• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میاں صاحب ، خان صاحب اور سیاسی کھوتی/محمد وقاص رشید

میاں صاحب ، خان صاحب اور سیاسی کھوتی/محمد وقاص رشید

خورشید ندیم صاحب نے خان صاحب کے دور میں ایک کالم لکھا تھا جس میں انہوں نے میاں صاحب اور خان صاحب کے سیاسی سفر پر ایک تقابلی جائزہ پیش کیا تھا۔
تاریخ کی روشنی میں خورشید ندیم صاحب نے بتایا تھا کہ میاں صاحب کا سیاسی سفر حقیقت سے رومانویت کی طرف ہُوا یعنی وہ اسٹیبلشمنٹ کے پیدا کردہ و پروردہ تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ ارتقائی سفر طے کرتے کرتے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان بن گئے جبکہ عمران خان کا سفر رومانویت سے زمینی حقائق کی طرف رہا اور وہ ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان سے اسٹیبلشمنٹ کی سیڑھی چڑھ کر مسندِ اقتدار پر  راجمان ہوئے۔

میاں صاحب ایک کاروباری گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور جنرل ضیاالحق سے اپنی عمر کی بلائیں لیتے اور انکے جانے کے بعد انکے مشن کی تکمیل کا عزم کرتے کرتے جنرل مشرف کے کارگل آپریشن سے ہوتے ہوئے جنرل راحیل شریف کی ڈان لیکس اور پھر پانامہ لیکس کے ہنگام حتمی طور پر جنرل باجوہ کی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوئے ۔ اس طرح انہوں نے میاں صاحب کے سیاسی سفر کو حقیقت سے رومانویت کی طرف ایک مسافت قرار دیا تھا۔

جبکہ عمران خان صاحب پہلے مشرف کے مارشل لا ء کے خلاف ایک حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہنما تھے کہا کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں سے اقتدار میں آنے سے بہتر ہے میں کبھی وزیراعظم بنوں ہی نہ۔ اور پھر 2018 میں خان صاحب باجوہ صاحب کی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے آخر کار اپنا وہ وعدہ بھول گئے اور یوں انکا رومانویت پسندی سے زمینی حقائق کی سجدہ ریزی پر منتج ہوا۔
راقم حالیہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک ادنی سا مشاہدہ کار اور طالبعلم ہے۔ یوں لگتا ہے پاکستان کی تاریخ میں سکرپٹ ہمیشہ وہی رہتا ہے فقط کردار بدلتے ہیں۔ مگر یقین کیجیے پچھلے دو ادوار میں مماثلت کا جو عالم ہے وہ سوا ہے۔ آئیے ان واقعات کو ایک جا رکھ کر دیکھتے ہیں۔

1- مسلم لیگ نون جب 2013 کے انتخابات میں کامیاب ہوئی تو خان صاحب نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ اور جب 2018 میں پاکستان تحریکِ انصاف کامیاب ہوئی تو نون لیگ نے خان صاحب کو سلیکٹڈ کہا۔

2- میاں صاحب اور عمران خان صاحب دونوں کو ساڑھے تین سالہ اقتدار کے بعد گھر جانا پڑا۔

3۔ دونوں کے جانے میں سپریم کورٹ کا کردار مرکزی تھا۔

4۔ دونوں نے اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد جنرل باجوہ صاحب کو موردِ الزام ٹھہرایا۔

5- میاں صاحب کو Smash جبکہ عمران خان صاحب کو Crush کرنے کی بات کی گئی۔

6- میاں صاحب کی جانب سے انہیں جیل میں زہر دیے جانے جبکہ عمران خان صاحب کی طرف سے انہیں گولی مارنے کا الزام خفیہ ایجنسیوں پر لگایا گیا۔

7- 2018 میں خان صاحب کے عشاق میاں صاحب کی سیاست کو ختم اور “مسلم لیگ نون ، انا للہ وانا الیہ راجعون ” کا نعرہ لگاتے تھے جبکہ آج 2023 میں پی ٹی آئی اور خان صاحب کے خاتمے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

8۔ خان صاحب کے وزیر داخلہ ن سے ش نکالنے کی باتیں کرتے تھے تو میاں صاحب کے وزیر داخلہ پی ٹی آئی کو فتنہ قرار دے کر خان صاحب پر کورٹ مارشل کی باتیں کر رہے ہیں۔

9۔ خان صاحب کے دور میں رانا ثنا اللہ صاحب کی زوجہ سڑکوں پر دہائیاں دیتی تھیں اور شہریار آفریدی وزیر داخلہ ہو کر انکے خلاف “جان اللہ کو دینی ہے ” کہہ کر “ہیروئین کیس” میں  قسمیں کھایا کرتے تھے جبکہ آج شہریار آفریدی صاحب کی زوجہ کو گرفتار کیا گیا اور انکے بچے اب دہائیاں دیتے پھرتے ہیں۔

10۔ تب پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا وارئیرز شریف خاندان کے خلاف بے انتہا زیر اگلتے تھے تو آج نون لیگ کے لوگ نفرت سے اتنے بھرے ہوئے ہیں کہ شوکت خانم ہسپتال کے سرکاری تحویل میں لئے جانے کی بات کرتے ہیں۔

11۔ تب میاں صاحب کی عسکری قیادت پر تنقید کو خان صاحب منہ پر ہاتھ پھیر کر جواب دیا کرتے اور اسے بھارتی لابی سے جوڑا کرتے تھے تو آج خان صاحب کی جانب سے ان پر تنقید کو شہباز شریف صاحب اینڈ کمپنی بیرونی آقاؤں کا ایما قرار دیتے پائے جاتے ہیں۔

12۔ کل کو پی ٹی آئی والے میاں صاحب اور دیگر کی بیماریوں کا مذاق اڑاتے تھے اور سوشل میڈیا سیل سے تصویریں شئیر کیا کرتے تھے تو آج خان صاحب کے پلستر سے میڈیکل رپورٹ وغیرہ کا ٹھٹھہ اڑایا جا رہا ہے۔

13- کل باجوہ صاحب کی ایک چھڑی “مخصوص انداز ” میں پکڑے ہوئے کی تصویر “باجوہ ڈاکٹرائن ” اور سافٹ وئیر اپڈیٹ کے ساتھ پی ٹی آئی کے ففتھ جنریشن وارئیرز لافٹر ایموجی کے ساتھ شئیر کرتے تھے تو آج جنرل عاصم منیر صاحب کی مختلف تصاویر نون لیگ والوں کی طرف سے پی ٹی آئی کا تمسخر اڑانے کے لیے شئیر کی جا رہی ہیں۔

14- کل کو محترمہ مریم نواز صاحبہ کراچی ہوٹل میں بقول باجوہ صاحب کچھ رینجرز اہلکاروں کے قائد اعظم کے مزار کی بے حرمتی کرنے پر کیپٹن صفدر صاحب کے Over Zelous ہو کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کی شکایت کرتی تھیں تو آج پی ٹی آئی کے ساتھ تو خیر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ضمن میں ساری حدود پھلانگی جا رہی ہیں ۔

15۔ کل کو طلعت حسین صاحب  ، ابصار عالم صاحب  ، مطیع اللہ جان صاحب ، اسد طور صاحب ، نصرت جاوید صاحب ، اور “عظیم ” حامد میر صاحب نشانے پر تھے تو آج عمران ریاض خان صاحب ، سمیع ابراہیم صاحب ، جمیل فاروقی صاحب اور ارشد شریف شہید زیرِ عتاب ہیں۔

16۔ کل کو حامد میر صاحب اور سہیل وڑائچ صاحب جیسے لوگ “جون ایلیا کانفرنس” وغیرہ میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کو فسطائیت پالیسی ترک کرنے کا کہتے تھے تو آج نون لیگ کو اس قسم کے مشورے دے رہے ہیں۔

17۔ میاں صاحب نے ووٹ کو عزت دو تحریک بھی انہی کے خلاف چلائی جنکے خلاف خان صاحب نے حقیقی آزادی تحریک چلائی۔

ہاں ایک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کو مائنس کر کے موروثی سیاست کی “فیوض و برکات” سے اقتدار جاتی عمرہ اور مے فئیر فلیٹس ہی کا دربان رہا لیکن عمران خان کو مائنس کرنے کی تیاری کے دوران پاکستان کے سب سے گرے ہوئے سیاستدانوں میں سے ایک کی طرح کوئی “ن میں سے ش” کے آوازے نہیں کس رہا۔

المختصر یہ کہ جنابِ خورشید ندیم کو اب ایک اور کالم لکھنا چاہیے جس میں وہ ان دونوں قومی رہنماؤں کا باقی ماندہ 180 ڈگری کا سفر بھی تحریر کر دیں اور دائرے کا وہ سفر مکمل ہو جائے جس میں میاں صاحب اور خان صاحب ہی نہیں پوری قوم بھی وہیں آکر کھڑی ہو گئی جہاں سے چلی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا دائرے کا سفر ختم ہو سکتا تھا اگر پاکستان  ایک زرعی ملک نہ ہوتا اور یہاں بویا ہوا کاٹنے اور پھر بونے کی سیاسی روایت نہ ہوتی۔ اپنے اپنے سیاسی سفر میں مندرجہ بالا حیران کن مماثلتیں رکھنے کے باوجود میاں صاحب اور خان صاحب ایک ہو کر قوم کو اور خود کو ان دائروں کے سفر سے نکال سکتے تھے مگر ہمارے ایسے بخت کہاں۔ ہمارے بخت تو بس پنجابی محاورے کے مطابق وہ “کھوتی” ہیں جو جہاں سے چلتی ہے پھر وہیں کھلوتی ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply