اسکیپ ٹو پاکستان(Escape to Pakistan)/ڈاکٹر انور سعید(مترجم؛شاہین کمال)تیسری قسط

ڈاکٹر انور سعید صاحب کا تعلق چٹاگانگ سے ہے،حالیہ کراچی میں مقیم ہیں، جہاں  ماہر اطفال کے طور پر کام کررہے ہیں ۔  عمر کی 73 بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔ زیرِ نظر تحریر اُن کے سفر نامے”Escape to Pakistan”کا اردو ترجمہ ہے،اس کے بارے خود ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ “اسے فرار کہہ لیجیے یا کہہ لیجیے کہ زندہ بھاگ۔یہ میری یعنی ڈاکٹر انور سعید کی دلگیر کہانی ہے۔ میرا کٹھن سفر نامہ جو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بنگلہ دیش سے پاکستان پہنچنے تک کی روداد ہے۔” شاہین کمال صاحبہ نے اس سفرنامے کا خوب ترجمہ کیا ہے۔

 

 

دوسری قسط کا لنک

تیسری قسط

زندگی تو چٹاگانگ کالج میں جی
دسویں کا نتیجہ آ گیا تھا اور آنکھوں میں سنہرے دنوں کے خواب بھرے ہم اپنے من پسند کالج کی تلاش میں تھے۔ جہاں اپنے اسکول کو بھلانا ناممکن تھا وہیں کالج کی ہیجان انگیز زندگی پوری قوت سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی, جہاں آزادی اور تحیر ہمارے منتظر تھے۔
میرے والد سرکاری الیکٹریکل کانٹریکٹر contractor تھے اور گھر میں وہ بڑے جذب سے انجینئر حضرات کے متعلق گفتگو کرتے تھے۔ کام پر میرے والد کا براہ راست تعلق انجنیئرز ہی سے پڑتا تھا اور ابا ان سے بہت متاثر تھے۔ ان کی شدید آرزو تھی کہ میں بھی انجینئر بنوں۔ سو گھر میں یہ امر طے شدہ تھا کہ میں پری انجینئرنگ گروپ میں داخلہ لوں گا۔ میری دسویں کی مارک شیٹ، داخلہ فارم کے ساتھ چٹاگانگ کالج میں داخل کر دی گئی۔ حسنِ اتفاق کہ ابا ان دنوں اسی کالج میں کام کروا رہے تھے اور وہاں کے پرنسپل سے ابا کی اچھی صاحب سلامت تھی۔ جب پرنسپل صاحب نے میتھس میں میرے نمبر کم دیکھے تو انہوں نے ابا کو اپنی آفس میں بلوایا اور صاف صاف کہہ دیا کہ لڑکا میتھس میں کمزور ہے، سو انجینئرنگ اس کے بس کا روگ نہیں لہذا میں اسے پری میڈیکل میں داخل کر رہا ہوں۔ پرنسپل صاحب نے ابا کے جواب کا انتظار کیے بغیر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ شام میں ابا گھر آئے اور انہوں نے پرنسپل صاحب کا فیصلہ ہمیں گوش گزار کیا اور جناب میری انجینئرنگ کی عمارت تعمیر ہونے سے پہلے ہی اڑا اڑا دھم۔
آج سوچتا ہوں کہ پرنسپل صاحب نے مجھ پر احسان عظیم کیا کہ میں اپنی ڈاکٹری میں بہت خوش اور مطمئن ہوں۔
چٹاگانگ کالج کے دو سال میری زندگی کے یادگار ترین سال ہیں۔ کالج میں ہزارہا قسم کی سرگرمیاں تھیں اور میرا دوستوں کا گروپ زندہ دل اور شریر ترین تھا۔ کلاسز بنک کرنا ہمارا دل پسند مشغلہ اور کالج کے پھڈوں میں بھی میرا گروپ آگے آگے ہوتا۔ کالج میں دو متحارب گروپ تھے۔ ایک دفعہ ایسے ہی ساتھیوں پر رعب جمانے کے غرض سے، میں ابا سے ان کا چہیتا ویسپا اسکوٹر مانگ کر کالج لے گیا اور اسے عین اپنی کلاس کی کھڑکی کے نیچے پارک کیا مگر یہ کیا!!!
کلاس ختم کر کے باہر آیا تو ابا کا دلارا ویسپا اپنی ہیڈ لائٹ، ہارن، انڈیکیٹر لائٹ اور شیشے سے محروم، بے چارگی کی مجسم تصویر بنا کھڑا تھا۔ ظاہر ہے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ یہ کس کی حرام زدگی ہے۔ خیر ہم
لوگ بھی ادھار کے کب قائل تھے! ہفتے کے اندر اندر سود سمیت بدلہ اتار دیا۔
میرے ایک دوست کے پاس روسی ساخت کی کار تھی جس پر سارا گروپ لد کر لمبی لمبی سیریں کیا کرتا تھا۔ میرے کچھ دوست پتنگا روڈ پر اسے انتہائی تیز رفتاری سے دوڑایا کرتے تھے ۔ سورج ڈھلنے کے بعد یہ ہم لوگوں کا من پسند شغل تھا۔ کالج ہی میں، میں نے زندگی کا پہلا سگریٹ پیا پر یہ میرے بس کا روگ نہ تھا کہ دھواں اندر جاتے ہی کلیجہ باہر آنے کو مچل اٹھتا۔ سگریٹ کا شغل بس کالج تک ہی رہا۔ وہ بھی شو مارنے بھر پھر میں نے اسے کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔ میرا کالج گو کہ ” کو ایجوکیشن کالج” تھا مگر نازنیںنو سے ہمارا رابطہ کم ہی کم رہا۔
کالج کے ان دو سالوں میں نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی مصروفیت بھی خوب رہی۔ میرا گروپ ریلوے آفیسرز کلب کا ممبر تھا، جہاں ہم لوگ مباحثے اور دیگر ادبی تقریبات ایک تسلسل سے منعقد کرتے رہتے تھے۔ ہم لوگ ایک سالانہ میگزین بھی نکالا کرتے تھے۔ اس میگزین کے لیے میں کہانی تو لکھا ہی کرتا تھا ساتھ ہی ساتھ اس میگزین کی پرنٹنگ بھی میرا درد سر تھی۔ اس زمانے میں پرنٹنگ بہت مشکل تھی کیونکہ ایک ایک لفظ کا بلاک بنا کرتا تھا اور پھر ان بلاکس کی صحیح ترتیب سے الفاظ اور جملے بنا کرتے سو تصحیح اور پروف ریڈنگ کی دیدہ ریزی بہت تھی۔
مزے کی بات کہ میری اردو خاصی کمزور تھی اور ہم لوگوں کی اردو کی درسی کتاب جس کا نام تھا ” آسان اردو ” یہ رومن اردو کی قسم تھی۔
ہمارے اردو کے استاد بہت ہی وضع دار قسم کی شخصیت تھے، افسوس کے مجھے ان کا نام یاد نہیں۔ ایک دن حسبِ سابق میں کلاس میں ذہنی طور پر غیر حاضر تھا گو کہ میں فرسٹ بینچر تھا۔ استادِ محترم نے میری غیر حاضری محسوس کر لی اور بڑی شیفتگی سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا
” اتنا قریب پھر بھی اتنا دور ”
چٹاگانگ میں گزرے دو سال میری زندگی کے یادگار ترین لمحات ہیں۔ اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام ہلڑ بازیوں کے باوجود میں پڑھائی میں اچھا تھا اور سالانہ امتحانات میں میرے اتنے نمبرز آ ہی گئے کہ مجھے با آسانی میڈیکل کالج میں داخلہ مل ہی گیا۔
مجھے سلہٹ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا تھا سو میں اپنے پیارے پتھر گھاٹا کو چھوڑ کر سلہٹ آ گیا۔ میرا ایم بی بی ایس کا پہلا سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بگڑتی سیاسی صورتحال کے سبب مجھے پتھر گھاٹا لوٹنا پڑا، یہ غالباً ١٩٧١ کی ابتدا تھی۔
١٩٧١ مارچ کا مہینہ تھا یعنی بہار آ گئ تھی مگر اس بار بہار پاکستان کے مقدر میں نہیں تھی۔ ہمارا گھر چونکہ اونچائی پر تھا اور اپنے صحن میں سیڑھی لگا کر دور، اونچے پہاڑ پر ہوتی پاکستان آرمی اور مکتی باہنی کی جھڑپ بآسانی دیکھی سکتی تھی۔ ابتدا میں مکتی باہنی کا پلڑا بھاری رہا اور وہ کورٹ کی عمارت پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لگانے میں کامیاب رہے پر یہ عارضی کامیابی تھی۔ شام ڈھلنے سے پہلے پہلے پاکستان آرمی نے کورٹ کی عمارت پر دوبارہ قبضہ کر کے پاکستانی ہلالی پرچم لہرا دیا مگر تابکے۔
بالآخر سولہ دسمبر کو شنار بنگال سے پاکستانی پرچم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لپیٹ دیا گیا۔ اب وہاں بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا کرتا ہے۔
میں نے ایک دفعہ پھر پتھر گھاٹا چھوڑا۔ میں دراصل انڈیا جانے کی کوششوں میں تھا تاکہ وہاں سے نیپال نکل جاؤں اور پھر نیپال سے پاکستان۔ اس سفر میں میرے پڑوسی، جو مکتی باہنی کے رینک ہولڈر تھے انہوں نے میری مدد کی۔ میں اگرتلہ سے کومیلا پہنچا مگر سرحد پار نہیں کر سکا، ناچار پھر پتھر گھاٹا لوٹ آیا۔
١٩٧٢ میں، میں نے بنگلہ دیش سے دوبارہ نکلنے کی کوشش کی اور اس بار میری کوشش براستہ برما تھی۔
مجھے آج بھی پندرہ دسمبر کی دل گیر صبح اپنی پوری جزئیات کے ساتھ یاد ہے۔ صبح سے شہر میں افواہوں کا بازار گرم تھا اور ہر شخص آواز بر گوش۔ پاکستان آرمی کے ہتھیار ڈالے جانے کی خبر عام تھی۔ گو شہر پر سکون تھا مگر وہ سکون غالباً طوفان کی آمد سے پہلے والا سکوت تھا۔ شام ہوتے ہوتے شہر بم دھماکوں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ اماں گھبرا کر خیر خبر لینے پڑوس میں چلی گئیں۔ پتہ چلا کہ ہندوستانی فوجیوں نے کینٹومینٹ کو گھیرے میں لے لیا ہے اور وہاں تابڑ توڑ حملے ہورہے ہیں۔ عین اسی وقت صحن میں رکھے ٹرانسسٹر پر صدر یحییٰ خان اپنی بلغمی آواز میں اعلان کر رہے تھے کہ “ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔”
روم ڈوب رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply