراف میں کھڑے رہ کر اس کی پہرہ داری کرنے پر لگے ہوں۔

اَگر یہ پربت ہٹادیے جائیں یاکوئی حادثہ انھیں یہاں اپنی جگہ سے ہٹادے توکشن گنگا جو گہری گہرائیوں کادعوے دار ہے۔خود کو سنبھال پائے گا۔۔۔۔۔؟یایہ نیلگوں ،جوشیلا اَور شوریدہ سر پانی کایخ ریلا بکھر کر اَور پھیل کر میدانوں کی گھاس میں گُم ہو کر اَورجذب ہوکر رہ جائے گا۔؟

پانی ان پہاڑوں کے قدموں میں ،سر رگڑتاہے ۔پاؤں پر ٹھوکریں مارتاہے۔اَو ر پھر جامد و ساکت پہرے داروں سے ٹھوکریں کھاکر واپس اپنے رستے پر گامزن ہو جاتاہے اَور کشن گنگاسے نیلم ،نیلم سے جہلم پھر سندھ ساگر سے وشال سمندر ہو جاتاہے۔زمانیں کی ٹھوکریں ہوں یاپہرہ دیتے پربتوں کی ۔۔۔منزل کی راہ ہر ٹھوکر دکھاتی ہے۔

چاند ،درخت اَور دُور دُنیا کامریخ :۔
بائیں ہاتھ چیڑ کے درختوں کی قطار اک ڈھلان پرکھڑی تھی۔چاندپہاڑ کی نوک پر کھڑاچمک رہا تھا۔اَور دُور چاندسے بھی دُور آسمان کے بیچ اک تارا بڑا تھا اَور بہت روشن تھا۔تاروں کے خاندان میں سب سے روشن ،سب سے چمکیلااَور کبھی کبھی بھڑکیلا۔یہ ہمیں دیکھ رہاتھا۔ یہ مریخ تھا۔اس کے خاندانی لوگ اس سے اُوپر دُور دُور تک پھیلے اپنے اپنے برجوں میں ٹمٹما رہے تھے۔اُن سب کی نوکیلی چمک ہم تک روز آتی ہے۔مگر مریخ اِن سب میں روشن اَور چمکیلاہے۔چاند سے اَورہماری زمین سے بھی بڑا یہ روشن گولاگھومتاہے ،چلتا ہے ،مسافر ہے اِسی لیے سفرمیں رہتاہے۔آوارہ گر دہم ہی نہیں ،چاند ہی نہیں ،ہماراگولا(زمین )ہی نہیں ،صرف سورج ہی نہیں  بلکہ ہم سب ہیں ۔ چاند ،تارے ،زمین ،کشن گنگااَور وقت بھی ۔۔۔وقت کی قید میں بے شک لمحے ،گھنٹے ،اَن گنت صدیاں اَور زندگیاں ہوں،مگر وقت خود ایک مسافر ہے۔بالآخر کسی پڑاؤپر،کسی سرائے میں ،کسی منزل پر وہ بھی تھک کر سو جائے گا۔بے سکونی اَور بے ساکنی کاشکار ہم ہی نہیں ۔یہ سارا جہاں بھی ہے۔مریخ اَور آسمان پر روشن تمام تارے مسافر ہیں،سفر میں ہیں۔کہیں شب ہے کہیں صبح ہے اَور بہت جگہوں پر شام آچکی ۔کہیں تاروں پر شام گزر چکی۔شنید ہے کہ مریخ پر کبھی پانی ہوتاتھا۔پھر ناجانے کیاہواکہ یہاں پر صحرابن گیا۔

اقبال نے چاند سے مکالمہ کیاہے۔روشن تاروں سے باتیں کی ہیں۔مگر مریخ سے مکالمہ نہیں کیا۔کیا یہ تارہ  اِقبال کے عہد میں بے نام تھا۔؟کتنا تکلیف دہ ہے۔جب وُجود ہو اَور بے نام ہو۔کتنے اَن گنت تارے بے نام ہیں۔کتنے اَجرام فلکی سامنے ہوکر بھی ،اجنبی ہیں۔اپنی دُنیا میں رہ کر بھی انسان ابھی تک کتنا اَجنبی ہے۔؟نامکمل ہے اَور اَدھورا ہے۔اَگر مریخ اقبال کے عہد میں نامور ہوتاتو اقبال اس سے کیسامکالمہ کرتا۔؟جیسا نظم ‘شمع اَور شاعر ’ میں کیا ہے ویسا ؟یا اِس سے جدا ۔زمین اَور اس کااَطراف اِنسان کاگھر ہے۔ماحول ہے ،جیسے گھر کاصحن ؛ہوتاہے ،زمین یاجاگیر ہوتی ہے۔ایسے ہی زمین کااردگرد انسان کاہم سایہ ہے۔صحن ہے۔جاگیر ہے۔کتنی بے بسی ہے انسان پر کہ وہ اپنے صحن میں اُترے بغیر ،بیٹھے بنااپنے کمرے کی کھڑی سے ہی اسے دیکھ کر خاموشی سے چلاجائے گا۔اجنبیت اپنے آپ سے اَپنی ذات سے ہو یااَپنے اِردگرد سے کتنی بڑی بے بسی ہے۔کتنی مجبوری ہے۔ہم خانقاہ جبریہ کے تمام بزرگوں کی دل سے قدر کرتے ہیں ۔۔کہ اُنھوں نے کم از کم اس مجبوری کودریافت تو کیاہے۔مَیں گاڑی کی کھڑکی سے دُور آسمان کی پنہائیوں میں چمکتے روشن تارے کو دیکھ رہاتھااَور یہ سب سوچ رہاتھا۔جس پر جیون کی اُمیدیں باندھی جارہی ہیں۔مگر سوائے زمین کے اَبھی کوئی گولہ ،کوئی گھر یاسیارہ ایسانہیں ملاجوزمین جیساماحول رکھتاہو۔پانی ،آکسیجن اَور کشش ثقل ،جوہر باوزن وجود کو اپنے جسم سے باندھے رکھنے کی ذمہ دار ہے ضرورت ہے۔دُور چمکتے اس ستارے پر یہ سب موجود نہیں ۔وہ ڈوری جو کشش ثقل کہلاتی ہے یہاں بہت زیادہ ہے۔اَور انسان کانازک بد ن اُسے جھیلنے سے قاصرہے۔مَیں گاڑی کی کھڑکی سے اسے برابر دیکھ رہاتھا۔شاید کوئی ہی رات ہو جو روشن اَور چمکدار ہو اَور مَیں نے دُوردُنیامیں زمین کے اس منفرد ہمساے کو نہ دیکھاہو۔

چاند مزید روشن ہوگیاتھا۔آسمانی مشعل کی لمحہ بہ لمحہ ٹھنڈی شعاعیں بلند ہورہی تھیں۔کائنات کی شاید واحدمشعل ہے جو ٹھنڈی روشنی دیتی ہے۔ورنہ باقی مشعلیں قریب نہیں آنے دیتیں ۔دُور سے ہی نظارہ دیتی ہیں۔ان کے قریب جانے کی کوشش کرو تو جلادیتی ہیں۔

ایک کتبہ لگاتھا۔‘لیسوا’ ۔ لیسوا ایک جگہ کانام ہے۔یہ چورستہ ہے۔اس ایک جگہ سے تین یاچاررستے اطراف کو لے جاتے ہیں۔چورستہ یاچوک ایک خطرناک جگہ ہے ۔جہاں آفات کھڑی رہتی ہیں۔لِہٰذا کسی چورستے پر زیادہ دیر رکنانہیں  چاہیے ۔ایساماننا تھا ہمارے   بزرگو ں کا۔وہ جگہ ،وہ لمحہ جہاں پہنچ کر منزل کئی رستوں میں بٹ جائے ۔اس سے بڑی آفت اور کیا ہوسکتی ہے۔ہم لیسوانام کے اس چورستے سے آرام سے گزر گئے ۔

چورستے سے تھوڑا آگے بائیں طرف پہاڑ پر آبادی ہے۔اَور اس سے مزید اُوپر ویرانی پھر اس ویران چوٹی کے اُوپر پھر سے آسمانی مشعلوں کے جھرمٹ ہیں ۔یہی پہاڑوں میں ایک تنہا پہاڑ تکون کی شکل میں سامنے آتاہے۔اس کے دائیں بائیں جو پہاڑ ہیں۔یہ ان میں سب سے نمایاں ہے۔اس پر بادل کی ٹکڑیاں آوارہ گردی کرنے آئی ہوئی تھیں۔اَور چاندنی میں چمک رہی تھیں۔

صراط مستقیم کی تلاش و طلب :۔
تکون دار پہاڑ کامنظر گُم ہو گیاتھا۔ہم جس رستے پر چل رہے تھے وہ نشیب و فراز سے بھرا تھا۔اک ٹیڑھامیڑھا رستاجس میں ہر آن اک موڑ مُڑنا پڑتاتھا۔یہ ٹیڑھ میڑھ اَور ڈھیر سارے موڑ جنگل اَور اس کی بھول بھَلَیاں تھے۔جوخوب صورت مناظر بھی دیتے ہیں اَور گہری خوف ناک کھائیوں سے بھی ڈراتے ہیں۔شاید اسی لیے منع کیاگیاہی کہ ٹیڑھے میڑھے رستوں پر نہ چلاکرو۔وہاں حُسن ،حیات ،خوب صورت نظریے اَور خود آپ یہ سب کچھ گُم بھی ہو سکتاہے۔سیدھے رستے پر شاید خوب صورت مناظر ،حسین وادیاں ،بلوری ندیاں اَور حوض کوثر ،گُنگناتی ،جل ترنگ بجاتی نظارے بخشتی ہوں گی۔ایک خوب منظر کے بعد ایک اَور خوب صورت منظر جو پہلے منظر سے بھی بھر پور ہوگا۔حسن کانہ ختم ہونے والاعظیم سلسلہ ۔مگر شاہراہ مستقیم آسان تو نہیں ۔اس کی تلاش اور اس پرسفر شایدالگ تقاضے کرتاہے۔ورنہ ہر سیاح شاہراے مستقیم کاہی مسافر ہوتا۔

وادی مستقیم اتنی خوب رو ہے،اِتنی عریض ،اِتنی وسیع ،اِتنی اچھی تو پھر یہاں تک کی مسافتیں اِتنی دُشوار کیوں ہیں ۔؟یہاں آنے والا سیدھا رستا اتنا گُم نام ،اتنا متنازعہ کیوں ہے۔؟یہ سیدھا سادہ اَور بہت ہی سیدھارستااتنے تضادات اَور خدشات کی زد میں کیوں گھیرارہتاہے۔؟اس پرشکوک کے پتھر گرگر کر اِسے گُم نام کیوں کردیتے ہیں۔؟تب مسافر یاس و اُمید کے درمیان بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔پیاسے ،ناتواں اَور بے سہارا لوگ اِن پگڈنڈیوں پر عزم کے سہارے بڑھے کچھ منزل مرادٹھہرے اَور کچھ لُڑھک گئے۔؟یہ پگڈنڈیاں یہ سدھے رستے طالبان حق کے آگے سرنگوں کیوں نہیں ہوجاتے۔؟

تکون دار پہاڑ اب ہمارے دائیں ہاتھ تھا۔اک دیااس کے قدموں میں ٹمٹما رہا تھا۔روشن اَورچمکیلی نوکوں والا۔اس کے پیچھے کاآسمان سفید روئی دار اَبروں سے ڈھک گیاتھا۔چاندنی انھیں بھی نہلا رہی تھی۔قدقامت پہاڑ جو آسمان چھوتے ہیں اُن کے سامنے آسمانی چراغ ،دیے ایسے ہی قدموں میں آن گرتے ہیں اَور ٹمٹماتے ہیں۔

ہم آگے بڑھ رہے تھے۔عمران رزاق اَور کاشف نذیر محو گفتگو تھے۔تکون دار پہاڑ کاایک اَور حصہ ہمارے سامنے تھے۔اَب ہم شاید اُس کے برابر والے پہاڑ پر سے گذر رہے تھے۔یہاں تکونی قامت بے منظر ہوکر رہ گئی تھی۔جو نظارہ یہ پہاڑکچھ میٹر پیچھے دے رہا تھا۔یہاں وہ کشش نہ تھی۔یہ ہماری چشم کابھی فریب ہوسکتاتھا۔ورنہ بلندقامت،پُرعظمت اَور آسمانی چراغوں کے سایے میں ٹھہرے ایک پربت، جس کے قدموں میں ایک آب جو سرکشی کرتی رہتی ہے۔کیاکمی ہوسکتی ہے۔
؂
کوئی چیز نکمی نہیں زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں

ہمارے بائیں طرف پیچھے ایک فوجی چھاونی تھی اَور دریا پار پہاڑ تھا۔اس پہاڑ نے اپنے اُوپر گرنے والی برف ،اُس کے پانی سے بننے والے بہاو ،ملبے اَور گارے کے آمیزے کو اَپنے قدموں میں لُڑھکا دیا تھا۔یہ عمل ِمسلسل اُوپر سے نیچے دریا تک ایک گاریلا اَور مٹیالا بہاو بنا رہا تھا۔چھاونی کے ساتھ ایک پُل آتا ہے۔یہاں بائیں ہاتھ مُڑتے ہیں تو دریا پار کرکے ایک خشک مٹیالے پہاڑ کے پہلو میں چلنا پڑتاہے۔

یہاں ایک ہائیڈرو پاور ہے۔مصنوعی عمل نے کشن گنگا کاگلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔پھندنو ں سے اُس کاپانی تڑپ تڑپ کر باہر آرہاتھا۔جیسے جینے کے لیے بے بس کرکے رکھ دیا گیاہو۔ذرا دائیں چاند اپنے نگر میں کھڑا تھا۔ہم نے پُل پر ایک طرف گاڑیاں روکیں ۔چاند اَور مصنوعی روشنیوں میں منظر نہایا ہواتھا۔پہاڑوں کے درمیان کشن گنگا کی جوشیلی روانی کو روک دے کر ،اسے برقی روئیں پیدا کرنے کے لیے مجبور کردیا گیاتھا۔

دریا کامزاج بتارہا تھاکہ مجبوروں اَور مجبوریوں کی زندگی سرکشی ،شوریدگی اَور خوف پیداکرتی ہے۔برقی روئیں بے شک جتنی بھی پیدا کرلی جائیں ۔مصنوعی جبر ایک ناکام اَور عارضی بند ہوتاہے ۔جو شوریدگی ،سیلاب اَور طوفان اکھٹاکرتارہتا ہے۔پھر اچانک یہ عمل کاردعمل دیتاہے۔یوں تمام جبری بند اَپنے ہی پالے سیلابوں کی زدمیں آجاتے ہیں۔
بہاوکا گلادبادیا گیا تھا اَور اسے سانس لینے میں دُشواری ہو رہی تھی۔یوں ماحول چاند نگر کے دامن میں اس وقت شوریدگی اَور ہلکے خوف کی نذر ہوچکاتھا۔

ہم پُل پر کھڑے تھے اَور نیچے آب جو اِٹھلارہی تھی۔گدلے پانی پرچاند کی کرنیں پوری طرح پڑ رہی تھیں اَور وہ اس میں نہایا ہواتھا۔اِردگردکے پربت ،ڈھلانیں اَور ننگی چوٹیاں پوری طرح سنہری رنگ میں ڈوبی ہوئیں تھیں۔قافلے نے یہاں کے مناظر کو کیمرہ بند کیا،خود منظری ہوئی اَور پھر مناظر میں کھوگئے۔مغربی سمت آسمان پر بادل کی ٹکڑیاں لہر دار حلیے میں منڈلانے لگیں تھیں۔پھر چاند اُن کے پیچھے چھپ گیا۔سفید اَبروں کے لہردار پردے سے چاندکی کرنیں پھیکی پڑنے لگیں اَب منظر شاعر کے ان اشعار کانقشہ پیش کرنے لگا۔
خورشیدوہ دیکھو ڈوب گیاظلمت کانشان لہرانے لگا
مہتاب وہ ہلکے بادت سے چاندنی کے ورق برسانے لگا
لوڈوب گیاپھر بادل میں، بادل میں وہ خط سے دَوڑ گئے
لو پھرگھٹائیں چاک ہوئیں ظلمت کاقدم تھرّانے لگا
بادل میں چھپاتو کھول دِیے بادل میں دَریچے ہیرے کے
گردوں پہ جو آیاتو ،گردوں دریا کی طرح لہرانے لگا
سمٹی جو گھٹاتاریکی میں چاندی کے سفینے لے کر چلا
سنکی جو ہواتوبادل کے، گرداب میں غوطے کھانے لگا
غرفوں سے جو جھانکاگردوں کے ،اَمواج کی نبضیں تیز ہوئیں
حلقوں میں دوڑابادل کے ،کہسار کاسر چکرانے لگا (جوش ملیح آبادی )

؂ منظر سے نظریں ہٹیں توہم نے گاڑیوں کارُخ کیا۔ہماراسفر باقی تھااَور رات کے دامن میں وقت بھی محوسفر تھا۔ہمار ے لیے اس کے پاس کوئی رعائت نہ تھی۔رات سمٹ رہی تھی،وقت سمٹ رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply