کشن گنگاکی وادی(قسط2)- جاویدخان

کھانا: 
ہماراکھاناآچکاتھا۔راحیل خورشید اَور میر سفر سردار عاشق حسین صاحب نے کاشف نذیر اَور اعجازیوسف کی مہمان نوازی کاخاص ٹھیکہ لے رکھاتھا۔سو مُرغ کڑاہی کو یہ کہہ کرپکوایاگیاتھاکہ یہ سوغات خاص کراِن دو مہمانوں کے لیے ہے۔کبھی مُرغ یادیسی مُرغ کھلانا کسی اُونٹ کی قربانی کرنے کے برابر تھا۔بھلاہو مشینوں کاکہ ایک اچھی خاصی تہذیب کو گہناکر رکھ دیا۔ایک گھریلومُرغامشقتوں سے تیار ہوتاتھا۔مُرغی اَنڈے دینے کے بعد کڑک ہوتی ۔اِنڈے سینے بیٹھتی پھر مہینوں چوزوں کاپالنے کااحسان کرتی ۔انھیں دانہ دُنکاچگناسکھلاتی ،گدھ ،کوے ،شاہین چوزوں پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔لہٰذا ایک سگھڑ مرغی اَپنے چُوزوں کو ان گدھوں اَور شاہینوں سے بچنا سکھلاتی تھی۔شاہین کاپلٹناجھپٹنا اُس وقت ہمارے چُوزوں پر ہوتاتھا۔جو ہماری مُرغیوں اَور ہم نے بختوں سے پالے ہوتے تھے۔اَگرچہ شاہین کاجہاں اَور ہے اَور گدھ کاجہاں اَور مگر ہمارے چوزوں کے معاملے میں یہ ایک ہی جہاں میں پرواز اَور بسیرا رکھاکرتے تھے۔یوں دیسی مکئی ،روٹی اَور گندم پر پلے مُرغے کو جب ایک مہمان کے لیے ذبح کیاجاتااَور صرف اُبلے ہوئے چاولوں کے ساتھ گھنٹے ،دو گھنٹے کی مشقت سے ٹہنیوں کی آگ پر پکے مُرغ کو مہمان کے سامنے رکھتے تو اُس طعام میں لذت،وقاراَور مٹھاس خودبہ خود آجاتی تھی۔مہمان کبھی ہماری تہذیب کاحصہ تھا۔اَور مہمان داری بھی۔حاتم طائی نے اَگر کہیں شہرت اَور نیک نامی کمائی ہے تو مہمان نوازی سے۔ہماری تہذیب میں مہمان رحمت خداوندی تھا۔اس مُرغ کے شوربے کے ساتھ چاول یاچباتی کھاکر وہ تاحیات احسان مندرہتاتھا۔اَور مجھ جیسے کئی مہمان ڈرا بھی کرتے تھے کہ کہیں یہ مہمان داری واپس انہی لوازم کے ساتھ لوٹانی پڑے تو۔۔۔۔۔؟آج مشینی مُرغ کی کڑاہی ایک روز مرہ کافیشن ہے۔تہذیب نہیں۔ہمارے مہمان اَور ہمارے میزبان دَونوں جانتے تھے کہ اَگرچہ دو طرفہ خلوص اَور احترام میں کوئی فرق نہیں ۔مگر ہم مہمان نوازی اَو ر میزبانی کے نام پر ایک تہذیب ،رویے ،پیار اَور خلوص کو کھو چکے ہیں۔جوہم نے اَپنے بچپن میں دیکھاتھا۔
کھانے کے بعد مہمان کے گرد پورا گھر آبیٹھتاتھا۔اُس سے تعارف ہوتاتھا۔اَگر وہ پہلی بار آیاہے۔ورنہ تمام تعلق داروں ،پڑوسیوں اَور رشتہ داروں تک کی خیر خیریت پوچھی جاتی تھی۔پھر دیر تک باتیں ہوتی رہتی ۔جب محسوس ہوتاکہ مہمان بھی اُونگھنے لگاہے تو اُس کے لیے خاص طور سے بستر لگایاجاتا۔لکڑی کے صندوق سے نیاتکیہ ،رضائی اَورچادر وغیرہ ۔پھر آکر دعوت دی جاتی آئیے۔۔۔آ پ اَب آرام کریں آپ بہت تھکے ہوئے ہیں ۔مہمان استراحت فرماتا۔صبح بڑے بوڑھے پھر حاضر ہوتے۔منہ  ہاتھ دھو کر ،ناشتہ لگایاجاتا۔دیسی انڈے ،پراٹھے ۔یہ لوازمات کافی ہوتے تھے۔اَعلی ٰ درجے کاناشتہ دیسی انڈے اَور دیسی گھی میں چُپڑی ہوئی چباتیاں ہوتی تھیں ۔سفید چینک میں گرم گرم بھاپ اُڑاتی چائے اَور ساتھ پیالی رکھ دی جاتی۔ہماری اُس تہذیب میں دیسی گھی کی خوش بُو دُور دُور تک جاتی تھی۔اَور جو ہاتھ اس میں ایک بار بھگو دیاجاتاتو اس کی چکناہٹ اَور خوش بُو ہفتوں تک نہ جاتی تھی۔
آج گھی نام کی شئے سے خوش بو نہیں بد بُو آتی ہے۔مُرغ کسی ایک مُرغی کاسدھایاہوا تہذیب یافتہ چُوزہ نہیں رہاہے نہ ہی وہ گدھوں اَور شاہنوں کی چالاکیوں اَور قلابازیوں سے سنبھل کر ہمارے دسترخوان پر آیاہوتا ہے۔یہ ایک مشینی تہذیب کااُگلاہوا سفید یابارنگ شے ہوتاہے۔جس کو کڑاہی بناکر کھائیں یاتکہ بنا کر ۔مشینی دُنیاؤں نے کون سی تہذیب دینی ہے۔وہ مہمان تہذیب ہو یاکوئی اَور مشین نے احساسات کوکُچل کر انھیں مشین بنایاہے ۔
اَب یہ تہذیب پر نکال چکی ہے۔اِنسانوں نے جو تجربہ مُرغوں پر کیاتھا۔اَب خود پر آزمانے کو تیار ہیں۔ایک ماں جو اَپنابچہ خود پیدانہیں کرناچاہتی مگر وہ کسی دُوسری عورت کے بطن میں اَپنابچہ رکھ کر پالناچاہتی ہے ۔جن جدیددرس گاہوں پر ہمیں ناز ہے۔انھوں نے ایٹم بم دیے ،قاتل ہتھیار ایجادکیے اَور ممتاچھین کر انسانیت کو مشینوں کی کوکھ کے حوالے کر دیا۔اَگر آج انسانیت موت کے دروازے پہ کھڑی ہے تو جدید درسگاہوں کااس میں حصہ نوے فی صد ہوگا۔
سلاد،رائتہ ،کڑاہی اَور گرم گرم چباتیاں ہم نے سیر ہوکر کھانا کھایا۔چا ے پی اَورپھر سے تازہ دم ہو گئے تھے۔

دوصوفی چوٹیاں :۔
پیر سیمااَور پیر چناسی دوبلند ہوتی چوٹیاں ہمارے آمنے سامنے تھیں۔آسمان کے تارے ان پر ٹکے ہوئے لگ رہے تھے۔یہ دو پربت باہم اَور مقابل کھڑے ہیں ۔اَور آج سے نہیں زمانوں سے ایسے ہی کھڑے ہیں۔کسی ایک زاویے پر،کسی ایک رخ پر جمے رہنا،کھڑے رہنا کوئی آسان بات ہے کیا۔؟بغیر کسی دقت کے کسی ایک ہی رخ پر،سمت پر جم جانا ۔ایک ہی جگہ ڈٹ کر کھڑا ہوجانا۔ہمتوں کاکام ہے۔سخت ترین ریاضت ہے اَور چلہ ہے۔یہ چلے ،یہ ریاضتیں ان پربتوں کی خاندانی میراث ہیں۔یہ آ ج بھی اَپنے آباء کی میراث سنبھالے ہر جاکھڑے نظر آتے ہیں۔اِرتقائی دُنیا کے جوشیلے عَلم بردار بھلے جدت کے گیت گاتے  جائیں ۔مگر اَپنے ہر عہد سے بغیر کسی جدت کے ،بناکوئی کروٹ بدلے نبھاکرنا ان جماداتی دُنیا کے باسیوں کاہی خاصاہے۔
اس وقت یہ دونوں پربت صوفیانہ پس منظر رکھتے ہیں ۔صدیوں تک لوگ ان پوترچوٹیوں کو عقیدت کی نظرسے دیکھتے آئے ہیں۔پیر چناسی پر کسی صوفی بزرگ کی آرام گاہ ہے۔جب کہ مدمقابل پیر سیماپر کوئی صوفی بزرگ چلہ کش رہ چکے ہیں۔کیاپربتوں کے دامن میں اَور پربتوں کی چوٹیوں پرالہامی کلام اُترتے ہیں ۔؟سارے نبی ،سادھوسنت ،صوفی لوگ ان پربتو ں کے دامنوں میں آکر کیوں بسران کرتے رہے ۔؟ان کی بلندچوٹیوں پرکیوں مراقب ہوتے رہے ہیں۔؟کیاپربتی دُنیا اَپنی چلہ کشی ،جفاکشی اَور کڑی ریاضت کے راز منکشف کرتی ہے۔؟بلندیوں میں ہی آسمانی پیغام کیوں وحی اَور الہام ہوتے ہیں۔جب کہ ان پربتوں کے قدموں میں بیٹھی پستیاں بھی تواُسی خالق کی ہیں۔جس کی بنائی ہوئی یہ بلندیاں ہیں۔؟کیابلندیاں ،چوٹیاں اَور جفاکش رستے جو لمحہ بہ لمحہ بلندکرتے جاتے ہیں۔اَپنے ہاں کوئی خاص پیغام رکھتے ہیں۔؟الہام ،کشف ،قرب کی منزلیں بلندیوں کے سفرمیں ہی کیوں نصیب ہوتی ہیں۔؟کیاذات کے کسی سفرمیں بھی کوئی جفاکشی،کوئی سانس پھولتارستا،کوئی پتھریلی راہ،کوئی ہمالہ حائل ہوتاہے۔۔۔؟اَوران کوسر کرنے والاباہو دین نقشبندؒ،شاہ ہمدانؒ،جامیؒ،رومیؒ ،معین الدین ابن عربی ؒاَور خواجگان چشت ہوجاتاہے۔؟بلندیوں میں کیاہوتاہے۔؟
پیر چناسی ۹۰۰۰ فٹ سے زیادہ بلند ہے۔
لاؤ تزو چین کاصوفی تھا۔ہزاروں صدیاں پہلے وہ چین میں پیداہوا۔اس کاکہناہے کہ ‘‘بلند رُتبے کے حصول میں لگے رہناچڑھائی چڑھنے کاقصہ ہے۔اس سے دم چڑھتاہے ، تھکن ہوتی ہے اَور غصہ آتاہے۔آرام پہاڑ کی چوٹی پر نہیں نیچے اِس کی آغوش میں آتاہے ۔جسے ‘وادی ’ کہتے ہیں ۔پانی سے سبق سیکھو جوہمیشہ نشیب کی طرف دوڑتارہتاہے۔’’

لاؤ تزو کاتصوف اَدھوراہے۔آخر بلندیاں بناکسی جدوجہد کے پانی پیداکرکے نیچے لڑھکادیتی ہیں۔؟یہ برفانی اَبنار بلندچوٹیوں پر ہی کیوں ڈھیر ہوئے پڑے ہیں۔انھیں کیوں یہاں اُتارا گیا۔؟انھوں نے میدانوں میں گر کر برفانی صحرا کیوں نہ بناڈالے۔سمندروں ،دریاؤں اَور زمین کے سینے سے پانی چوس کر بھاپ آسمانی بلندیوں پر جاتی ہے۔تو ٹھنڈ انھیں پہاڑوں کی طرف دھکیلتی ہے۔یہ آب زدہ دُھواں ٹھنڈی سفیدی بن کر پربتوں کے سینے پر اُترتاجاتاہے۔پھر فطرت کاپالنار قطرہ قطرہ کاٹ کر نیچے لڑھکا دیتاہے۔
بلندیوں کافیض اَپنی نسبت سے ہی پہچانا جاتا ہے۔بلندیاں ہمیشہ سے اَپنے نشیبوں اَور پستیوں کو نوازنے کاجوکھم اُٹھائے ہوئے ہیں۔یہ بلندیاں ہمالہ کی ہوں ،ہندوکُش کی ہوں ،پیر پنجال کی ہوں،ولایت کی ہو ں یانبوت کی ۔پستیوں کونوازتے رہنا اِن کاخاصا ہے۔
اسلامی تصوف عمل ِمعکوس ہے۔اس میں صوفی پہلے عروج پاتاہے۔پھر درجہ بہ درجہ نزول میں سفر کرتاہے۔دریاوادیوں میں بہتے ہیں اَور سمندر ہوجاتے ہیں۔مسلم صوفیانہ نصاب پہلے بلندیوں کی سیر کراتاہے ۔پھر دریابناکر بلندیوں سے نیچے اُترنے کاحکم صادر کرتاہے۔سالک مختلف وادیوں میں بہتاہواآتاہے۔
چینی تصوف میں بہت سے دریابہتے رہے تاآنکہ اُن سے اَفیون نے تصوف و دانش چھین لی۔اِن دریاوں میں کنفیوشس ،بدھ مت،لاو،تاو بہتے رہے اَور اَب دریاے ماو کادَوردَورہ ہے۔جس کی سرخ دانش اَب اَپنا رُوپ بدل چکی ہے۔
ہم نے اپنے ڈبوں (کاریں ) کوایک جگہ روکا۔یہاں مشینی ڈبے پیٹرول کی پچکاریاں لیتے ہیں اَور آگے بڑھ جاتے ہیں۔جیسے ہم چائے خانوں ،ڈھابوں اَور ہوٹلوں پر چائے پیتے ہیں اَور کھاناکھاتے ہیں ۔ایسے ہی یہ فلادی پنجرے بڑے بڑے ذخیروں کے سامنے پیڑول کی پچکاریاں لیتے ہیں ۔جی بھر کر،سیر ہو کر پیتے ہیں اَور پھر آگے چلنے پرراضی ہوتے ہیں ۔ضدی جانور ہی نہیں ،انسانوں کے علاوہ یہ فولادی مشینیں بھی ہوتی ہیں ۔مشاہدے میں آیاہے کہ انھیں بھی بھوک لگتی ہے پیاس لگتی ہے اَور سخت تھکن طاری ہوجاتی ہے۔
یہ پیٹرول پمپ پیرچناسی کی نظروں کے بالکل سامنے تھا۔رات کو یہاں سے پیر چناسی آسمان چھوتامحسوس ہوتاہے۔اسے (پیر چناسی )مظفروں کی بسائی آبادیاں بونیاں اَور تنکے دکھتی ہیں۔اَور بونوں کو وہ سر بلندو پہاڑ جو آسمانوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔
چاندنی رات کاحُسن بڑھتاجارہاتھا۔پیر چناسی اَور پیر سیما کے دامن میں کُچھ بتیاں ٹمٹما رہی تھیں اَور ان کی نوکیلی بلندیوں پر تارے ٹم ٹم کررہے تھے۔سنہری چاندنی میں ان پربتوں کی بتیاں کچھ شرمندہ شرمندہ سی تھیں۔شاید چاندکے شباب کودیکھ کران پر مرجھاہٹ طاری ہونے لگی تھی۔

وٹامن سی :
عمران نے سفر کے آغازمیں کسی جگہ منہ  میں کچھ ڈالاتھااَور میرے استفسار پر اس نے کہاتھا۔یہ وٹامن سی کی گولیاں ہیں۔یہ مَیں رستے میں لیتارہوں گا۔مگر تمھیں نہیں دوں گا۔یہ کنجوسی اَور علانیہ کنجوسی کی کمینی ترین شکل تھی۔ شاید ہی دُنیامیں اَب تک کی گئی بداخلاقیوں میں کوئی حرکت اتنی گری ہوئی اَور کمینی ہوئی ہو گی۔اَلبتہ عمران نے اَپنی وٹامن سی کی گولیاں بارہاکاشف نذیر کوکھلائیں ۔عمران گری ہوئی حرکت کرتے رہے اَور اَب بھی دیدہ و دلیری سے کرتے جارہے تھے۔ہمارے روائتی طبیب زیادہ سے زیادہ کوئی خوراک دن میں تین مرتبہ لینے کی ہدایت کرتے ہیں۔عمران کاطبیب یقینا ً مختلف تھااَور پوری طرح انوکھاتھا۔اس نے عمران کوبتایا تھاکہ پورے رستے وٹامن سی کھانااور ہر پندرہ منٹ بعد کھانا۔جہاں تک میری معلومات ہیں عمران کی وٹامن سی ابھی تک کم ہے اَور اَگر کہیں ‘سی ’ کادَورہ پڑ جائے تو وہ اپنے طبیب کی ہدایت کے مطابق ‘سی ’ کھاتانہیں پھانکتاہے۔وٹامن سی کے مریض کو گاڑی کی اگلی نشست پر چھوڑکر مَیں چاندنی میں دھوئی رات کی جانب متوجہ ہوگیا۔

کٹے ہوئے پہاڑ کامنظر :۔
مظفرآباد شہر سے نکلنے کے بعد دائیں ہاتھ ایک کٹے ہوئے پہاڑ کامنظر ہے۔پورا پہاڑ کٹ کر دریائے کشن گنگامیں آن گراتھا۔فوج نے چھوٹے مزائل کی مددسے رکاوٹ دور کی تھی۔ورنہ پہلے ایک ناپائیدار جھیل وجودمیں آتی اَور اُس کے بعد آبادی اَورشہر زیر آب آجاتے ۔پہاڑ ٹوٹ کر دریا میں گرااَور بہاو کو روک دیا۔جب اس ملبے پر بارود آن پھٹا تو ملبہ تیز بہاو میں بہہ گیا۔۲۰۰۵ میں یہاں اَرضیاتی جنگ ہوئی تھی۔سناہے یہاں کی تہہ میں پتریاں (پلیٹیں )ہیں ۔جو سرکتی رہتی ہیں۔ٹنوں ملبہ ،پہاڑ،دریا،سمندر اَور ہم سب ۔۔ان پتریوں نے سنبھال رکھاہے۔اِن کے نیچے گہرائی میں آگ کھول رہی ہے۔ایک طرح کاپانی ہے۔اک سیال نماشے جوکھولتی رہتی ہے۔یہ غصیلہ سرخ مائع ہر وقت کھولتارہتاہے اور ان پتریوں پر دبا ؤڈالتاہے ۔غصہ نکالتا کہ ہٹو تو میں باہر آؤں ۔اس کے باہر آنے کی ضد نے اَب تک بے شمار بار زمین کی کایاپلٹ کی ہے۔یہ ضد آج بھی جاری ہے۔مگر پتریاں (پلیٹیں)کاندھے سے کاندھا ،سر سے سر اَور قدم سے قدم جوڑے اسے باہر نہیں آنے دیتی ۔
مگر پھر بھی سرکاو(حرکت )کے دَوران جب یہ پتریاں دبے پاؤں بالکل چپکے چپکے حرکت کرتی ہیں تو اس دبی اَور چھپی چال کے دوران کہیں خلا آجاتا ہے ہلکی سی دراڑ پر جاتی ہے۔تو یہ غصیلی سرخ مائع آگ فوراً باہر کو کودپڑتی ہے۔مٹی پھاڑتاہوا ،تہیں چیرتاہوا،دھواں اگلتاہوایہ باہر کو لپک پڑتاہے ۔تو زندگی سخت لاچار ہوکر رہ جاتی ہے۔اس غضب ناک اور غصیلی حرکت سے پہاڑ اُوندھے منہ  گر پڑتے ہیں۔مخلوق ِارضی زیر عتاب آجاتی ہے۔

ماضی اَور حال کے سائنس دان:۔
یہ سارافلسفہ جدید دور کے سائنس دانوں کاگھڑا  گھڑ ایاہے۔ماضی کے سائنس دان ایسی باتوں پر ہرگز یقین نہ رکھتے تھے۔ان کی دُور بینوں اَور دُور اندیشیوں نے زمین ایک بڑے اَور پھر بہت ہی بڑے بیل پرٹکی ہوئی دیکھی تھی۔بیل کے دو سینگ ہوتے ہیں۔مگر پتہ نہیں کیوں ۔۔۔اس بہت بڑے بیل نے اتنی بڑی زمین صرف ایک ہی سینگ پر اُٹھا رکھی تھی۔اَور جب کبھی اتفاقاًبہت زمانوں بعد وہ تھک ساجاتاتو بس ہلکا ساسر جھٹک کر زمین فوراً دوسرے سینگ پر رکھ دیتا۔بیل کی صرف و صرف اتنی سی جنبش سے ساری زمین ہل کر رہ جاتی ۔سب اتھل پتھل ہوجاتا۔بڑے بڑے منہ  زور دریا رخ بدل دینے پر مجبور ہوجاتے ۔زندگیوں کاکریا کرم ہو جاتا۔اَور بہت سے تودے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتے۔
یہ سارے واقعات تمام مردسائنس دان شب کی تاریکی میں برآمدوں اَور صحنوں میں بچھی چار پایؤں پر لیٹ کر حقے کے کش لگاتے اَور اپنی اپنی بیویوں کو سناتے ۔تمام بیویاں اس عظیم بیل کوتصور کی دور بین اَور بعض اوقات خوردبین سے بھی دیکھتیں تو پہروں حیران حیران رہتی۔اَور پھر دیکھنے اَور سننے کے بعد وہ بھی سائنس دان ہو جاتیں۔یوں ماضی کے تمام سائنس دانوں کے پاس آخر کار سائنس دان بیویاں ہوتیں تھیں۔تحقیقات کایہ سلسلہ آگے بڑھتارہتااَور وقت کے ساتھ ترقی ہوتی رہتی تھی۔
یہ ماضی کے تمام بڑے سائنس دانوں کی مشترکہ تحقیق تھی۔اگر آج کسی ماضی کی سرائے یادربار میں ہمیں راجہ  مظفر خان اَور راجہ زبردست خان کے سائنس دان اَور اُن کی پڑھائی بیویاں ہی کیوں نہ ہوں مل جائیں اَور ان سے آج کے سائنس دانوں کی کہانیاں بیان کریں تو ماضی کے سارے سائنس دان مقدس بیل کی ہمت اَور طاقت پر یوں حملہ آور ہوناانھیں غصہ نہ دلائے گاکیا۔۔۔۔؟وہ سب لٹھ لے کر مارنے دوڑیں گے۔
اَور ہم مستقبل کے کسی سائنس دان کو جوعالم ناپیدائش کی کسی خوب صورت وادی میں قیام پذیر ہے ،موجودہ سائنس دانوں کی تحقیق بتائیں اَور وہ آگے سے طنزاًمسکراکرگردن ہلائے تو بتائیے ہم کیاکریں گے۔۔۔؟

چاندنی رات میں آبشار تلے غسل:۔
چانداُبھرتا آرہا تھا۔آسمان کاجوبن آج اسی کے دم سے تھا۔حُسن ِازل کاشباب لیے وہ سرکتاسرکتااُوپر چلاآرہا تھا۔ہم تنگ وادی سے گُزر رہے تھے۔اَور یہ ساری وادی اس کی بلند و بالاچوٹیاں اس کے شباب میں ڈوبی ہوئی تھیں۔دائیں طرف دریا تھا اَور کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک بڑی چٹان کے چھجے تلے سیاح اپنی گاڑیوں کو نہلا رہے تھے۔آب شار کادُودھیا پانی اُوپر سے گررہاتھا۔سیاح گاڑیوں کو بند کرکے شیشے چڑھاکر آب شار تلے کھڑے تھے۔گاڑیاں آبشار کے گرتے پانی میں بھیگ رہی تھیں اَور سیاح بھیگتی نہاتی گاڑیوں میں ۔گاڑیوں کی بتیاں روشن تھیں۔پانی کی دُودھیادھار اُوپر چٹان سے گر رہی تھی۔دھار گاڑیوں پر گرتے ہی چھناکاپیداکرتی ۔۔پانی گاڑیوں پر گرتے ہی ایک دم اُچھلتا،جگمگاتی کاروں پر شفاف رنگ پانی چاندکی سُنہری کرنوں سے ہم رنگ ہوکر اَور پھر ٹوٹ کر اَطراف میں گرتا۔ جیسے موتیوں کی ایک آبی لڑی گر کر ٹوٹ رہی ہو اَور اس کے شفاف موتی اُچھل اُچھل کر سُنہری کرنوں میں،چمک چمک کر بکھر رہے ہوں۔آبی لڑی کایوں گرنا ،چھنکنا،ٹوٹنا اَور پھر سُنہری پردے پر آکر بکھرجانا۔۔۔یہ منظر سنہری شب میں کسی مصور کاشاہ کار تھا۔مَیں کافی آگے تک اس منظر میں محو رہا اَور تصور کے پردے پر اس منظر کو باربار لاکر دیکھتا رہا۔

کشن گنگاکاگدلاجیون:۔
وادی کوپہاڑوں نے متوازی کھڑے ہوکر اَور بلند ہوکر اپنے قدموں میں کس لیاتھا۔پہاڑوں کے اس کساؤ میں کشن گنگاسرک رہاتھااَوراس کے کنارے کنارے ہم آگے بڑھ رہے تھے۔دریا آج گدلی زندگی جینے پر مجبور تھا۔اس کانیلگوں اور شفاف چہرہ مٹیالاہوچکاتھا۔یہ گدلے دن شاید ہر حیات کامقدر ٹھہرتے ہیں۔زندگی میں صرف بہار ہی نہیں رہتی خزاں بھی آتی ہے۔زندگی شفاف رنگوں سے ہی نہیں بنی گدلی اَور دُھندلے رنگ بھی اس کاحصہ ہوتے ہیں۔
ساون ہریالی ہی نہیں لاتے گدلاہٹ اَورطغیانی بھی لاتے ہیں۔جو اَنت مچاتے سیلاب بنتے ہیں۔
ہم نے ایک پل پار کیاتو گدلاکشن گنگابائیں ہاتھ ہوگیااَور اس کے دائیں کنارے پر ہم آہستہ قدمی سے آگے بڑھنے لگے۔کاشف نذیر اَور عمران رزاق کی گفتگو جاری تھی۔وہ چاندنی رُت میں ٹیڑھے میڑھے رستوں پر گول گھماؤکرتے ،سنبھلتے ،سمندر پار کی اجنبی دُنیاوں کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے۔

خاموش راتوں کے سازندے:۔
باہر چاندنی اُمڈ اُمڈ کر برس رہی تھی۔اس چاندنی رُت میں ٹڈیاں ساز بجارہی تھیں اَور مل کر بجارہی تھیں۔ٹڈی خاموش راتوں کاسازندہ ہے۔اَور فطرت کے سازندوں میں خوب صورت ساز اس کے پاس ہیں۔روشنی کی بھی اک آلودگی ہوتی ہے اَور آواز کی بھی اک آلودگی ہوتی ہے۔روشنی جو آنکھوں کو چندیا دے ،سردرد دے اَور آواز جو آپ کو شور کاعادی بنادے ۔۔۔باریک آوازسماعتوں سے چھین کرآپ کو شور کاعادی کردے ۔یہ سب کی سب آلودگیاں ہیں۔اس ہم کسی بھی آلودگی سے دُور فطرت کی گود میں بیٹھے سفر کررہے تھے۔
چاندکی چاندنی ،ٹڈیوں کاساز اَور موجوں کی گونج ۔چاندنی رات میں پربت اَور قدقامت اَشجار سایے بنارہے تھے۔زمین پر،پربتوں پر اَور بہتے ہوئے پانیوں پرچاندنی کی سُنہری چادر پڑی تھی۔اس سُنہری رنگ میں بڑھے ہوئے اَور جگہ جگہ پھیلے ہوئے سایے بھلے لگ رہے تھے۔

فطرت کے دل کی دھڑکن :۔
اَگرچہ ساز کچھ وقت کے لیے ہماری گاڑی میں بھی در آئے تھے۔مگر مَیں مصنوعی سازوں سے بے نیاز ہوچکاتھا۔خامشی خودایک ساز ہے۔دریا گُونج پیداکرتاہے،ٹڈی ساز بجاتی ہے اَور خاموشی سکون آور ،خمار آوراَور میٹھاسازہے۔فطرت کاانوکھاساز۔شاید ہر کوئی سچاصوفی نہیں ہوتاجو فطرت کے دل کی دھڑکن تک جاپہنچے ۔خامشی فطرت کے دل کی دھڑکن ہے۔مطالعے اَورمشاہدے کی اِنتہا خامشی ہے ۔اَور خامشی کی اِنتہا کلام ہے۔کلام دو ہی ہیں ۔وحی یاپھر اِلہامی گفتگو۔سواے ان کے باقی فساد ہے۔
یہ تمام سُروں سے زیادہ خوب صورت ہے ۔اِسے سُننے اَور اِسے سمجھنے کے لیے ریاضت کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply