آن لائن خریداری،کچھ اصول ضوابط ضروری ہیں ۔۔۔وثیق چیمہ

چند سال قبل فیس بک پر آن لائن مال فروخت کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ صرف چند ایک لوگ اس کام سے وابستہ تھے۔ ان کا ذریعہ معاش ہی یہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے لوگ آتے گئے اور مارکیٹ بنتی گئی۔ کچھ تو شوقیہ طور پر یہ کام کر رہے اور کچھ نے مستقل یہی پیشہ اختیار کر لیا ہے۔ اب کھانے پینے اور پہننے کی ہر چیز آن لائن بااعتماد طریقے سے دستیاب ہے۔ اِدھر آپ نے آرڈر کیا اور اُدھر مال پہنچ گیا۔ جہاں بہت سی آسانی ہوئی ہے وہاں کچھ غلطیاں، کوتاہیاں اور شکایات بھی سامنے آئی ہیں ۔

پہلی بات دکانداری ہر بندے کا کام نہیں ہے۔ آپ کے دو چار ہزار فالور اور دوست ہیں تو یہ مت سمجھیں آپ کی دکان چل نکلے گی۔ اور اگر آپ دانشوری کے زعم میں مبتلا ہیں پھر تو ہرگز یہ کام نہ کیجیے  گا۔ ہر وہ کام جس کے متعلق آپ کو مکمل علم نہیں اس پر تجربہ نہ  کریں۔ تجربے سے علم لینے کی بجائے پہلے کسی ایسے بندے سے رابطہ کریں جو متعلقہ کام کرتا ہو، اس کو جانتا سمجھتا ہو۔ مثال کے طور پر آپ شہد کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں مگر مکھی و شہد کی اقسام بارے نہیں جانتے تو پہلے اس کو دیکھیں، سمجھیں۔ کون سی مکھی کا شہد بہتر ہے؟ کس موسم میں کہاں سے سستا میسر ہے۔ مارکیٹ میں طلب رسد کیا ہے؟ آیا آپ گاہک کو مطمئن کر پائیں گے؟

خریدنے کے بعد بیچنے کا مرحلہ آتا ہے۔ پہلے آپ خریدار تھے، گاہک تھے۔ اب آپ نے مال بیچنا ہے دکانداری کرنی ہے۔ یہاں آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ عام دکانداروں والا رویہ رکھیں دس بیس روپے زیادہ بتا کر پانچ دس کم کر دیں۔ یہ طریقہ میرے نزدیک مناسب نہیں۔ بہت سے لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک دام واحد کلام۔ مگر یہاں ایک مسئلہ ہے۔ آپ نے مناسب مارجن کے بعد جو قیمت بتائی ہوتی ہے گاہک کا تقاضا ہوتا ہے کہ ریٹ اس سے بھی کم کیا جائے۔ مستقل مزاجی اور سب کے ساتھ ایک سا معیار اور ریٹ رکھیں گے تو کچھ عرصہ بعد لوگوں کا اعتماد بن جائے گا۔ پھر ریٹ طے کرتے ہوئے زیادہ پریشانی نہیں ہوگی۔ دوسرا شکوہ یہ ہوتا کہ کافی مہنگا ہے۔ اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ چیز واقعی ہی عام مارکیٹ سے کچھ مہنگی ہے تو گاہک کے شکوہ کرنے سے قبل ہی اس کو اپنی فروخت کردہ چیز بارے آگاہ کر دیں۔ جن خصوصیات کی وجہ سے سامان مہنگا ہے اس کی وجہ بیان کر دی جائے تو گاہک مطمئن ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک پہلے بتائی جانے والی خوبی بعد میں دی جانے  والی صفائی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ بعض اوقات گاہک بحث کرتا ہے چیز میں نقص نکالتا ہے، قیمت کم کرنے پر بضد ہے یا کسی وجہ سے بات نہیں بنتی تو فیس بک پر آ کر اس لہجے اور رویے کی شکایت نہ کریں۔ ایک تو اس سے آپ کی قوت برداشت بارے لوگ بدگمان ہوتے ہیں اور یہ کہ دکانداری متاثر ہوتی ہے۔ واہ واہ سننی ہے تو دانشور ہی رہیں دکان دار نہ  بنیں۔ کچھ تو باقاعدہ پوسٹ بنا کر لگا دیتے ہیں کہ ساری قوم ہی جاہل ہے۔ ان کو چیز کے فرق بارے علم نہیں۔ انہوں نے کبھی سامان خریدا ہی نہیں، بس ریٹ پوچھتے ہیں لوگ۔ لہذا بلاک کر دیا جائے۔ گاہک کو بلاک کرنے کا سیدھا سا مطلب ہے کہ آپ نے اس کو دھکے دے کر اپنے کاؤنٹر سے نیچے اتار دیا ہے۔

بہرحال ریٹ طے ہونے کے بعد ایڈوانس رقم کا تقاضا کیا جائے۔ اگر کیش آن ڈیلیوری کی سہولت ہے تو یہ طریقہ بھی ٹھیک ہے۔ معاملات طے ہونے کے بعد کوشش کریں دیے گئے وعدے پر پورا اتریں۔ عمدہ پیکنگ میں اچھے طریقے سے پارسل کر دیا جائے۔ پارسل کا مرحلہ کافی مشقت طلب ہے۔ مال ڈیلیور کرنے والے برانڈ ریٹ بہت زیادہ لگاتے ہیں۔ پاکستان پوسٹ سے بھیجا جائے تو مال وقت پر نہیں پہنچتا۔ پہنچ بھی جائے تو   پورا  سامان موصول نہیں ہوتا۔ دور دراز کے علاقوں کا حل یہ ہے ایک شہر کے پارسل لاری اڈہ تک بذریعہ بس پہنچا دیے جائیں وہاں سے گاہک خود جا کر لے آئے، جہاں تک رسائی ہو وہاں سامان گھر تک پہنچا دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات، گاہک خود نہیں آتا ،بھیجا جاتا ہے۔اگر کسی وجہ سے ڈیل نہ ہو سکے تو اس کو کبھی یہ نہ  کہیں کہ جا تیرے جیسے اور دس آ جائیں گے۔ اس تکبر کی وجہ سے دس چلے تو جاتے ہیں آتے نہیں۔ تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھیں۔ گاہک کے رویے پر پھر کبھی بات ہوگی۔ ربّ  لم یزل سب کو رزق حلال عطا فرمائے۔مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply