موازنہ زندگی کی خوبصورتی کو ختم کر دیتا ہے/عاصمہ حسن

اللہ تعالیٰ  نے ہمیں بہت خوبصورت زندگی سے نوازا اور پھر ہمیں بےشمار نعمتیں عطا کی ہیں ـ محبت کے رنگ میں رنگا ‘ رشتوں کی مالا میں اس طرح پرویا کہ ہم چاہے اَن چاہے بندھنوں میں بندھے ہوتے ہیں ـ کچھ رشتے ہمیں ہمارے رب کی طرف سے عنایت ہوتے ہیں تو وہیں کچھ رشتے ناطے ہم اپنی مرضی سے اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں ـ دکھ سکھ ہیں جو ہمیں ہمارے خالق سے قربت کا موقع عطا کرتے ہیں ـ۔

اللہ تعالیٰ  نے پوری کائنات کو بہت خوبصورتی سے تخلیق کیا ہے ـ جس میں سب سے افضل انسانوں کو بنایا اور کیا خوب بنایا،ـ ہم تمام انسان صرف ایک دوسرے سے شکل و صورت ‘ قد کاٹھ’ رنگ و روپ’ سوچ’ زاویہ نظر میں ہی مختلف نہیں ہوتے بلکہ عادات و اطوار’ توانائیوں اور صلاحیتوں میں بھی منفرد ہیں۔

ـہمارے ہر کام کو سرانجام دینے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے بالکل اسی طرح قوتِ برداشت’ صبر کی حس ‘ بولنے’ سوچنے’ فیصلہ کرنے کی صلاحیت’ عقل و فہم اور مسائل سے نمٹنے کا انداز بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ـ۔

ایک ہی والدین ہیں جن سے اس دنیا میں آنے والے بچے بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتے ہیں حالانکہ تربیت کرنے والے وہی ہیں ‘ گھر کا ماحول اور ملنے والی محبت’ رشتے ناطے’ وسائل سب ایک جیسے ہونے کے باوجود تمام بچے ایک دوسرے سے الگ الگ شخصیت کے مالک ہوتے ہیں ـ۔
بے شک اس میں واضح نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں ـ۔۔

اللہ تعالیٰ  کا نظامِ قدرت ہے کہ اُس ذات نے اِس کائنات میں کچھ بھی بے مقصد پیدا نہیں کیا ـ ہر تخلیق کا اس دنیا میں آنے کا کوئی نہ کوئی خاص مقصد ہے جس کے تحت یہ کائنات چل رہی ہے اور نظامِ زندگی رواں دواں ہے ـ۔

جب اللہ تعالیٰ نے ہر چیزاور ہر جاندار کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے تو اس میں موازنہ کسی صورت بنتا ہی نہیں ہے ـ پھر ہم خود کا دوسروں سے موازنہ کر کے کیوں اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کرتے ہیں ـ خود کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں ـ خوامخواہ خود کو اذیت سے دوچار کرتے ہیں۔

اگر ہم شیر اور شارک کی مثال لیں ـ دونوں کی فطرت شکار کرنا ہے لیکن شیر سمندر میں شکار نہیں کر سکتا اور شارک خشکی یا جنگل میں شکار نہیں کر سکتی،ـ اب جب شیر سمندر میں شکار کرنے سے قاصر ہے تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ ناکارہ ہے ـ یا شارک خشکی پر شکار نہ کرنے کی وجہ سے ناکارہ ہے، ـ یہ بات ہمارے سمجھنے کی ہے کہ دونوں کی حدود مختلف ہیں ،اس لئے جہاں وہ ہیں وہ بہترین ہیں ـ
اسی طرح ایک بچہ پڑھائی میں بہت اچھا ہے لیکن دوسرا بچہ غیر نصابی سرگرمیوں میں ماہر ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پڑھائی میں دلچسپی نہ لینے والا بچہ نالائق ہے اور وہ کسی قابل نہیں ہے مزید یہ کہ وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ـ حقیقت یہ ہے کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے اس کی دلچسپی اور عطا کردہ صلاحیتیں منفرد ہیں ـ لہذا ان کا آپس میں موازنہ غیر مناسب ہے۔ ـ

گلاب کا پھول اپنی خوشبو میں منفرد سمجھا جاتا ہے ـ کیا ہم گلاب کا ٹماٹر سے موازنہ کر سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔۔۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ ان کی خصوصیات بھی الگ ہیں ـ
ہم انسان بھی بالکل اسی طرح ایک دوسرے سے مختلف اور منفرد صلاحیتوں کے حامل ہیں ـ بس ہمیں اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خود پر کام کرنا چاہیے ـ کوئی بھی شخص کامل نہیں ہوتا نہ اس میں تمام خصوصیات موجود ہوتی ہیں ـ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خامی ہوتی ہے جو ایک سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں ـ ہمیں اپنی ان خامیوں کو دور کرنا ہے جو کہ محنت طلب کام ہے اور اس کا صلہ ایک رات میں حاصل نہیں ہو سکتا ـ لگاتار اور تسلسل سے محنت ہی ہمیں ‘ ہمارے ارادوں میں کامیابی عطا کرتی ہے۔ ـ

اگر ہم اپنا موازنہ دوسروں سے کرنے لگ جائیں تو احساسِ کمتری کا شکار ہو کر اپنے مثبت اور مضبوط پہلوؤں کو پہچان نہ سکیں گے اور نہ ہی ان کو سنوارنے کی کوشش کر سکیں گےـ جلنے ‘ کڑھنے اور حسد کرنے میں اپنا قیمتی وقت اور توانائیاں ضائع کرتے رہیں گے ـ جس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ ـ

ہم خود کا دوسروں سے موازنہ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ ہمارے حالات و واقعات ‘ مسائل اور وسائل سب مختلف ہوتے ہیں ـ حتٰی کہ جب کمفرٹ زون کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگوں کے لئے کامیابی حاصل کرنے کے لئے اس کمفرٹ زون سے نکلنا ضروری ہوتا ہے جبکہ اسی لمحے کچھ لوگوں کے لئے یا کام کرنے کے لئے اس کمفرٹ زون کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جیسے ہم آن لائن کام کرتے ہیں ‘ وائس اوور کرتے ہیں اس کے علاوہ بھی کئی ایک فیلڈ ہیں جن میں پرسکون ‘ شور شرابے اور کسی مداخلت کے بغیر ماحول بہت اہمیت رکھتا ہےـ اس لئے ہم مختلف ماحول کے رہنے والے ‘ مختلف کام کرنے والے کسی بھی صورت میں ایک دوسرے سے موازنہ نہیں کر سکتے ـ۔

اللہ تعالیٰ  کے عطا کردہ تحفوں’ صلاحیتوں اور نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئیے ـ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب ہم خود کا کسی سے خود کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمارے اندر حسد کا مادہ جنم لیتا ہے جو نہ صرف ہماری کارکردگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ دھیرے دھیرے اند رہی اندر ہمیں کھا جاتا ہے ـ منفی سوچیں ہمیں نہ صرف ہماری منزل سے دور بہت دور کر دیتی ہیں بلکہ طبیعت میں چڑچڑاپن اور اکتاہٹ پیدا کر دیتی ہیں جس سے ذہنی سکون برباد ہوجاتا ہے اور صحت بھی متاثر ہوتی ہے ـ۔

زندگی کی دوڑ میں مقابلے کی جگہ ہمیں اپنی کارکردگی پر غور کرنا چاہیے اور خود کو اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی تگ و دو میں مصروف رکھنا چاہیے ـ ہم خود میں بہتری لا کر ہی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں ـ دوسروں سے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اپنا موازنہ کسی طور سے کرنا بے سود رہے گا ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسروں کے بارے میں سوچنے ‘ خود کا ان سے موازنہ کرنے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے اپنے راستے خود بنائیں ‘ اپنی منزل کا تعین کریں اور خود پر اپنی صلاحیتوں پر کام کر کے وقت کے ساتھ نکھار لے کر آئیں ـ اپنے منفی پہلوؤں پر مثبت سوچ کے ساتھ غور کریں اور خود کو تعمیری کام میں مصروف کریں تاکہ اپنی صلاحیتوں ‘ توانائیوں ‘طاقت اور وقت کا صحیح استعمال کر سکیں اور اپنے مقاصد کو حاصل کرسکیں ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply