• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان ،جہاں بنیادی ضرورت کے حصول کیلئے موت محض ایک خبر ہے/اظہر مشتاق

پاکستان ،جہاں بنیادی ضرورت کے حصول کیلئے موت محض ایک خبر ہے/اظہر مشتاق

پاکستان میں گزشتہ آٹھ نو ماه سے سیاسی اور معاشی و عدم استحکام جاری ہے اور اس دوران انواع و اقسام کے تجزئیے اور تبصرے سننے کو ملے ، مرکزاور صوبوں کی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی جاری ہے،ڈالر کی قیمت کبھی آسمان کو چھو رہی ہے اور کبھی اقتدار کی غلام گردشوں سے یہ پیغام جاری ہوتا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت مستحکم ہو رہی ہے اور آنے والے دنوں میں معاشی عدم استحکام پر قابو پا لیا جائے گا، کبھی آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی ڈیل کو معاشی استحکام کا اعشاریہ جانا جاتا ہے تو کبھی پاکستان کے بڑے صوبے کی حکومت کو تحلیل ہونے سے بچانے کی تدبیریں سوچی جاتی ہیں ، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہونے والے تبصروں اور تجزیوں سے لیکر مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر براجمان ملک کے مستقبل کے بارے میں اندازے لگانے والے مبصرین کبھی آنے والے وقت کو کڑا امتحان قرار  دیتے ہیں تو کچھ اپنی پسند کے سیاسی رہنما کو مسیحا بنا کر پیش کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اقتدار پر براجمان سیاسی عمائدین اپنی پیشرو حکومت کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے اپنے آپ کو موجود بحران سے کنارے کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔مگر حزب مخالف ان کو اس سارے بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں واپس کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے، ہر نئے روز ایک نئی پریس کانفرنس ایک نیا پنڈورا  باکس کھولتی ہے، کبھی پیشرو حکومت کے اراکین کی آڈیوز موضوع سخن بنتی ہیں تو کبھی موجوده حکمرانوں کی نالائقی ، اس سارے عمل کے دوران مہنگائی میں ہوشرباء اضافہ ، اشیائے خوردونوش کی عدم دستیابی ، بڑی صنعتوں کے بند ہوجانےاور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ نہ ہی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں اور نہ ہی حکومت کے مخالف سیاسی گروہوں کی، کہیں اس بات کا تقاضا ہے کہ قبل از وقت انتخابات ہر معاشی اور معاشرتی مسئلے کا واحد حل ہیں تو کہیں اس بات کی گونج ہے کہ صوبوں کی موجوده حکومت کو گرا کر ایک نئی حکومت قائم کرتے ہی ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ اس بیچ کئی ایسے دلدوز مناظر دیکھنے کو ملے کہ مہذب معاشروں کی حکومتیں ایسی نالائقی پر عوام سے معافی مانگتے ہوئے مستعفی ہونے میں ہی عافیت جانتی ہیں کہ وه عوام کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم نہیں کر سکیں اس لئے ان کا ایوان اقتدار پر براجمان رہنا اپنا جواز  کھو بیٹھا ہے۔

ایک عام سی مثال کو ہی لے لیجئے کہ آٹا جو پاکستان جیسے ملک میں رہنے والے عوام کی بنیادی ضرورت ہے  اور پاکستان جیسے ملک جس کی معیشت کا بنیادی محرک زراعت اور اس سے جڑی مصنوعات ہوں میں آٹے کا بحران پیدا ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے، لیکن کیا کیجیے کہ موجوده معاشیات میں طلب و رسد کے قانون کی یہ خاصیت ہے کہ رسد کے کم ہونے اور طلب کے بڑھنے کی عمل کا بالواسطہ اثر اشیاء کی قیمت پر پڑتا ہے اور اگر رسد کم اور طلب زیاده ہو تو اشیاء کے توازن کی قیمت بڑھنے کا امکان ہوتا ہے، پاکستان میں موجوده آٹے کا بحران بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہےکہ اپنے خاندان دو قت کی روٹی کی دستیابی کے لئے آٹے کی ایک تھیلی کو منہ مانگے داموں نقد خریدتے ہوئے ایک انسان دھکم پیل سے جان کی بازی ہار گیا۔ اور اس بھی عجیب بات یہ ہے کہ اس سانحے پر نہ ریاست کا قومی پرچم سرنگوں ہوا اور نہ ہی عوام کی جانب سے کوئی خاطر خواه احتجاج نظر سے گزرا۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا،
لوگ رکے نہیں حاد.ثہ دیکھ کر۔
(عنایت علی خان)

مجھے 27 دسمبر 2007 کا واقعہ یاد آگیا، میں گھر سے یونیورسٹی کے لئے نکلا تو راولپنڈی پہنچنے پر ائیر پورٹ سے ذرا پیچھے ٹریفک کا ہجوم نظر آیا اور گاڑی قریباً ایک گھنٹہ ٹریفک میں پھنسی رہی باہر نکلنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی ریلی اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھی کہ ریلی پر فائرنگ سے کچھ لوگ زخمی اور شاید ایک دو کارکنان وفات پاگئے ہیں۔ میں ائیر پورٹ چوک پر گاڑی سے اترا اور متبادل راستے کا انتخاب کرکے راجہ بازار جانے والی ایک گاڑی پر بیٹھا ،گاڑی جونہی لیاقت باغ پہنچی توٹریفک جام اور افرا تفری کا عالم تھا استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ لیاقت باغ میں پاکستا ن پیپلز پارٹی کے جلسے کے بعد دھماکہ ہوا ہے اور سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو زخمی ہیں ، اپنی عافیت کو یقینی بنانے کے لئے  میں نے ایک ٹیکسی روکی اور صدر جانے کے لئے ٹیکسی میں سوار ہوا صدرکے ٹریفک سگنل پر بظاہر متمول نظر آنے والے ایک خان صاحب نے گاڑی کا شیشہ کھولتے ہوئے دھماکے کے بارے میں پوچھنے کے بعد فوراً سوال کیا کہ بھائی آٹا کہاں سے ملے گا؟ ان دنوں بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا  کے درمیان گندم کی تقسیم پر لے دے جاری تھی ، ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آٹا لے جانے پر پابندی تھی اور آٹے کا بحران تھا، میرے ذہن میں خیال آیا کہ بنیادی ضروریات کتنی اہم ہیں کہ پاکستان کی ایک قدآور رہنما کے جلسے میں دھماکہ ہوا ، بےنظیر بھٹو زخمی ہیں لیکن ایک درمیانے طبقے کا بظاہر خوشحال انسان بھی آٹے کے لئے پریشان ہے۔

2007 گذر گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو نہیں رہیں ، ان کی وفات کے بعدان کی پارٹی اقتدار میں آئی، پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے کردار تبدیل ہوتے گئے، 2007 کے بعد 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی صرف ایک صوبے میں اکثریت حاصل کر سکی ، اسکےبعد2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مرکز ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت آئی ،پاکستان کے عوام کو یہ لگا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ان کے مسائل کو حل کرنے میں اچھا کردار ادا کرے گی،سابق وزیر اعظم عمران خان شاید دوراندیشی سے ریاست کو ایسی پالیسیاں دیں گے جس سے ملک میں افلاس اور ننگ کا خاتمہ ہوگا، لیکن حالات جوں کے توں رہے، پھر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو یہ خیال آیا کہ معاشی طور پر بدحال ریاست اور محکوم عوام کی مسیحائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اپنی مسیحائی دکھانے اور کل کی غلط اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر عمران خان کی حکومت کو گرانے کو کارثواب سمجھتے ہوئے ،پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی، اس دوران طاقت کے مرکز ، جی ایچ کیو کی قیادت کی تبدیلی عمل میں آئی اور ملک پر قرضے کا حجم بڑھتا گیا اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ ملک کے اکثر ماہر ین معاشیات اس بات پر متفکر نظر آتے ہیں کہ ملک معاشی طور پر جلد یا بدیر ڈیفالٹ ہو جائے گا۔

سیاسی ، معاشی اور عسکری مباحث کے درمیان جو عنصر سب سے زیاده نظر انداز ہوا وه پاکستان کے عوام ہیں ، مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ ہوں یا ملکی معیشت اور سیاست پر مباحث میں مصروف دانشور ، ان کی گفتگو کا محور و مرکز سیاسی بساط پر بچھائے گئے مہرے ہی ہوتے ہیں، پاکستان میں جاری مہنگائی، بیروزگاری، گراں فروشی اور افراط زر کے باعث عام انسان کی زندگی اجیرن ہوتی جارہی،ایسے میں گہرے ہوتے ہوئے طبقاتی تضاد کے نتیجے میں طاقتور طبقات کے خلاف ایک غصہ بڑھتا نظر آئیگا ، ایسا بالکل نہیں کہ اس تضاد کے مادی اظہار کی مثالیں موجود نہیں ، اس سے پہلے پاکستان کے عسکری اداروں یا عسکری اداروں سے جڑے افسران پر تنقید کوایک ممنوعہ عمل قرار دیا جاتا تھا لیکن گزشتہ برس سے جس
طرح سے سیاستدانوں کے عسکری اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقدس گائے سمجھے جانے والے ادارے عوام میں بے توقیر ہوئے ہیں اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ، لیکن یہاں سوال صرف اداروں کو ہدف تنقید بنانے کا نہیں یا تنقیدی عمل کو ایک مثبت پیشرفت قرار دینا بھی عبث ہے۔

پاکستانی ریاست کے قیام سے لیکر کے تاہنوز سیاسی حکومتیں مقتدره یا اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کی طلبگار رہتی ہیں ، مقتدره جو اس پہلے پس پرده سیاسی حکومتوں کی حمایت کرتی تھی گزشتہ دہائی میں مقتدره نے کھل کر سیاسی منصوبہ جات شروع کئے اور ملک میں جاری کسی بھی اختلافی  آواز کو جو مقتدره کے مشکوک کردار کو ہدف تنقید بناتی تھی کو بزور طاقت دبانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن ہر عمل کے رد عمل کے مصداق مقتدره کے مشکوک کردار کو اپنے ہی لے پالک سیاسی کارکنان اور سیاسی زعماء کو جس طرح ہجو ودشنام کا نشانہ بنا یا گیا اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اب کی بار مقتدره سیاسی طور پر غیر مستحکم اور متزلزل سیاسی سمجھ بوجھ کےحامل سیاستدانوں کو گود لینے یا ان کی حمایت کرنے سے پہلے ایک دفعہ ضرور سوچے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان جیسے سیاسی اور معاشی طور پر غیر مربوط ریاست جہاں طاقت کا محور و مرکز اشرافیہ کے چندنمائندگان ہوں اس میں جب تک عوام ایک نظریاتی پختگی کے عمل سے گذرتے ہوئے سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہوئے اشرافیہ اور مقتدره کے کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک بالکل مختلف طرز حکمرانی کی بنیاد نہیں ڈالیں گے تب تک عام انسان کی محکومی ،ذلت اور بنیادی انسانی ضروریات کے حصول کے لئے اموات محض عام اور نظر انداز کئے جانے والی خبروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply