کشن گنگاکی وادی(قسط1 )- جاویدخان

ہمارے پاس سرپٹ دَوڑتے گھوڑے تھے اَور نہ ہی کہانوں والے اُونٹ،توان کی کہانوں پر کیاخاک لادتے ۔۔؟جس وادی سے ہم رُخصت ہورہے تھے ۔وہاں اَب خیمہ نشیں توکوئی نہیں تھا۔کنکریٹ کاجنگل اُگ آیا ہے اَور یہ گھنا ہوتاجارہا ہے۔کبھی تو یہاں خیام ہوئے ہوں گے۔پرل (وادی راولاکوٹ )لمباگھاس دار میدان ہواہوگا۔جس کے بیچوں بیچ اک اُجلی بلوری ندی اپنی سکھیوں سے ہم جولیاں کرتی بل کھاتی بہتی تھی۔اس کے اُجلے کلکاریاں کرتے جل میں ساگ اُگتاتھا۔سرد دنوں کی یہ سبزی اَپنے اَندر سخت گرم تاثیر رکھتی ہے۔یہاں کے باسی اَپنے مٹیالے ڈھاروں میں اُپلوں کے دُھویں میں بستے تھے۔اَور ڈھارا زن مویشیوں کے ساتھ گُزران کرتے تھے۔اِن کاخالص دُودھ ،مکھن ،لسی ،گھی اَور چھو(ساگ ) کھاتے تھے اَور اُجلا پانی پیتے تھے۔
اگر کبھی تصور کی آنکھ سے دُور پیچھے جاکر دیکھوں تو پہاڑ کی کِسی چوٹی پر سے پرل (وادی راولاکوٹ )ایک گول پیالے جیسا گھاس دار میدان تھا۔کہیں کہیں اُپلوں کادُھواں شفاف نیلگوں آسمان کو گاڑھا ہو کر بلند ہوتانظر آتاہے۔میدان کے درمیان کوئی کوئی درخت جو دوپہر کی کڑی دھوپ میں اُونگھنے لگ جاتا۔اَور ڈھارازنوں کے ڈور ڈنگر اس اُونگھتے درخت تلے آکر جگالی کرنے بیٹھ جاتے۔

اَگر مَیں اِس سے بھی پیچھے جاؤں توکس سے ملوں ۔؟اَور کیاکہوں ۔؟کیاپوچھوں ۔؟زبان اجنبی ،اُجلے دُھلے لفظوں کی اَدھ شناسائی اَور پھر وہ بھی گُم ہوجاتی ہے۔رہ جاتاہے تو دھرتی کااُجلاپاکیزہ حسن۔پرل (وادی راولاکوٹ )کے میدان پر اُجلاجَل سورج کی کرنوں میں چمکتاہے اَور دھان کے کھیت سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔ کچے چاولوں کی خوش بُو سے دھرتی مہک اٹھی ہے۔اَور پیچھے دُور۔۔ ۔۔ بہت پیچھے زعفران کے پھول جابہ جا کھلے ہیں۔ان کے ساتھ جنگلی پھولوں کی ہر سومہک ہے۔فضامیں خوش بُو ہے۔نمی ہے اَور سادہ زندگی میں نکھار ہے۔ڈھاروں کی دیواریں رنگ دار مٹی اَور چاولوں کے پانی سے کاڑھے گُل بوٹوں سے مزین ہیں۔نسوانی ہاتھوں کو مشقت کی چاٹ ہے۔فطرت کی گود میں سنورنا، سنوارنا،سجنا اَورسجانا جاری ہے۔گھاگروں کی ڈھولک ،چوڑیوں کی کھنک ،قدموں کی دھمک ،ڈھیلے ڈھالے کشادہ لبادوں اَور بھاری بھر دوپٹوں میں چھپااُجلانسوانی رُوپ پرل کے فطری حُسن کے ساتھ مسکراہٹیں بکھیر رہا ہے۔

مَیں پلٹاتو سامنے دائیں طرف کرسی پر بیٹھا آصف نذیر مجھے کچھ کہہ رہاتھا۔شاید کہا ہو دیکھو میرے پاس رہ کر اِتنے دُور نہ جایا کرو۔پار کی کُرسی پر عمران رزاق تھا،برابر میں کاشف نذیر اَور گاڑیوں ،مشینوں کی کھٹ کھٹ ۔نہ میدان،نہ خیمے نہ اُونٹ اَور نہ ہی سرپٹ دوڑتے گھوڑے۔فولادی جسم ،فولادی سی دُنیا ،فولاد میں لِپٹی فکر،نہ فطرت، نہ چشمے نہ نسوانی چوڑی کی کھنک ۔مشینی زندگی کے مشینی اَحساسات۔تو جب اُونٹ بھی نہ تھے اَور گھوڑے بھی نہیں تو ان کی کہانوں اَور پیٹھوں پر کیالادتے ۔؟ خاک لادتے ۔؟

دفتر (جس میں ہم بیٹھے تھے۔) اَور عمران رزاق کے گھر کے درمیان گنجان سڑک پر دو فولادی ڈبے آن کھڑے ہوئے۔ان کے مالک تھے راحیل خورشید اَور عاشق حسین ۔ان ڈبوں کی کہانیں نہیں ہواکرتی۔ان کے پیچھے ایک صندوق جڑاہوتاہے۔جسے یہ لوگ ‘ڈکی ’ کہتے ہیں۔ان صندوقوں میں ہم نے سامان رکھا اَور دو لوگ انھیں مظفرآبادکی طرف دَوڑانے لگے۔
اس بار قافلے میں سات اَرکان تھے۔سیاہ کالے ڈبے (کار)میں عاشق حسین ،راحیل خورشید ،شفقت اَور اعجازیوسف بیٹھ گئے۔سفید ڈبے میں کاشف نذیر،عمران رزاق اَور مَیں سماگئے۔عمران رزاق کو اَگلی نشستوں میں سمانا اچھا لگتاہے۔اَگر اُن سے یہ موقع چھین لیا جائے تو اُن کے اَندر کابچہ منمنانے لگتاہے۔کاشف نذیر میرے کالج کے ساتھی ہیں۔اَب کینیڈا میں قدم جماچکے ہیں۔گذشتہ نو سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔عاشق حسین یورپ کی زمستانی ہواؤں اَور گرم مزاجی سے بچھڑ کر اَب مشرق کے سوئٹزرلینڈ (کشمیر ) میں یو فون کی (فرینچائز ) کھولے بیٹھے ہیں۔عمر کی درمیانی حد پار کرچکے ہیں ۔مگر شاداب ہیں ،پات ہرے ہیں اَور بہاراں ہے۔راحیل خورشید بینکار ہیں ۔چست بدن ہیں۔ماضی میں کالج کے وسیم اَکرم وغیرہ ہوتے تھے۔شفقت قافلے اَور پھر قافلہ یاراں کاسب سے پھرتیلاکردار ہے۔جس سفر میں شفقت ہو آدھا بھار اُن پر چلاجاتاہے۔اَور انھیں یہ وزن سنبھالنا آتاہے۔اَخراجات ،بھاؤ تاؤ،سڑک کی دُشواریاں ،کھانا پینا سب شفقت کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔اعجاز یوسف یورپ ہوتے ہیں۔عارضی چھٹی لے کر وطن آئے تھے۔

پاک گلی اَور سرکتی چوٹیاں :۔
گاڑیاں سڑک پر آگے پیچھے دَوڑ رہی تھی۔گاڑی بان کاشف نذیر تھے۔مجاہد آباد (بازار ) سے گُزرنے کے بعد ایک جگہ سامنے پار پاک گلی (بازار ) آنکھوں میں اُبھرنا شروع ہوجاتاہے۔یہاں زندگی ڈھلوانوں پر آباد ہے۔جب کہ ڈھلوانیں اُوپر آسمان سے نیچے کو سرکتی آتی ہیں۔جیسے کہیں مثلثوں کے وتر ٹیڑھے میڑھے ہوکر رہ گئے ہوں ۔فطرت کے بنائے ان وتروں پر نشیب و فرازمیں انسانی اَور نباتاتی زندگی حسین منظر پیش کرتی ہے۔اَور یہ خود پربتوں کاحسنِ لازوال ہیں ۔ڈھلوانوں کے قدموں میں نالا ماہل بہتاہے۔ پھر نالے کے پار اک پہاڑ پھر سے اُوپر کو بلند ہونے لگتاہے۔ یہ نالاآزادکشمیر کے ضلع پونچھ اَور ضلع باغ کے درمیاں آبی سرحد ہے۔بڑے پھیلے ہوئے چوڑے خشک پاٹ میں پانی کی اک آب جو بہتی رہتی ہے۔اَور جب طوفانی بارشیں منہ  زوریاں کرتی ہیں تو یہ نالا ہے پیر پنجال،گنگاچوٹی ،تولی پیر اَور ضلع پونچھ کاآدھا بہاؤ سنبھالتاہے۔تب یہ اک چھوٹی سی آب جو نہیں ٹھاٹھیں مارتا منہ  زور دریا ہوتاہے۔جسے دیکھ کر ہی سر چکرا جاتاہے۔

شام ہوئی ،پنچھی لوٹ آئے:
ڈھلوانی وادیوں پہ سورج ڈھلنے لگاتھا۔اَور ہم منزل کی طرف ڈھلتے جا رہے تھے۔ڈھلتے ڈھلتے شام ہوگئی۔پرندے  آشیانوں کو جانے لگے ۔چوپائے جویہاں چر رہے تھے تو وہ بھی اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔ہاں دو پایوں سے اِردگرد کی زندگی آباد تھی۔سڑکوں پر اَور بازار میں چہل پہل تھی۔ہماری رہ گزر (سڑک ) خاموش تھی ۔رہ گزر وہ رستہ  ہے جہاں مسافرانِ زمانہ کی زندگیاں چلتے چلتے تھک کر ٹھہر جاتی ہیں،رک جاتی ہیں اَور پھرخاموش ہوجاتی ہیں۔ہر رہ گزر کی طرح ہماری رہ گزر نے نہ جانے کتنے مسافران ِ زمانہ کو چلتے چلتے تھک کر اَور پھر گر کر خاموش ہوتے دیکھا ہوگا۔رہ گزر خاموش تماشائی تھی۔اَور مسافران ِزمانہ اَپنی دُھن میں مست منزلوں کو لڑھکتے جارہے تھے۔کتنی ہی شاموں نے اس رہ گزر پر شام کردی ہوگی ۔ہماری آج کی شام اُن میں سے ایک تھی۔کچھ پرندے دائیں آسمان پر اڈاریں مارتے بائیں طرف کو اپنے مسکنوں کی طرف جارہے تھے۔اُن کے ہاں بھی شام ہوگئی تھی۔اَور شام پیغام ہے اپنے آشیانے کو لوٹ آنے کا۔

شامیں اُداس ہوتی ہیں۔اگر کوئی شام رنگین ہے تو رنگینی نظر کادھوکاہے۔ہرچیز کاایک ظاہر ہوتاہے اَور اک باطن ۔شام کاباطن اُداس ہوتاہے۔کیوں کہ اک دن ،وعدے،عہد،تمنائیں ،خواہشات اَور وقت کاایک حصہ ہم سے ہمیشہ کے لیے چلا جاتاہے۔شام فطرت کاخاص تحفہ ہے۔ایک سبق جو ہرروز فطرت دہراتی ہے۔کہ آخر شام نے آناہے۔ہر بہار،ہرخزاں ،ہر جیون پر شام نے گزرناہے۔

راحیل خورشید اپنے ہم سفروں سمیت گُم ہوچکے تھے۔مغرب کی اَذان ہوچکی تھی۔یہاں خانہ خدا ایک نشیبی جگہ پرتھا۔ہم اُترے ،وُضو بنایااَور مسجد کے کشادہ برآمدے میں نماز پڑھی۔اندرونی ہال میں رونق تھی۔نماز کے بعد گاڑی میں بیٹھے اَور راحیل خورشید کے تعاقب میں چل دیے۔ارجہ بازار تک شام گہرے اندھیرے میں بدل چکی تھی۔شب کی سیاہی آہستہ آستہ پربتوں کو ڈھانپنے لگ گئی تھی۔جو سفر اُترائی میں اَرجہ تک تھا۔اَب دھیر کوٹ کی طرف بلند ہونے لگا۔چیڑوں کے بلند قامت درختوں کے درمیان ہم بلند ہونے لگے۔موڑ کے بعد ایک اَور موڑ ہمیں پہلے سے بلند کرنے لگاتھا۔کتنے ہی موڑ زندگی میں بلندیوں سے نوازتے ہیں اَور کتنے ہی موڑ اُترائیاں اُترنے میں مددگار ہوتے ہیں۔منزل بلندی کی طرف بڑھتے ہوئے ملے یااُترائیوں کے بعد ،دونوں عمل فائدے کے ہیں۔ہاں کسی موڑ پر لڑھک جانے کے بعد منزلیں نہیں سخت پتھریلی پستیاں توڑدینے کے لیے استقبال کرتی ہیں۔
دھیر کوٹ بازار سے گُزرنے کے بعد ہم پھر نشیب کوسرکنے لگے ۔ہر موڑ ہمیں پہلے کے مقابلے میں ایک درجہ نیچے لیے جارہاتھا۔چمن کوٹ کے اک موڑ پر راحیل قافلے سمیت ہمارے منتظر تھے۔یہاں اک کشادہ موڑ پر محکمہ سیاحت نے چائے اَور لوازمات کے ساتھ تواضح کاانتظام ہر سیاح کے لیے کررکھاتھا۔

ہم نے اَپنے متحرک ڈبوں کو بھی آرام دینے کافیصلہ کیا۔چناں چہ انھیں کشادہ سڑک کے ایک طرف آرام کی غرض سے خاموش کردیاگیاتھا۔تازگی (ریفریشمنٹ )کے لیے صرف اَچھی چائے ہی نہیں اَچھی جگہ اَور آب و ہوایاماحول بھی ضروری ہوتاہے۔جو آپ کی طبع کوتازہ کردے۔ہم نشیب میں اُترے کہ یہاں ایک چبوترہ نماجگہ پر ہمارے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ہم آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔چائے آئی اَور ساتھ پکوڑے بھی۔چھوٹی سی بیٹھک ہوئی ۔دھندلکے میں تصویر کشی بھی اَور پھر سے عازم سفر ہوئے۔
چمن کوٹ میں ایک ٹی بی ہسپتال ہے۔یہ کافی پُرانا ہے ۔یہاں چیڑ کے جنگلوں میں ،چیڑ کی سلاخوں سے مل کر آنے والی ہوامُرجھائی ہوئی طبعیتوں کے گلے لگ جاتی ہے۔تو جیون میں بہار آجاتی ہے۔یہاں برسوں کے بیمار تن درست ہو کر جاتے تھے۔آج کانہیں پتہ ۔

قافلہ آگے بڑھا تو بائیں ہاتھ چودھویں رات کا چاند شباب کی مستی لیے ذرا چہل قدمی کو نکلاتھا۔اَور شباب تھا کہ اُبھر تاآرہاتھا۔پار پاکستان میں خیبر پختون خوا  کاپہاڑ برقی قمقموں سے جگ مگ کررہا تھا۔انسانی بساؤ سے زمین لدی جارہی ہے۔اَور اسے لادنے بھرنے پر ہمیں سب سے زیادہ فخر ہے۔ہمیں کوئی اَور کام آئے یانہ آئے ۔اس کار خیر میں سب سے زیادہ حصہ ہماراہے۔ اعجاز یوسف ہماری کار میں آبیٹھے ۔یوں زمانہ کالج کی کہانیاں ،واقعات ،تدریس ،آوارگی ،سیاست اَور عہد رفتہ انگڑائیاں لے لے کر سامنے آنے لگے۔ہم دیکھتے گئے اَور بیان کرتے گئے۔چاند اَب دائیں ہاتھ پر روشن تھااَور سامنے جامعہ شاہ عبدالعزیز سڑک کے اطراف میں روشنیوں میں جگ مگ کررہی تھی۔

عمران رزاق نے یہاں چھوٹے سے بازار کاتعارف کرواتے ہوئے کہا‘‘یہ چشتیہ بازار ہے۔’’ تصوف کے سلسلہ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی ؒ ۸۹ سال کی عمر میں  941ء میں فوت ہوئے تھے۔برصغیر میں یہ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے ذریعے پہنچا ۔خواجہ معین الدین اس سلسلہ کے بڑے صوفیامیں شمار ہوتے ہیں۔مظفر آباد شہر سے چند کلومیٹر پیچھے لب دریا ،اس قصباتی بازار میں تصوف کایہ سلسلہ کب اَور کیسے پہنچا ۔؟کیاقلوب کے تذکیے کاعالمی نصاب  یہاں بھی پڑھایا جاتاتھا۔؟خواجہ ابو اسحاق شامی ؒ کو دنیا سے گزرے 1081 سال ہوچکے ہیں ۔مگر ان کے ترتیب دیے باطنی نصاب نے شاید دنیا کے ہر کونے میں اپنی درس گاہ اَور طلباء پیدا کیے ۔اور ساتھ ساتھ اسی درس گاہ کو جدت و ترقی کی منازل تک لے جانے والے اساتذہ بھی ۔جن میں معین الدین چشتی ؒ،اجمیری ؒاَور اَمیر خسرو ؒ جیسے عالم لوگ تھے۔

چشتیہ بازار کے قرب میں ایک درس گاہ علوم ظاہر ی کی فیض بانٹ رہی ہے۔دنیا بھر کی درس گاہیں علوم ظاہر ی کی ترقی میں پیش پیش ہیں۔اَور ٹیکنالوجی کی معراج جو اس صدی کو نصیب ہوئی ،ماضی کی کسی صدی یاعہد کے حصے میں نہیں آئی ۔مگر اس کے باوجود انتشار ،غیر مساویانہ اَور عادلانہ معاشرہ ،کشت وخون ،علم طاغوت کے ہاتھوں یرغمال و پامال ہے۔کچھ تو کمی رہ گئی ہے ان درس گاہوں میں کہ پورا انسانی معاشرہ ایک گاؤں کی شکل میں جڑ کر بھی ایک گھر کاانسان ،گھر کے انسان سے دور ہے۔؟
میری سوچوں کادریا مجھے بہائے لیے جارہا تھا۔اَور میرے باہر بھی اک دریا میری مخالف سمت میں بہے جارہا تھا۔ان دریاؤں کے کنارے اَور بیچ ڈوبتا اُبھرتا مظفرآباد  شہر میں داخل ہوا۔

خانہ بدوش ہوٹل :۔
پیر چناسی (پہاڑ )کی چوٹی پر چند قمقمے جھل مل کررہے تھے۔اَور چودھویں رات کاچاند چوٹی کے اُوپر روشن تھا۔خانہ بہ دوش ہوٹل لب سڑک تھا ۔ہوٹل کی چھت پر بان کی چارپائیاں بچھی تھی۔ہم چھت پر پہنچے تو کافی سارے خانہ بہ دوش ،کھاناکھارہے تھے۔پیر چناسی ہمارے سامنے تھی۔چودھویں کاچاند ابھی پہاڑ کی ترائی میں چھائی تاریکی پوری طرح ختم کرنے میں ناکام تھا۔ اسے مزید آگے بڑھنا تھا تاکہ ترائی اَور ڈھلوان روشن ہوسکے۔ ہمارے سامنے لوہے کی سلاخوں پر سنگ مرمر کی سلیں لگادی گئی تھیں۔یہ میزیں لوہے اَور سنگ مرمر کے تعلق نے ترتیب دی تھی۔چار پائیوں کے بیچ ایک میز تھی۔

پیم درنگ کایہ چھوٹا ٹکڑا مدتوں بعد راجا مظفر خان نے آباد کیا تھا۔یہ باہیں پھیلاتا گیااَور دُور تک مظفرآباد ہوگیا۔راجا مظفر خان کی گور تک گُم نام ہے ۔ ہمارے اس خانہ بہ دوش ہوٹل سے کچھ دُور اپنے وقت کاراجامظفرخان ایک گُم نام گور میں سویاپڑا ہے۔جہاں آج یہ گور ہے کبھی ایک بڑا اَور ویران میدان رہاہوگا۔مگر مظفر خان کی آبادکاری ہے کہ رُکے نہیں رُکتی ۔آبادی بڑھتی گئی اَور پھر پہاڑوں پر چڑھ گئی ۔برقی قُمقمے شب کی تاریکی میں اِس کے گواہ تھے۔نیچے اَور ذرا پیچھے بڑے پُل کے نیچے سے دریائے جہلم اَور کشن گنگا مل جل کر بہہ رہے تھے۔ایک دریا دُوسرے میں آ کر ضم ہوگیاتھا۔اُس نے اپنا وجود اَور اپنا نام تک مٹا دیاتھا۔مرمٹنا تو اسے کہتے ہیں۔ایک دریا دُوسرے کے لیے مر گیاتھایااس نے خود کو مار دیاتھا۔اصطلاح میں اسے دریا کی موت کہتے ہیں۔۔یہ کوئی خود کُشی نہیں بلکہ  خوشی خوشی اپناآپ کسی کوسونپ دینے کی خوب صورت اَدا ہے۔جغرافیہ دان یاکوئی اَور اسے موت بے شک کہے مگریہ خودسپردگی ہے۔اپنے آپ کوکسی کے حوالے کردینااتناآسان تو نہیں ۔مگر اک سچے صوفی کاپہلا اُصول یہی ہے۔خود سپردگی ایک پُرخطر کھیل ہے۔جہاں دنیائیں بنتی بھی ہیں اَور مٹتی بھی ہیں۔اَور ایک دریا یہ کام بہ خوبی اَور بڑی بے خوفی سے کردیتاہے۔کیادریا ایک سچاصوفی ہوتاہے۔؟کیادریاکاراستہ ایک سالک کاراستہ ہوتاہے۔؟ملنا،مٹنا،مرنااَور پھر نیاجیون پانا۔۔۔۔۔یہ سب کیاہے۔؟

یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک اَور دریا ،دریاے کنہار آکر خود کو مٹادیتاہے۔پھر دُور یہاں سے کافی دُور بہت پیچھے ایک نیلگوں دریا ‘پُونچھ’ بہتاہواآتاہے اَور آتے ہی گُم نام ہونا پسند کرتاہے۔مرنے ،مٹنے اَور گُم نام ہوجانے کی اِن اَداؤں کو کیانام دیاجائے۔۔۔؟اَور پھر جہلم جس پر کہیں چھوٹے بڑے دریا مٹ مرے تھے وہ خود کو آگے ایک اَور دریا کو سونپ دیتاہے۔نام ہے سندھو دریا۔سندھو تڑپتاہوا،پھنکارتاہواعظیم سمندر میں گُم ہوجاتاہے۔کشش کایہ عظیم قانون کیاکہلائے گا۔۔۔؟کِسی اصطلاح کی دریافت کامحتاج ہے۔ہم کشش ،ملن ،نامی اَور گُم نامی کی کہانیاں بُنتی اِن ندیوں کی ہم سائیگی میں خانہ بہ دوش ہوٹل پر کڑاہی کے منتظر تھے۔بھوک نے ضرور ستایاہوگا۔مگر ندیوں کے کنارے ،جہاں وقت کی ندی بھی بہہ رہی ہو بھوک ستاکر پھر سستاکر چلی گئی ہوگی۔

تہذیبوں کاپھیلاو اَور سکڑاؤ:۔
ہم کڑاہی کے منتظر تھے ہمارے اِردگرد اَور بھی ہوٹل تھے۔دکانیں تھیں اَور خریدار تھے۔ہوٹلوں کے نام‘ کانٹی نینٹل ’اَور‘ گرینڈ ہوٹل’ تھے۔دوافروشوں نے اَپنی دکانوں کے نام فلاں اَور فلاں کیمسٹ رکھے ہوئے تھے۔یہ بھی ایک عظیم پھیلاؤ ہو رہاتھااَور سکڑاؤ بھی۔آہستہ آہستہ دبے قدم ،بالکل چپکے چپکے ایک تہذیب پھیل رہی ہے اَور ایک سُکڑ رہی ہے۔پھیلاؤ میں آنٹیاں ،ممیاں ،آپیاں ،سر اَور میڈمیں پیش پیش ہیں ۔جب کہ دادو،دادی ،نانو ،نانی ،بڑے اَبے ،چاچے ،مامے ،پھوپھوشرمندہ شرمندہ پاؤں سمیٹ چکے۔شاید عزت اسی میں ہے۔

شاہرائے مسافرت :۔
مظفرآباد تو راجامظفر خان کے نام پر نام وَر ہوا۔مگر علاوہ کہیں راجاؤں نے یہاں پر حکم رانی کی۔ہیوگل (چارلس وان ہیوگل )۱۸۳۰ ء کے عشرے میں یہاں سے گُزرا تھا۔کشمیر میں اُسے خاص دلچسپی تھی۔بھارت سے جموں وہاں سے کشتواڑ،سانبہ ،سری نگر اَور پھر اَوڑی سے ہوتاہوامظفرآباد پہنچا۔یہاں سے وہ پنجاب میں داخل ہوا۔۱۸۳۰ ء میں مظفرآباد کاکرتادھرتاراجازبردست خان تھا۔ہیوگل کو یہ نام بہت پسند آیا۔یوں اَپنے سفرنامے میں اُس نے اس نام کامفہوم بھی لکھاہے۔وہ اُن رستوں سے بھی گُزرا جہاں اس سے قبل برنیئر گزر چکاتھا۔رستے میں اُس نے لوگوں کے حالات ،نباتات،چرند پرند اَور جغرافیائی خدوخال کابہ خوبی مشاہدہ کیا۔وہ نام جو تب اُس نے اَور اُس کے پیش رووں نے ان جگہوں کے لکھے تھے آج نہیں ہیں۔وہ نباتاتی اَور حیواناتی زندگیاں جو اُس نے تب دیکھی ،آج ناپید ہیں ۔
پیر پنجال کی ترائیوں میں اُس نے ریچھوں کی حرکات کامشاہدہ کیا۔خطرناک ڈھلوانوں سے گر کر سوار اَور سواروں کو جنھیں گہری کھائیاں نگل چکی تھیں۔اُن کی ہڈیاں اَور دیگر باقیات نقدآنکھوں سے دیکھی۔پیر پنجال کے دامن میں سفر کرتے کرتے یہاں کے دل فریب نظارو ں نے اُسے ٹھنڈک پہنچائی تھی۔راجوری کواُس نے تب راجوڑ کہا۔
بڑی اَور لمبی دُم والاسفید چیتااُس نے پیر پنجال کی کھڑی دُشوار ڈھلوانیں چڑھتے ہوے اَپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بہ قول اُس کے ان پہاڑوں کے دامن سے اُسے اُجلی سفید برف سے لدے تبت کے پہاڑ نظر آئے۔اُسے یہ سارے نظارے بہت پیارے لگے۔وادیاں ،جنگل ،پہاڑ ،برفیں ،اُجلاجل لیے بہتی ندیاں ،آب شاریں ،نخلستان اَور دریا۔اُسے وادی میں مجذوب اَور فقیر ملے ۔ہیوگل کے اک محافظ نے جب چم گادڑ کو شکار کیا۔تو اس گھنیرے پیڑ تلے مراقبے میں بیٹھے اک درویش نے ،مراقبے سے اُٹھ کرزخمی چم گادڑ کو اٹھایااَور ہیوگل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔‘‘کیاتم نے کبھی سوچا ہے کہ تم زندگی میں کوئی بہتر عمل کرلو۔بجائے اس کے کہ اَپنے ملازموں کوکھلی چھٹی دے دو کہ وہ اللہ کی معصوم مخلوق کوہلاک کرتے پھریں۔’’
پونچھ کی مغل سراے اسے بہت پیاری لگی۔یہاں کے نظارے،اردگر دچراگاہیں ،پہاڑ،پربت ،پرندے اَور گنگناتی ندیاں ۔اس رات جب وہ یہاں ٹھہرا تھا۔تب رات بہت سرد تھی۔مگر ہاتو رات بھر باہر اَلاو جلائے بیٹھے رہے۔پھر اک درویش کہیں سے نکل آیا اَور جاگتے ہیوگل کے خیمے میں آکر اس کے پاس بیٹھ کر صوفیانہ کلام گانے لگا۔ہیوگل کو وہ اَجنبی زبان میں گایاہواکلام سحرزدہ کرتارہا۔
دریائے توی پارکرتے ہوئے اُسے یہ دریاتب بلور کی مانند شفاف لگا تھا۔آج توی گدلاہے اَور بہ مشکل تن ڈھانپ کر چلتاہے۔اُس کی وہ گذر گاہ ،جو کبھی پیچ در پیچ پہاڑوں میں گہری ہواکرتی تھی۔اَب بھینسیں اُسے پامال کرتی رہتی ہیں۔جموں سے سری نگر جاتے ہوئے اُسے رستے میں ‘دندرہ ’سے پیچھے ایک پہاڑ کے دامن میں فقیر ملاجو وہاں جھونپڑی ڈالے بیٹھاتھا۔اس شاہراہ پر چل کر تھک جانے اَور یہاں سستانے کے لیے بیٹھے مسافروں کی مفت خدمت کرتا تھااَو ر ٹھنڈا پانی پلاتا تھا۔
برنیئرنے ۱۶۶۵؁ء میں کشمیر کاسفر کیاتھا۔اُس نے ایک آئرش شاعر تھامس مو ر کاذکر کیاہے۔جو بن دیکھے کشمیر کے سحر میں مبتلاہو چلاتھا۔تھامس مور نے کشمیر پر ایک نظم لکھی تھی ۔جو آج بھی اَور تب اَپنے وقت میں بہت مقبول ہوئی تھی۔‘لالارُخ ، مور کی ایک رُومانوی نظم ہے ۔جسے کئی مغربی موسیقاروں نے گایاہے۔لالارُخ کاتاناباناایک اَفسانوی قصہ ہے۔
ہیوگل برنیئر کے نقش قدم پر چلتا ہوااک دن سری نگرکے نزدیک ایک بلند جگہ قدیم کھنڈرات میں گیا۔بہ قول اس کے یہ جگہ ماضی میں پانڈو خاندان کادارلحکومت تھی۔پانڈو جنھوں نے کشمیر پر لگ بھگ ۱۳۰۰ سو سال حکومت کی تھی۔اَور پانڈو لوگ ۲۵۰۰ سال قبل مسیح میں زوال پذیر ہوگئے تھے۔پانڈو لوگوں کے دَور میں کشمیر کی سرحدیں ہندوستان کے ‘میڈورا’ علاقوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ہیوگل کے پیش رووں میں ٹالمی ،پلانئی اَو ر سمولائنس نے اَپنے اَپنے وقتوں میں اس سرزمین پر شب وروز گذارے۔

ماضی کے جس دارل حکومت (کھنڈرات ) میں وہ (ہیوگل )کھڑا تھا۔اُس دن اُسے وہی کھڑے کھڑے سورج دیوتا ڈوب گیاتھا۔ اَور روز کی طرح اُس دن بھی،ایک تاب ناک دن کااِقتدار لیے سورج راجا پہاڑوں کی اَوٹ میں چلاگیااَور پیر پنجال پر دُھند روئی کے سفید گالوں کی طرح رہ گئی تھی۔جیسے پانڈو خاندان کاعظیم اِقتدار کاسورج ۲۵۰۰ سال قبل مسیح میں ڈوب گیاتھا۔اَور اس تاریخ پر پیرپنجال کی روئی دار دُھنکی ہوئی دُھند نہیں سیاہ کالی اَور مٹیالی دبیز دُھند پڑ چکی ہے۔جہاں دیکھنا اَب شاید اتنا آسان نہیں رہا۔
1880ءکے لگ بھگ مظفرآباد کی آبادی صرف ۲۱۰۰ نفوس پر مشتمل تھی۔ایک کچا مگر ستھرا بازار یہاں ہوتاتھا۔گھوڑے ،خچر اَور ٹٹو یہاں ڈھلائی اَور لدائی کیاکرتے تھے ۔ساتھ ذرائع آمدورفت بھی تھے۔۲۱۰۰ نفوس کے درمیان ہندوؤں کی تین ذاتیں برہمن،کھشتری اَور شودر بھی یہاں آباد تھی۔ایک بڑی تجارتی شاہراہ یہاں سے گذرتی تھی۔یہاں سے سکردو ،کابل اَور ریاست کے باقی حصوں کو جاتی تھی۔کشن گنگا اَور جہلم کے سنگم کے قریب ایک کشتی گھاٹ ہواکرتاتھا۔یہاں دریاکے آرپار کشتیاں چلاکرتی تھیں۔یہ کشتیاں دیودار کے بڑے بڑے تنوں کو اَندر سے خالی کرکے بنائی جاتی تھیں۔ان کااگلاحصہ نوکیلاہوتاتھا۔یوں پانی بہ آسانی کاٹ کر یہ سادہ ترین آبی سواری سطح آب پر رواں رہتی تھی۔رایئٹ برادران نے جو پہلاجہاز ایجاد کیاتھا۔آج بہت ترقی پاچکاہے۔مگر ہمارے برادران کی ترقی یہاں معکوس میں چل رہی ہے۔صفرسے نیچے کے ہزارویں درجہ تک کاسفر کرچکی ہوگی۔منزل ہنوزدُور ہے اَو ر سفر جاری ۔یہاں وہ پہلے پہل کی سادہ دریائی سواریاں تو گم ہوچکی ۔اَب دریا بھی گم ہونے کے ِابتدائی درجوں پرہیں۔رایئٹ برادران کاجہازاَور نام موجودہے۔ہمارے ان انجنئیروں کی وہ پہلی ایجاد ،جب پہلی بار اُنھوں نے اس طوفانی ریلے میں وہ چھوڑی ہوگی۔نام اَور وہ اِبتدائی نشاں کدھر ہیں۔؟

یوں تو ہیوگل ماہر نباتات بھی تھا۔اَور اُس نے یہاں کے نباتات پر بھی کام کیا۔مگر جن ماہر طیببوں نے اِن نباتات پر ہیوگل سے بہت قبل اَپناکام مکمل کرلیاتھا۔وہ کام اَور وہ نام آج کدھر ہیں۔ہیوگل کے نقشے ،کام اَور نام کوآج اُس کے ورثانے پوری طرح سنبھال کررکھاہواہے۔
دریائی سنگم کے اس پڑوسی مقام پر یہ آبی گاڑیاں ،اَپنے وقت کی سب سے سادہ،جدید اَور گاڑی کی عام شکل تھی۔ لکڑی کے اِس لمبوترے اَور گہرے گہڑے میں انسان ،اُن کاسامان اَور مویشی باآسانی آر پار آتے جاتے تھے۔ تجارتی سامان ریاست اَور بیرون ریاست بھیجااَور لایاجاتاتھا۔یُوں اس کشتی گھاٹ سے اُس وقت حاصل ہونے والامحصول (ٹیکس )ایک لاکھ روپیہ سالانہ ہوتاتھا۔
آج نہ کشتی گھاٹ ہے نہ وہ سادہ آبی گاڑی،نہ کشتی کھینے والے ،نہ ہی مظفرآباد کی ۲۱۰۰ نفوس والی آبادی ۔نہ گھوڑے ہیں نہ خچر نہ کچی دکانیں اَور نہ ہی یارقند کے تاجر۔خانہ بہ دوش ہوٹل کے سامنے سڑک پر موٹر کاریں ہارن بجاتی گذرتی جارہی تھیں۔نیچے جہلم اَور کشن گنگا کا کتناہی پانی بہہ چکاتھااَور کتنا ہی وقت پانی بن کربہہ گیاتھا۔دریاکاشور اَور سامنے سڑک پر دُھواں چھوڑتی موٹر گاڑیاں ۔۔۔ماضی کو یہاں دیکھنے کی کسے فرصت تھی۔دریا،پانی ،انسان ،سواریاں ،سواراَور وقت سب جلدی میں تھے۔کہاں جانا چاہتے ہیں ،کہاں سے آے ہیں ۔پھر آکر یہ سارے لوگ کہاں چلے جاتے ہیں ۔شاہراے مسافرت کے مسافروں میں شاید کوئی کوئی مسافر ہی یہ سوچتاہوگا۔

مَیں آج بھی روزانہ جس سڑک پر سکول آتاجاتاہوں۔وہ تقریباً ویسی ہی ہے جیسے میرے بچپن میں تھی۔سکول آتے ہوئے دائیں طرف ایک بوڑھاجوڑابلاناغہ میری خیر خیریت پوچھاکرتاتھا۔یہ بزرگ جوڑاہمارے پڑوسی میاں بیوی تھے۔اُن کاپوتامیراکلاس فیلوتھا۔چھٹی وقت وہ ایک سبزہ زار پر ہاتھ میں چھڑی لیے مال مویشیوں سمیت موجودہوتے۔بیاڑوں اَور چیڑ کے گھنے درختوں میں گھیری چراگاہ پر اَب ایک خوب صورت قبرستان ہے ۔یہاں وہ بوڑھاجوڑا،اُن کی بہواَورایک پوتی دفن ہے۔اس سڑک پر میرے آگے آگے سکول کے بچے چل رہے ہوتے ہیں۔ایک دن اس شاہراہ پر یقیناً  مَیں بھی نہ ہوں گا۔اَور پھر ایک دن یہ بچے بھی نہ ہوں گے۔یہاں کون ہوگا۔۔۔۔؟میری نسل میں سے کوئی ۔۔۔۔۔؟میراخون ۔۔۔۔میرے شجرے کاوارث ۔۔۔۔؟ مجھے جانتاہوگا۔؟بھلے کوئی بھی ہو۔ مگر مَیں نہ ہوں گا۔اَورایک دن وہ وارث بھی کھپ جائے گا۔
ماضی کتنا ہی سادہ،تکلیف دہ یاآرام دہ ہوبالاآخر ایک خواب ہوکر رہ جاتاہے۔شاہراے مسافرت نے کتنے ہی حال ،مستقبل ،ماضی خواب اَور پھر بھولے بسرے خواب بن کر ہمیشہ کے لیے دفن ہوتے دیکھے ہیں۔ ہر عہد اَورزمانہ کو آخر کار قبرستان ہو جاناہے۔اِن (زمانوں)صدیوں میں سے کسی کسی قبر پر ہی مزار بنتاہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply