• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دنیائے اسلام کے ایک عظیم فقیہہ امام ابوحنیفہ سے ملاقات (قسط16)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دنیائے اسلام کے ایک عظیم فقیہہ امام ابوحنیفہ سے ملاقات (قسط16)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دنیائے اسلام کی ایک عظیم فقیہہ امام ابوحنیفہ سے ملاقات/میرا بچپن تضادات کے ماحول میں گزرا تھا۔سارا گھر عجیب چُوں چُوں کا مربّہ ساتھا۔ننہال مسلک کے اعتبار سے پکا پیٹھا وہابیت کا علمبردار،کمبخت مارا منشی عالم اور منشی فاضل کی سان پر چڑھا ہوا،تنگ نظر پر لڑکیوں کی نوعمری میں شادیوں کی بجائے اُن کی اعلیٰ تعلیم کا سرگرم حامی۔اِس خاندان کی لڑکیوں کیلئے موٹے ڈوپٹے اوڑھ کر ایم اے، ایم ایس سی کرنا تو جیسے کھیل تماشے والی بات تھی۔

نوائے وقت گھر میں آئے تو اشتہاروں والا صفحہ غائب ہو جائے کہ لڑکیاں فلموں کا نام نہ پڑھیں اور لڑکیاں ایسی چالاک خرانٹ اور گُھنیاں سی کہ اُنہیں فلمی ستاروں کے ہر ہر سکینڈل کا علم۔صبیحہ خانم اور سنتوش کمار کا عشق کِس مرحلے میں ہے؟پہلے بیٹے کی ولادت اور شادی کا حساب کتاب سب انگلیوں پر۔درپن شمیم آرا کی بجائے نیّر سلطانہ میں دلچسپی لے رہا ہے۔نیلو کا مسئلہ کیا ہے؟
چھوٹے بڑوں پر نماز روزے کی سختی اور زبردستی کے مظاہرے عام۔نماز کی ذرا سی کوتاہی پر صلواتیں۔کِسی مجبوری پر روزہ نہ رکھنے پر لعن طعن کا ہونا ضروری۔مگر اِن کے ساتھ ساتھ پسندیدہ موضوعات،سیاست پر تبصرے، اُن پرحاشیہ آرائیاں،سعدی کی حکایات،اقبال،حافظ اور مولانا رومی کے اشعاروں کے حوالے اور اُن کے برلب زبان رہنے کو بھی انتہائی پسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔
کارل مارکس کو میں اپنے بچپن سے جانتی تھی۔صرف کارل مارکس ہی نہیں لینن اور اینگلر سبھوں سے متعارف تھی۔وجہ اتنی سی تھی کہ اُس لمبے چوڑے وسیع و عریض گھر میں میرا ایک خالو پکا سوشلسٹ تھا۔

میں مذہبی معاملات میں ہڈحرام اور قدرے باغی سی تھی۔نماز کیلئے مصلّے پر ڈر کے مارے کھڑی ضرور ہوتی پر اگر موڈ نہ ہوتا تو کبھی نہ پڑھتی۔روزے رکھتی اور سکول جاکر توڑ لیتی۔سر پر ڈوپٹہ لے کر کالج جاتی اور وہاں گلے میں ڈالے گھومتی پھرتی۔جب ڈھاکہ یونیورسٹی گئی تو ساڑھیوں اور سلیولیس بلاؤز پہننے کے سبھی شوق اور ارمان پورے کیے۔
ہاں پر جب ماں بنی تو بچوں کیلئے دعاؤں نے اس شُتربے مہار کی ناک میں نکیل ڈال دی تھی۔اُن کیلئے تندرستی اور درازئ عمر کی طلب نے سجدوں کو طویل اور رقّت بھرا بنا دیا تھا۔
یوں یہ بات ضرور تھی کہ اُس گھر میں نظریاتی رواداری بھی تھی اوربرداشت بھی کہ میرے اُس سوشلسٹ خالو کی”شامیں داس کیپٹل” اور اسلام کے موازنوں میں گزرتیں۔صبحوں کا آغاز ریڈیو سیلون کے گانوں سے ہوتا۔سارے گھر میں “مجھے گلے سے لگا لو کہ بہت اُداس ہوں میں “جیسے نغمے گونجتے۔
ایک بار تھوڑی ہزاروں بار یہ سُنا تھا۔ہم حنفی مسلک سے ہیں۔حنفیوں کی خصوصیات کیا ہیں؟جانے میری بلا۔
پر اب بغداد آگئی تھی کاظمین والے اماموں کی زیارتوں سے مستفیذ ہو گئی تھی۔اب امام ابو حنیفہ کی ہڑک اٹھی تھی اور خدا گواہ ہے کہ اس میں اُس لعن طعن اور طعنوں کا خشخاش جتنے دانے برابر ہاتھ نہ تھا کہ جو میری چچی+خالہ نے میرے عراق جانے کا سُن کر کہاتھا۔
”ویسے تو تم پوری مُرتد ہو۔کہنا سُننا فضول ہے پر امام اعظم کے روضۂ مبارک پر حاضری دے دینا۔“
میری یہ خالہ + چچی ذرا سی لبرل ہیں۔بقیہ کچھ خاندان تو سعودی عرب والوں کیطرح اِن ہستیوں کی درگاہوں پر جانے کو ہی بدعت خیال کرتا ہے۔
اور عراق پر کچھ نہ کچھ پڑھنے کے چکروں میں امام بھی زد میں آگئے تھے۔پڑھا تو دنگ رہ گئی۔کتنے گوشے ایسے تھے کہ جن پر بے ا ختیار زبان سے سبحان اللہ نکلا تھا۔
میں تو سچی بات ہے اپنی ہر صبح کا آغاز ایسی ہی مقدس جگہوں سے کرنا چاہتی تھی۔پرافلاق کا کہنا تھا کہ جب تازہ دم ہوں تو چلنے کا کام بھگتائیں تھکیں تو پھر ایسے مقدس مقامات پرآجائیں۔
موسم کی تلخی میں کمی،پرسکون ماحول میں آرام،زیارت نماز، نفل وغیرہ سبھوں کی حُسن و خوبی سے ادائیگی ہوجاتی ہے۔یہ بات عملی طور پر صیح ثابت ہوئی تھی۔
تو آج دوپہر اُس ہستی کیلئے تھی جسے دُنیا ایک عظیم فقیہہ کے نام سے جانتی ہے۔جس کی حق گوئی و بیباکی قابلِ مثال تھی۔جسکے مسلکی پیروکار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

کہیں بھی جانا ہو۔دجلہ کا دیدار تو سانس لینے کی طرح ضروری ٹھہرتا ہے۔ دونوں کنارے بڑے معتبر کہ دو جید عالم داہیں باہیں آرام فرماتے ہیں۔اعظمیہ اور کاظمیہ مشرقی اور مغربی بغداد کو ملانے والا پُل ایمہ Aimmaبرج کے نام سے بھی مشہورہے۔ عمارتوں،درختوں،دجلے کے پانیوں پر بہتے دوپہر کی تیز دھوپ کے سنہری رنگوں سے لُطف اندوز ہوتے گاڑی ایک وسیع میدان میں رُک گئی۔ایک خوبصورت دیدہ زیب مسجد جسکے عین اوپر راڈوں میں پھنسا اللہ اور نیچے محمد ؐ اس عظیم امام کے مسلک کا عکاس تھا۔ مسجد کی خوبصورتی اور رنگ آمیزی میں متانت اور سنجیدگی پنہاں تھی۔عظیم الشان بلندوبالا چوبی کندہ کاری سے آراستہ دروازے پر وردیاں پہنے فوجی بیٹھے تھے۔زنانہ حصّے میں چیکنگ کے بعد اندر وسیع و عریض صحن میں داخلہ ہوا۔اُس وقت میرے مُو مُو میں شکرگزاری تھی۔
دادا زوطی ایران کے آتش پرستوں کی اولاد تھا۔اسلام قبول کیا تو ایران میں رہنا مشکل ہو گیا۔حضرت علی سے خصوصی محبت کی بنا پر کوفے آگئے۔
یہاں شادی کی۔بیٹا ہوا۔ثابت نام رکھا۔دعائے خیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کی۔ثابت کے ہاں اِس گوہر آبدار کی آمد ۰۸ ھ میں ہوئی۔ نام نعمان اور کُنیت ابو حنیفہ تھی۔
مسجد کی کشادگی آنکھوں کو اچھی لگی تھی۔سامنے والے رُخ سے نظر آنے والا چہار پہلو مینار اپنی نقاشی اور زیبائش کے اعتبار سے بڑا خوبصورت نظر آیا تھا۔بمباری سے مسجد کاداہنی سمت والامینار متاثر ہواتھا۔
”اِن کا خانہ خراب ہو۔کل آنے والا اِن کے مقدّر کا زوال انہیں آج ہی آجائے۔“
جاہل عورتوں کی طرح کوسنے میری زبان پر تھے۔ بیرونی حصّے میں اور اندر بھی مرمت و تزئین کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ آرائش اور زیبائش میں شوخی نہیں تھی۔ ایک گھمبیرتا کا احساس ملتا تھا۔دیواریں صرف اللہ کے خوبصورت ناموں سے سجی ہوئیں۔پوری مسجد میں خوبصورت قالین بچھے ہوئے تھے۔لطیف سی خُنکی تھی۔ عمارت ایرکنڈیشنڈ ہے اور ہر مسجد کی طرح خواتین کا حصّہ الگ۔
مزارِ مقدسہ بہت پُر نور اور ایک گوشے میں تھا۔ آئینہ کاری میں بھی بہت بھرمارنہیں ہے۔نفاست اور قرینے کی جھلک ہے۔چاندی اورلکڑی کی کندہ کاری سے سجی جالی سے اندر جھانکا۔لگا جیسے آنکھیں شہد کے ساتھ چپک سی گئی ہیں۔ایک نہیں دو یادیں حافظے کی سطح پر نمایاں ہو کر سامنے آگئی تھیں۔ تیز چھناکے سے ایک منظر یادداشتوں میں اُبھرا تھا۔
گلبرگ کا کوئی آٹھ کنال کے رقبے پر پھیلا ہوا گھر تھا جہاں امریکہ سے آئی ہوئی ایک مشہور سکالر لیکچر کیلئے مدعو تھی۔چاندنی کی طرح جھلملاتی لَو دیتی روشنی میں اندر دیکھتے ہوئے اُس صاحبِ علم خاتون کے الفاظ سماعتوں سے ٹکرائے تھے جو اس نے عورتوں کی محفل میں باتیں کرتے کرتے دفعتاً کہے تھے۔
”مسلمان عورت کو محسنِ انسانیت کے بعد امام ابوحنیفہ کا ممنون ہونا چاہیے۔“
کونے میں سے ایک شیریں آواز اُبھری تھی۔
”رُکیے۔آگے بڑھنے سے قبل کِسی ایک واقعے کی تفصیل بتائیے۔“
مجھے یاد ہے میں نے رُخ پھیر کر دیکھا تھا ایک خوبصورت لڑکی اپنی سرمگین آنکھوں میں عقیدت و احترام کی لوسی دہکائے کچھ جاننے کیلئے مضطرب نظر آتی تھی۔
اور تفصیل کیلئے بغداد شہر بسانے والے عباسی خلیفہ کے محل جانا پڑا تھا۔ خاتون بڑی کامیاب داستان گو تھی۔مدینتہ المنصور میں خلیفہ کے شاندار محل کی تفصیلات، بالکونیوں کا دجلہ کی طرف کھُلنا،دجلے کی پُر اثر ہواؤں، اس کے پانیوں پر تیرتی کشتیوں اور سامنے مشرقی کنارے کی سمت عسکر المہدی کی عالی شان عمارتیں اور کھجور کے درختوں کاحُسن پچیس تیس عورتوں کا مجمع سحر زدہ سا سُنتا تھا۔
دونوں میں تلخی بڑھ گئی تھی۔حرہ خاتون خلیفہ منصور کی بیوی کو شکایت تھی کہ منصور کِسی ایسے فیصلے کا مجاز نہیں جو شرعی لحاظ سے قابلِ قبول نہ ہو۔
جھنجھلا  کر خلیفہ نے کہاتھا”تم ضدی عورت کبھی نہیں مانو گی چلو کِسی مفتی، کسی مُنصف کو بلاتے ہیں۔تب شاید تمہیں یقین آجائے۔“
حرہ خاتون نے حتمی لہجے میں کہا تھا۔
”مُنصف تمہارا نہیں میرا تجویز کردہ ہوگا۔امام ابوحنیفہ کو بلاؤ۔“
منصوریکدم خاموش ہو گیا تھا۔صادق القول، نہ بِکنے، نہ جھکنے، نہ مرعوب ہونے، حق سچ پراستقامت سے کھڑا ہونے والا،حد درجہ بے باک انسان۔بھلا منصور سے زیادہ کون جانتاتھاکہ عباسیوں کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اُٹھانے اور منصور کے مقابلے پر 541ھ میں محمد نفس ذکیہ نے ایک بڑی جمیعت تیار کی۔ امام ابو حنیفہ کی بھی انہیں مکمل حمایت و تائید حاصل تھی۔امام مالکؓ نے بھی خلافت کیلئے محمد نفس کے حق میں فتوی دے دیا۔محمد نفس ذکیہ جی دار اور دلیر تھے پرفن جنگ میں طاق نہ تھے۔شہید ہوگئے۔اب قیادت کا بار ان کے بھائی ابراہیم نے اُٹھالیا۔اُن کی تیاریوں کا اِس درجہ چرچا تھا کہ منصور کی نیندیں حرام۔ دوماہ تک کپڑے نہیں بدلے۔بستر پر لیٹتا۔پل بھر بعد تکیہ اٹھا کر پائنتی پر مارتاپھر سرہانے پھینکتا۔ ایک ہی رَٹ تھی۔ابراہیم کا سر میرے سامنے ہو یا میرا سر ابراہیم کے سامنے بس اور کچھ نہیں۔
امام ابو حنیفہ نے ابراہیم کے جذبہ  جہاد کی نہ صرف زبانی حوصلہ افزائی کی بلکہ عملی مدد چار ہزار درہم بھیج کر کی۔خط بھیجا کہ تمہارے شانہ بشانہ اِس جہاد میں حصّہ لینے کیلئے بے تاب ہوں پر چند ناگزیر مجبوریاں پاؤں کی بیٹریاں بن گئی ہیں۔ لوگوں کی بہت قیمتی امانتیں میرے پاس ہیں۔
منصور کو اِن سب باتوں کا علم تھا۔میدان جنگ میں گو اُس نے ابراہیم کو شکست دی پر بہت سارے ذرائع نے امام ابو حنیفہ کے دلی دُکھ کے برملا اظہار کو مرچ مسالوں کے ساتھ یوں پیش کِیا کہ کاش میں بھی اُس جماعت میں شامل ہوتا جو ظلم کے خلاف حق و انصاف کے لیے جہاد کر رہی تھی۔
اور آج اُن کی بیوی اُسی انسان کو مُنصف چاہتی ہے۔
چند لمحوں تک تذبذب اور گومگو جیسی کیفیت میں رہنے کے بعد منصُور نے سراُٹھایا،بہتر کہا اور اُسی وقت انہیں طلب کِیا۔ ملکہ حرہ خاتون نے اپنی نشست پردے کے قریب رکھی تاکہ خود اپنے کانوں سے امام ابو حنیفہ کا فیصلہ سُن سکے۔
”شرعی اعتبار سے ایک مرد کتنے نکاح کر سکتا ہے؟“
منصور نے سوال کیاتھا۔
”چار۔“امام کا جواب مختصر تھا۔
منصور نے اپنا رُخ بدلا۔پردے کے عقب میں بیٹھی بیوی سے مخاطب ہوا۔
”سُنتی ہو۔“
حرہ خاتون نے دھیمی آواز میں سُننے کا اقرار کِیا۔
منصور خاموش ہو گیا۔اُس کے نزدیک تو مسئلہ ہی ختم ہوگیاتھا۔
”لیکن“
امام کی باوقار آواز سے ماحول کا سکوت ٹوٹ گیا۔
بیشک اسلام میں چار نکاح جائز ہیں۔مگر اجازت اُس شخص کیلئے جو عدل و انصاف پر قدرت رکھتا ہو، وگرنہ ایک سے زیادہ شادیاں مناسب نہیں۔اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔“
یہ واضح اور مکمل جواب تھا۔
منصُور نے اب سر جھُکا دیا تھا۔
آپ نے اجازت طلب کی اور گھر آگئے۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ حرہ خاتون کا ایک خادم پچاس ہزار درہم لے کر حاضر ہوا۔
”خاتون نے نذر بھیجی ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ کنیز آپ کی حق گوئی کی انتہائی مشکور ہے۔“
آپ نے وہ رقم واپس کرتے ہوئے فرمایا۔
”خاتون سے کہنا کہ میں نے جو کچھ خلیفہ کے سامنے بیان کیا وہ میرا فرضِ منصبی تھا۔اس میں کوئی غرض پوشیدہ نہ تھی۔“
مجمع میں سے ”سبحان اللہ“ کی چند آوازیں گونجیں۔کچھ مزید بتائیے اصرار ہوا تھا۔
امام اعظم کے نزدیک ایک بالغ عورت اپنے نکاح کی خودمختار ہے۔جبکہ امام شافعیؓ اور امام احمد بن حنبلؓ عورت کو ولی کی محتاجی میں دیتے ہیں۔انہوں نے عورتوں کے بارے قرآن مجید کے اصول مساوات کو مدنظّر رکھا۔
فقہ حنفی نکاح و طلاق اور دیگر بہت سارے معاملات میں عورتوں کی شہادت کو مردوں کی طرح معتبر قرار دیتا ہے۔
”مائی گاڈ اسلام کے یہ روشن رُخ ہمارے سامنے کبھی نہیں آئے۔عورت کمتر ہے اُسکی آدھی گواہی۔نوجوان لڑکیاں زیادہ پُرجوش تھیں۔
امام کے نزدیک قصداً تارک الصّلوۃ کافر نہیں۔ان کے نزدیک ذمّی (اسلامی ریاست کا غیر مسلم شہری)کا خون مسلمان کے خون کے برابر ہے۔کوئی مسلمان ذمّی کو قتل کرے تو مسلمان اس کے بدلے قتل کیا جائے گا۔

اُس وقت جب میں نفل پڑھتی تھی تو یہی سوچے چلے جاتی تھی کہ ہمارے جاہل ملاؤں نے اسلام کا خوبصورت چہرہ کتنا بھیانک بنا دیا ہے؟اس میں تو حددرجہ لچک اور گنجائش ہے۔
ظہر کی اذان ہوئی۔ مُومُو جیسے سرشار ہوا۔آواز کا اُتار چڑھاؤ،سریلا پن سبھوں میں حسن و رعنائی تھی۔عورتیں کوئی اٹھارہ بیس کے قریب آہیں۔یہ سب قریبی محلوں کی تھیں۔
میری تو کسری نماز تھی۔چار سجدوں میں مک مکا گئی۔خواتین سے بات چیت کرنی چاہی توزبان کا مسئلہ بیچ میں کھڑا ہوگیا۔ ہم عورتیں بھی کمال کی چیزہیں۔راستے ڈھونڈناجانتی ہیں۔آنسوؤں اور مسکراہٹوں کا خوب چھڑکاؤ ہوا۔نصف سے زیادہ صدام کی حامی تھیں۔اکثریت نے حالات کی سنگینی جیسے تاثر کو واضح کرنے کیلئے آنکھوں اور ہاتھوں سے ایسی تمثیل کاری کی کہ جس کیلئے کہا جائے کہ ٹھیک ٹھیک ٹھکانوں پر نشانے لگے۔مجھے اسپتالوں کی حالت زار کی بھی سمجھ آئی۔اقتصادی پابندیوں کا زمانہ کتنا بھاری تھا؟امریکہ کیلئے تبرّوں کی بارش اور ہاتھ اٹھا کر جیسے انہوں نے کِسی طوفانِ نوح میں اُسکی غرقابی چاہی میں سب سمجھی۔

میرے پاکستانی جاننے پر مجھے اپنے گھر لیجانے کی پیشکش کم و بیش سبھوں نے کی۔وہ سُنّی مسلک سے تھیں کہ اس مسجد میں اُن کا آنا ہی سُنّی ہونے کی علامت تھی۔
ہاں ایک دلچسپ اور مزے کی بات بھی ہوئی۔قالینوں پر ہم سبھی پھسکڑے مارے بیٹھی تھیں۔عبایا کے نیچے میری شلوار کے پائینچے کہیں تھوڑا سا اوپر اٹھ گئے۔ٹانگوں پر بالوں کا جنگل سا دیکھ کر اُن سبھوں کے ہونٹوں سے ہنسی کے فوارے پھوٹے۔آنکھیں مٹکیں۔چہرے بولے کہ ”ہیں ہیں یہ کیا جنگلی پن ہے۔“پھر بے تکلفی سے سیاہ عباؤں تلے سے اپنی لش لش کرتی گوری گوری گداز سڈول ٹانگوں کا نظارہ کروایا۔
”دیکھو دیکھو“ پھر چند ایک نے میری بھنوؤں کی طرف بھی اشارے بازی کی۔میں نے بھنوؤں کے ساتھ زندگی بھر کبھی چھیڑخانی نہیں کی۔حتٰی کہ اپنی شادی والے دن بھی نہیں۔جاتے جاتے انہوں نے مجھے یہ دونوں نیک کام کرنے کی تاکید کی۔کچھ سمجھایا جو میں نے زبان نہ آنے کے باوجود سمجھا اورلُطف اٹھایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply