پاکستان ایک ممکنہ سپر پاور

اللہ پاک مجھے بطور نعمت اولاد سے نوازتے ہیں. میں اس اولاد کی ٹھیک پرورش نہیں کرتا اور نتیجہ میں وہ بگڑ کر غنڈہ یا بدمعاش بن جاتی ہے. اب کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ اولاد نعمت تھی ہی نہیں ؟ یا بات یوں ہوگی کہ اللہ نے تو نعمت سے نوازا تھا مگر میں نے کفران نعمت کیا ،جس کا نتیجہ تخریب میں نکلا. پاکستان اللہ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے مگر ہم نے کفران نعمت کیا ہے، جس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں. ہم نے ان کرپٹ حکمرانوں کو اپنے سر پر مسلط ہونے دیا ہے جو قیام سے لے کر اب تک باری باری اس ملک کی بوٹیاں بھنبھوڑ رہے ہیں.۔
سیاستدان، وڈیرے، بیوروکریٹس، افواج، میڈیا، قانون ساز ادارے سب نے ستر سالوں سے یہی کیا. جس کا جبڑا جتنا بڑا تھا، وہ اتنی ہی بڑی بوٹی اتارتا رہا. لیکن مجھے آپ جذباتی احمق کہیے یا ذہنی مریض، میں آج بھی پورے اعتماد سے یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ وقت قریب ہے جب ان شاء اللہ یہ ملک ترقی کی بلندیاں چھوئے گا. گو بحیثیت مسلمان ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ مسلم ممالک میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کا قیام اسلام کے نام پر ماہ رمضان کی ستائیسویں شب کو ہوا ،مگر میری اس ملک سے وابستہ خوش گمانی کی بنیاد فقط روحانی پیشن گوئی نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں. کرپشن اور لاقانونیت اپنی جگہ سچ ہے مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ اس خطہ زمین اور اس میں بسنے والی قوم کو رب کریم نے ایسی خاصیتوں سے مالامال کیا ہے جو اسے منفرد بنادیتے ہیں. پاکستان کی اسٹریٹجک لوکیشن ایسی ہے کہ دنیا میں طاقت کے توازن کو قابو میں کرنے کیلئے اسے ساتھ لے کر چلنا لازمی ہے. یہی وجہ ہے کہ امریکہ، انگلینڈ وغیرہ کے اخبارات میں پاکستان کا ذکر اچھے برے انداز سے کسی نہ کسی بہانے ہوتا ہی رہتا ہے، حالانکہ بہت سے ممالک دنیا کے منظر نامے میں ایسے گمنام ہیں کہ وہاں ہوئے بڑے واقعات بھی ان اخبارات میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے. پاکستان کا جغرافیہ ایسا ہے کہ اگر کسی وقت تجارتی راستہ محفوظ ہو جائے تو وہ ترقی جسے حاصل کرنے میں دوسرے ممالک کو پچاس پچپن سال لگے ہیں، وہی ترقی یہ پانچ سے دس سال میں حاصل کرسکتا ہے. پاکستان کی سرزمین لوہے، کوئلے، نمک سمیت معدنیات و دیگر وسائل سے بھرپور ہے اور امکان ہے کہ اگر صحیح طور پر کھدائی یا تحقیق کی جائے تو توقع سے کہیں زیادہ خزائن برآمد ہونگے.
.
پاکستان اپنی کرپٹ و بزدل قیادت کی وجہ سے دنیا میں مغلوب و مجبور ضرور نظر آتا ہے مگر یہ ناقابل تردید سچ ہے کہ وہ دنیا کی ساتویں اور اسلامی ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہے، ایسی جدید فوج رکھتا ہے جس کی پوری دنیا معترف ہے، ایسی انٹلیجنس اجینسی کا مالک ہے جسے سی آئی اے، موساد وغیرہ سے بھی اپر پہلے مقام پر رکھا جاتا ہے، ایسی میزائل ٹیکنالوجی سے مزین ہے جو اکثر ترقی یافتہ ممالک کو بھی حاصل نہیں، ٹینک، آبدوز، جہاز سمیت ہر دفاعی ساز و سامان نہ صرف خود بنارہا ہے بلکہ دیگر ممالک کو بیچ بھی رہا ہے. گویا یہی فوج جس پر آج کچھ شہریوں کی جانب سے طنز و طعنہ کیا جاتا ہے، کل پاکستان کی معاشی ترقی کے ساتھ اسکے دفاع کی مظبوط ترین فوج بن سکتی ہے. جو نہ صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے بلکہ دیگر ممالک پر بھی کسی زیادتی کے خلاف موثر زور ڈال سکے. پاکستانی قوم کا شمار بجا طور پر دنیا کی ذہین ترین اقوام میں کیا جاسکتا ہے. یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ساری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی کمیونٹی موجود ہے وہاں نمائندہ ڈاکٹروں سے لے کر مہنگے ترین وکیلوں تک، کامیاب ترین تاجروں تک، زہین ترین سیاستدانوں تک دوسری اقوام سے کہیں زیادہ پاکستانی بیٹھے نظر آتے ہیں. یہ بھی درست ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں دو نمبر کام ہورہے ہیں ان میں بھی اکثر سب سے نمایاں کوئی نہ کوئی پاکستانی نام ہوتا ہے مگر اسکی وجہ بھی یہی غیر معمولی ذہانت ہے جو تعمیری و تخریبی دونوں کاموں میں ایک پاکستانی کو سب سے اپر لے آتی ہے. کتنے سارے مسلم مالک دنیا میں موجود ہیں مگر میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ مغربی ممالک میں موجود مساجد، دعوتی مراکز، چیریٹی آرگنئزیشن اور مسلم فلاحی اداروں کا دورہ کیجیئے. آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ قریب قریب تمام ادارے یا تو کوئی پاکستانی براہ راست چلا رہا ہے یا اس ادارے کی ٹاپ مینجمنٹ کا لازمی حصہ ہے. یہاں بھی وہی پاکستانی ذہانت کا کلیہ ہے کہ جہاں دینی مثبت کاموں میں پاکستانی نمایاں ہیں وہاں تفرقہ و دیگر منفی کاموں میں بھی پاکستانی ہی سب سے اپر نظر آئیں گے. حالانکہ کر سب رہے ہیں مگر ذہانت کی وجہ سے نظر پاکستانی سب سے زیادہ آتے ہیں. اسی طرح کس میں جرات ہے جو یورپ سے لے کر عرب ممالک تک پاکستانیوں کے جفاکش محنتی ہونے کی گواہی نہ دے؟

پاکستانی قوم کے بحیثیت مجموعی “اسپورٹس نیشن” ہونے میں کس کو شبہ ہوسکتا ہے؟ حکومتی سپورٹ نہ ہونے کے باوجود اسکواش میں تیس برٹش اور چودہ بار ورلڈ اوپن ٹائٹل جیتنے والے پاکستانی ہی ہیں، ہم ہی ہیں جنہوں نے چار بار ہاکی کا ورلڈ کپ جیتا، ١٩٩٢ میں کرکٹ کے ورلڈ چیمپئن بنے، اسنوکر کا ورلڈ کپ جیت لائے، شطرنج میں انٹرنیشنل ماسٹر کہلائے، ہمارے کوہ پیماؤں نے بلند ترین چوٹیاں سر کی، حال ہی میں باڈی بلڈنگ کا ورلڈ ٹائٹل جیتا، انسانی دوڑ اور باکسنگ وغیرہ کے مقابلوں میں تمغے جیتے. یہ سب ہم نے بناء ذرائع اور مناسب ٹریننگ کے حاصل کیا. سوچیئے جو کل ہمیں کچھ سپورٹ حاصل ہو تو کیا کریں گے؟ ہمارا تو حال یہ ہے کہ آج گراؤنڈز نہ ہونے کے سبب اگر عالمی مقابلوں میں فٹبال نہیں کھیل سکتے تو ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والی فٹبال ہم ہی بناتے ہیں. اس کے علاوہ بھی کبڈی، باکسنگ، آرم ریسلنگ، نشانے بازی، پولو سمیت معلوم نہیں کون کون سے کھیل ایسے ہیں جن میں پاکستانیوں نے دنیا بھر میں نام پیدا کیا ہے. یہ سب کامیابیاں اس قوم میں موجود صلاحیتوں کی عکاس ہیں.

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں پاور بننے کیلئے فوج یا دیگر کسی بھی شعبہ سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ اس ملک کی معیشت مظبوط ہو. گوادر اور سی پیک معائدے کی صورت میں آج وطن عزیز کو قدرت نے ایک ایسا زبردست موقع دیا ہے جس سے صرف پاکستان ہی کا نہیں پورے خطے کا نقشہ بدل سکتا ہے. یہ کوئی دیوانے کا خواب نہیں بلکہ فی الواقع گیم چینجنگ پروجیکٹ ہے. عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے احباب بخوبی آگاہ ہیں کہ پچھلی ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ سے امریکہ سمیت بہت سے ممالک اس پروجیکٹ کو روکنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں. سب سے زیادہ اذیت میں اس وقت انڈیا ہے جو جلتے توے پر بیٹھا ہے. انڈین پرائم منسٹر اور صدر سے لے کر آرمی چیف تک ان گنت بار گوادر کو روکنے کا عندیہ دیتے رہے ہیں. وہ بخوبی جانتا ہے کہ گوادر اور سی پیک کی کامیابی دراصل اس کے ایشین ٹائیگر بننے کے خواب کو چکنا چور کردے گی اور طاقت کے توازن کو پاکستان کے حق میں لے جائے گی. اب کبھی وہ امریکہ کو دہائیاں دیتا ہے، کبھی پروپیگنڈا کمپین چلاتا ہے، کبھی سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے کرتا ہے اور کبھی پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی سفارتی کوششیں کرتا ہے. حد تو یہ ہے کہ انڈیا نے تگڑا سرمایہ پیش کرکے ایران کے ساتھ چاھبار پورٹ بنانے کا اعلان کیا ہے، جس کا نمایاں مقصد گوادر کی اثر انگیزی کم کرنے کی کوشش ہے. دنیا کے کم و بیش تمام مبصرین چائنا کو مستقبل کی سپر پاور قرار دیتے ہیں اور گوادر کو “چائنیز پرل” یعنی “چین کا موتی”کہہ کر پکارتے ہیں. ظاہر ہے امریکہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ چائنا مزید مظبوط ہو مگر باوجود کوشش اس کا بس چین پر نہیں چل پایا ہے اور وہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے. امریکہ چائنا کو روکنے کیلئے انڈیا کو مظبوط کرتا آیا ہے تاکہ اسکی معاشی ترقی کو ممکنہ حد تک روک سکے مگر دوسری جانب چائنا بھی بیوقوف نہیں ہے وہ انڈیا پر روک لگانے اور اسے الجھائے رکھنے کیلئے ہمیشہ سے پاکستان کو زبردست مدد فراہم کرتا رہا ہے. امریکہ ویسے تو اپنے باپ کا بھی سگا نہیں رہا ہے مگر پاکستان کو وہ ہمیشہ کبھی طاقت کا رعب دیکھا کر اور کبھی امداد کا لالی پاپ دے کر اپنے اشاروں پر چلاتا آیا ہے. ٹرمپ جیسے جنونی کے آنے کے بعد امریکی منافقت کی چادر چاک ہوگئی ہے اور لیاقت علی خان کے دور کے بعد آج پہلی بار یوں محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی جھولی سے نکل رہا ہے. سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹرمپ نے انڈیا کی محبت میں جو بیانات دیئے ہیں، اسکے بعد پاکستان کو امریکہ سے کوئی خاص امید باقی نہیں رہی ہے.

سب واقف ہیں کہ امریکہ کو جن دو ممالک سے سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے ، وہ ہیں روس اور چائنا. لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے روس اور چین دونوں کے ساتھ مل کر اپنا کیمپ امریکہ سے الگ کرلیا ہے. سی پیک اسی کا حصہ ہے. افغانستان میں روس اپنی شکست کا ذمہ دار بجا طور پر پاکستان کو مانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان سے اپنی فوجی ہزیمت کے بعد کبھی مثبت تعلقات نہیں رکھے. یہ پہلی بار ہے کہ روس نے ماضی بھلا کر پاکستان سے ہاتھ ملا لیا ہے، اس کا ایک اور بڑا ثبوت حال ہی میں کی جانے والی روسی اور پاکستانی فوج کی پاکستان کی سرزمین پر مشترکہ مشقیں ہیں. روس کے اس اقدام نے انڈیا کا جس درجے میں دل توڑا ہے، اس کا اندازہ انڈین چینلز کے تجزیاتی پروگرامز دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے. زرداری کے دور حکومت میں امریکہ اور انڈیا گوادر پروجیکٹ کو التواع میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تھے مگر پچھلے سالوں میں پاکستان آرمی نے براہ راست چین کو گوادر کی تعمیر اور تعمیر کی یقین دہانی کرائی ہے. جس کے بعد اب اس پروجیکٹ کو سیاسی دباؤ سے روکنا ممکن نہیں رہا ہے. پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ابھی بھی التواع کا شکار ہے مگر اب ایران کی جانب سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے اشارے دوبارہ مل رہے ہیں. اگر یہ منصوبہ بنا تو چائنا اور ایران کو جو فائدہ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے مگر پاکستان کی بھی انرجی کی تمام ضروریات مکمل ہوسکیں گی. گوادر پورٹ کو چلانے کیلئے جب آغاز میں مختلف ممالک نے ٹینڈرز پیش کیئے تھے تو پاکستان نے دبئی پورٹ ورلڈ کو قبول کیا تھا مگر انڈیا نے دباؤ ڈال کر اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا. اب چین نے اپنی ہی “چائنیز اوور سیز پورٹ اتھارٹی”کو گوادر کی ذمہ داری سونپ دی ہے جسے چھیالیس بلین ڈالرز کی خطیر رقم سے کھڑا کیاجارہا ہے. لہٰذا انڈیا یا امریکہ اب اسے روکنے سے قاصر ہیں. گوادر پاکستان کی گہرے گرم پانی کی پہلی پورٹ ہوگا جو دنیا میں گنتی کے چند ممالک کو حاصل ہے اور جسے چائنا کو ٢٠٥٩ تک ٹھیکے پر سونپ دیا گیا ہے، اسکے بعد یہ پاکستان نیول بیس میں تبدیل کردینے کا امکان ہے. دھیان رہے کہ کراچی پورٹ گہرے پانی کی پورٹ نہیں ہے. گہرے پانی کی پورٹ میں جہاز کو پانی میں کھڑے رہتے ہوئے آف لوڈ کیا جاسکتا ہے، جس سے وقت و سرمایہ دونوں محفوظ ہوتے ہیں. گوادر کے ذریعے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ اسکے بارے میں عالمی سطح پر بہت سی قیاس آرائیاں موجود ہیں. مگر جو بات حتمی ہے وہ یہ کہ چائنا سمیت کئی دیوقامت تجارتی حجم والے ممالک گوادر کو تیل سمیت دیگر اشیاء کیلئے تجارتی روٹ کے طور پر استعمال کریں گے جس سے پاکستان کو کروڑوں ڈالرز کی مستقل کمائی حاصل ہوگی، لاکھوں نوکریاں اور کاروباری سرگرمیاں پیدا ہونگی.

اب چونکہ امریکہ اور انڈیا یہ جان چکے ہیں کہ اس سی پیک کو روکنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اب ان کا لائحہ عمل یہ ہے کہ پاکستان کے حالات جو پہلے ہی خستہ ہیں، انہیں آخری حد تک خراب کردیا جائے. انڈیا اب اپنے آقا امریکہ کے آشیرباد سے پانچ طریقوں سے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے. پہلا طریقہ یہ کہ پاکستان کو اسکی ہندوستانی سرحد پر حالت جنگ یعنی ریڈ الرٹ میں کسی نہ کسی بہانے سے رکھا جائے تاکہ فوج کی توانائی ملک کے اندر دیگر سرگرمیوں میں اچھی طرح استعمال نہ ہوسکیں. دوسرا طریقہ انڈیا کا وہ خواب ہے کہ امریکہ کی طرح وہ بھی پاکستان میں سرجیکل اسٹرایکس کرسکیں، اس طریقے کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت تو یہ نہ کرسکے البتہ اسی سرجیکل حملے کا ایک جھوٹا ڈرامہ رچا کر انڈیا پوری دنیا میں لطیفہ بن گیا. تیسرا طریقہ امداد اور انٹلیجنس کے ذریعے پاکستان مخالف جماعتوں کو ملک کے اندر مدد پہنچانا ہے. بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگر تنظیموں کو اس وقت انڈیا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور ان کے لیڈر انڈیا میں بیٹھ کر بھی آپریٹ کررہے ہیں. امریکی سی آئی اے کا ریمنڈ ڈیوس ہو یا بلوچستان میں انڈین راء کا پکڑا جانے والا کلبھوشن یادو. سب کا مشن پاکستان کی 'پراکسی وار' کے ذریعے تباہی ہے. چوتھا طریقہ افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کا فروغ ہے. انڈیا اس وقت افغانستان میں جتنا مظبوط ہے، اس کا آدھا مظبوط بھی وہ تاریخی طور پر کبھی نہیں رہا. پھر پاکستان نے اپنی حماقتوں کے سبب بھی اپنے افغان بھائیوں کو اپنا دشمن بنالیا ہے. حامد کرزئی جیسے سکہ بند امریکی چمچے اسوقت طاقت میں ہیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی نفسیات سے بھی خوب واقف ہیں لہٰذا پاکستان کو مسلسل اس محاذ پر ہزیمت کا سامنا ہے. حالیہ بم دھماکوں سے یہ محاذ ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے. پاکستان کی جانب سے حال ہی میں افغان بارڈر کو سیل کرنا اسی کے تدارک کی پاکستانی کوشش ہے. پانچواں طریقہ جو اپنایا گیا ہے اسے 'فورتھ جنریشن وار' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جس میں دفاعی اداروں اور عوام کے مابین نفرت و دوری پیدا کی جاتی ہے. اس کے لئے سوشل میڈیا سمیت حقوق نسواں یا انسانی اداروں کی آڑ لے کر امریکہ اور انڈیا ان افراد کو فنڈ کررہا ہے جو عوام میں نفرت، غصہ اور مایوسی کو ہوا دے سکیں. افسوس یہ بھی ہے کہ بناء معاوضہ لئے بھی ایسے لوگ بکثرت دستیاب ہیں جو پاکستان کے خلاف دن رات زہر افشانی کرنے کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں. ایک امکان یہ بھی ہے کہ ابھی حالیہ طور پر جن سوشل میڈیا پر متحرک افراد کو گرفتار یا غائب کیا گیا ہے ان کا شمار اسی فورتھ جنریشن وار کے متعلقین میں ہو. گو یہ فقط ایک امکان ہے. اسکے علاوہ بھی مذہبی منافرت کے فروغ اور ثقافتی یلغار سمیت کئی ایسے زاویئے ہیں جن پر دشمن پوری تندہی سے کام کر رہا ہے. گویا اس وقت پاکستان کو جتنے محاذوں کا سامنا ہے اس کا تصور بھی دیگر ممالک نہیں کرپاتے. یقینی طور پر ابتداء میں ہم نے وہ اقدام نہیں کیئے جو کرنے تھے اور جس سے دشمن کو اپنے پاؤں کسی حد تک جمانے کا موقع حاصل ہوا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ہم کھل کر لڑرہے ہیں. قوم اب دشمن کو پہچان پارہی ہے. وزیرستان سے لے کر کراچی تک کیئے گئے آپریشن اگر مکمل نہیں تو بڑی حد تک دشمن کو کمزور کرنے میں کامیاب رہے ہیں. حالیہ بم دھماکوں سے یہ نتیجہ نکلنا کہ آپریشن ناکام رہے، ایک نہایت غلط اپروچ ہے. یہ ایک طویل جنگ ہے جو ہم بہت سے محاذوں پر ایک ساتھ لڑ رہے ہیں لیکن کامیابی ان شاء اللہ پاکستان کی قسمت ہے.

ممکن ہے کہ میری اس تحریر کو پڑھ کر کچھ قارئین مجھ پر زید حامد ہونے کا گمان کریں مگر ایسا نہیں ہے. میں اپنے ملک کی ناکامیوں اور خامیوں دونوں سے اتنا ہی آگاہ ہوں جتنا کے آپ سمیت ہر پاکستانی مگر مجھے لگتا ہے کہ مسلسل مشکلات اور مایوسی کے مبلغ نام نہاد دانشوروں کی وجہ سے ہم آج بحیثیت قوم اپنی خوبیاں چاہ کر بھی نہیں دیکھ پاتے. ہم کسی نفسیاتی مریض کی طرح اپنی خوبی میں بھی زبردستی خامی تلاش کرنے لگے ہیں. ہم تو بس کسی لٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کررہے ہیں، کوسنے دے رہے ہیں، صلواتیں سنارہے ہیں. میرا ماننا ہے کہ اپنی خامیوں کا ادرک جتنا ضروری ہے، اتنا ہی یا شائد اس سے بھی زیادہ لازمی اپنی خوبیوں کو جاننا ہے. خامیوں اور خوبیوں دونوں کا دیانت دارانہ تجزیہ ہی ہمیں درست سمت میں اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے. صرف خامیوں کی تسبیح پڑھتے رہنا مایوسی کی دلدل کے سوا اور کچھ نہیں پیدا کرسکتا.

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 6 تبصرے برائے تحریر ”پاکستان ایک ممکنہ سپر پاور

  1. پاکستان میں لیڈر شیپ نظر نہیں آرہی اور پاکستانی حکمرانوں اور سیاسی کردار کے حوالے سے مضمون خالی ہے ۔۔۔پاکستان کا مستقبل ایک سخت مزاج اور ذہین لیڈرکی ضرورت ہے جو نظر نہیں آرہی ہے۔۔۔۔

  2. کیا کہنے جناب۔بہترین تحریر ۔
    اللہ آپکے علم میں اضافہ فرمائے۔
    اللہ ان ظالموں کو انکے انجام تک پہنچائے جو پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

Leave a Reply