گیارہ برس ہونے کو آئے جب ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی اہم تصنیف : ‘ مابعد نو آبادیات : اردو کے تناظر میں ‘ شائع ہوئی تھی ۔ تب اس کا حصول ممکن نہ ہو سکا ۔ اب رواں سال میں اشاعت ثانی کا مرحلہ آیا تو شوق اور توجہ کے ساتھ مذکورہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا ہے ۔ ابتداء ہی میں عرض کیے دیتے ہیں کہ نو آبادیاتی / مابعد نو آبادیاتی مطالعات مصنف کے ترجیحی زمروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ یوں بعض احباب کی جانب سے کچھ بیزاری کا اظہار بھی کیا جاتا ہے کہ جو سمے بیت چکا ، جو حکمران لَد چکے اب ان کے تذکرے کو تجزیے کے مرکز میں لانے سے کیا حاصل ؟ یہ بے وقت کی راگنی جواز سے تہی رہے گی ۔اس ضمن میں صرف یہ کہنا ہے کہ کولونیل اور پوسٹ کولونیل ادوار میں اگرچہ زمانی اعتبار سے حد فاضل قائم ہے لیکن ان دونوں منطقوں میں انسلاک کوئی گہرا راز نہیں ۔ تفہیم کا عدسہ تبھی موثر ثابت ہو پائے گا جب خصوصاً اوّل الذکر کی ان جہات کو ٹھہر کر سمجھا جائے جنھیں عجلتی مزاج اور جذباتی میلان نے تحدید کا شکار کر دیا ہے ۔ ان اوراق کو ایک منضبط علمی دستاویز میں اسی سعی نے منتقل کیا ہے کہ مصنف نے دونوں عہد کو تعین سے گزارتے ہوئے کہیں مفصل کہیں مجمل نکات کے ذریعے قاری کو باور کرانا چاہا ہے کہ متذکرہ موضوع کہاں کہاں slots رکھتا ہے ۔ مثال کے طور پر ترقی پسند تنقید نے استعماریت کے سیاسی اور معاشی جبر پر بجا محاکمہ قائم کیا ، اسی طرح روایتی نقادوں نے تہذیبی خساروں کا درست گوشوارہ مرتب کیا ۔ اس مناسبت سے فرانز فینن ، ایمی سیزارے ، ایڈورڈ سعید ، اقبال احمد و دیگر کے افکار سے استفادے کی شکلیں بھی سامنے لائی گئیں ۔ ان قابل ذکر مساعی کے باوصف مطالعے تشنگی کو نشان زد کرتے تھے ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ایک تو ‘ آزادی ‘ پہ رک کرکے بات کی ہے کہ یہ محض ایک ‘ ایونٹ ‘ نہیں تھا ، جس کے بعد نیا سویرا طلوع ہو گیا اور مسافر تیرگیوں کو بہت پیچھے چھوڑ کر رنگ و نور کی وادیوں میں آ نکلے ۔ علاوہ ازیں جو زیادہ خوش گمان نہیں بھی تھے ، ان کا داغ داغ اجالوں اور شب گزیدہ سحر کی تشخیص کر دینا بھی پورے ‘ معالجے ‘ سے تعبیر نہیں ہو پاتا ۔ ثقافتی تشخص کی جستجو ، نئے وطن کی نسبت سے پہچان کا قضیہ بھی بیان ہوا مگر متعدد سوالات اس کے باوجود مسکت جوابوں کے متمنی ہیں ۔
اگر قدرے معتدل ہو کر دیکھا جائے تو یہ استفسار نظر انداز ہونے والا تو نہیں کہ یہ کب کہاں حتمی طور پر طے ہوا تھا ، ہندو اور مسلم ایک آنگن میں چونکہ رہ ہی نہیں سکتے ، اس لیے علیحدگی ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اپنی معنویت سے دستکش ہونے کو آسانی سے تیار نہیں کہ اس خطے میں مذہبی ریاست کا قیام الوہی حکم تھا ۔ یہ القا کس قلب پہ ہوا ؟ بلاشبہ آزادی اعلیٰ قدر ہے لیکن مسلمان یہ آزادی ہندو سے چاہتے تھے یا انگریز سے ؟ اب ‘ آزاد ‘ تو ہندو بھی ہوئے ہیں ، کیا وہ بھی مسلمانوں سے ‘ نجات ‘ کے طلب گار تھے ؟ ایک حقیقت ‘ تاریخی عمل ‘ بھی ہے ، تقسیم سے وابستہ شدید المیے تو ہماری تقدیر بن گئے لیکن یہ وقوعہ اپنے عقب میں تاریخی عمل سے انجذاب کی شرط کو پورا کرتے ہوئے کیوں موجود نہیں ؟ برصغیر میں جب مغلوں / مسلموں کو اقتدار میسر تھا تو ہندو سمیت کئی مذاہب یہاں رہتے بستے تھے ، تب ہماری قومی و مذہبی شناخت کو کوئی خطرات لاحق نہیں تھے ؟ چلیے مان لیا ہم نے اس عظیم جہد کےصلے میں وہ ‘ آئیڈیل فریڈم ‘ پا لی جسے مقدس کہنا الہامی ہوگا ۔ سچے دانشوروں کی خلق کی ہوئی ‘ ہند اسلامی تہذیب ‘ کی فینٹسی بھی عظمت کا شاہکار ہوگی لیکن ذرا ٹھہر کر کبھی سوچنا تو چاہیے کہ ہمیں جو ملا ہے اس کے مقابلے میں وہ ٹریجڈی کہیں زیادہ ہولناک ہے جس کے سامنے ‘ ٹراما ‘ معصوم سا لفظ ہے ۔
بہرصورت یہ مقام تفکر تو ہے کہ اگر پاکستان کا ثمر آزادی کی جدوجہد کا ثمر ہے یعنی استعمار سے خلاصی کا صلہ ہے تو لازم تھا کہ استعمار کے معاشی ، ثقافتی استحصال کو مفصل تجزیے کا موضوع بنایا جاتا ۔ مصنف کا کہنا ہے کہ جن اداروں نے یہ کام کیا ، ان پر کوئی باقاعدہ ڈسکورس مستحکم نہیں کیا گیا ۔ ایسے ادارے خصوصی اختیارات کے باعث ہمیشہ ‘ کلین چٹ ‘ لینے میں بامراد رہے ۔
اب ‘ فرنگی کے مظالم ‘ پر فلم بنا کر ناظرین کا تزکیہ کرنا اور قسم کی واردات ہے لیکن رد ِاستعماریت کی فکری مہم سر کرنا اور نوعیت کا مجاہدہ ہے ۔ اس تصنیف کی خواندگی کے دوران بار بار یہ احساس ہوتا رہا کہ سفید رنگت کی جاذبیت لیے ہمارے ‘ آقاؤں ‘ نے چند ایجادات اور نئی تعلیم کی وساطت سے زیست کو پُرسہولت ضرور کیا اور بدلے میں ‘ محسن ‘ کا لقب بھی پایا لیکن اس ‘ گریٹ استعمار ‘ نے اس دھرتی کا ہمہ گیر استحصال بھی رَج کے کیا ۔ اس پہلو سے سماج کے فائبر کی ٹوٹ پھوٹ وہ سانحہ ہے جسے حاشیے میں نہیں رکھا جا سکتا ۔ ریل ، تار ، سڑک ، پوسٹ آفس ۔۔۔ ان احسانات سے ہماری کمریں دہری ضرور ہیں ، لیکن انہی مہربانیوں کو خود اپنے لیے کس قدر ہموار کیا گیا ؟ کیا وقت نے یہ بھید رہنے دیا ہے کہ اصل بینیفیشری تو گورے ہی بنے ۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اس تاریخی حقیقت کو زیادہ صراحت کے ساتھ quote کر کے ازسرنو حیرت اور غیرت کا سنگم تخلیق کیا ہے کہ 1800 ء میں یورپی طاقتیں زمین کے پچپن فی صد حصے پر تصرف کی مدعی بنیں جو اگرچہ اصل میں تیس فی صد کے قریب تھا ۔ 1878 ء تک کرہ ارض کی پوری انسانی آبادی کا سڑسٹھ فی صد یورپی ممالک کے قبضے میں چلا گیا ۔ 1914 ء تک 240000 م کے رقبے پر مغربی ملک سالانہ تسلط حاصل کر رہے تھے ۔ اسے زمین کا پچاسی فی صد قرار دیا گیا ہے ۔ یہ تو ہوئی مجموعی زمینی صورت حال ۔ اب آ جائیے بر صغیر پہ : ” 30 کروڑ آبادی کے ہندوستان پر صرف چند ہزار برطانوی سول ملازمین نے نو آبادیاتی قبضہ کیے رکھا ۔ 1930 تک ان سول ملازمین کی کُل تعداد صرف 4000 تھی ، جنھوں نے 60000 فوجی اور 900000 دیسی ملازمین بھرتی کیے ہوئے تھے ۔ آخر کیسے ایک عظیم عددی اکثریت ، معمولی اقلیت کے تابع فرمان تھی ؟ ” ( ص : 26 ) اس مقام پر مصنف صرف اعداد و شمار پیش کرنا نہیں چاہتے بلکہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ مقبوضات یا نوآبادیوں کے ثقافتی مطالعے کے لیے یورپی عہد ، وکٹورین عہد ، عہد انگلشیہ ، تاج برطانیہ ، یا فرانسیسی و ہسپانوی عہد کی اصطلاحات کیوں مناسب نہیں ؟ ‘ نو آباد کاری ‘ یا ‘ نیو کولونائزیشن ‘ میں موزونیت کیوں مضمر ہے ؟ اسے سمجھے بنا ‘ مابعدنو آبادیات ‘ کا صحیح تعین نہیں کیا جا سکتا ۔
یہاں انھوں نے برمحل تاریخ سازی کے مفہوم سے آگہی کا سامان کیا ہے کہ تاریخ صرف صاحبان اقتدار کے زاویے ہی سے بیان نہیں ہوتی نہ محکوم طبقات کے اذکار سے تاریخ اپنے دائرے کی تکمیل کرتی ہے ۔ تاریخ تو اعمال ، وظائف ، سرگرمیوں اور اثرات سے عبارت ہے ۔ یہ صورت حال ہشت پہلو مظہر کو اجاگر کرتی ہے ۔ باقی اشخاص کی اہمیت اپنی جگہ ، طبقات کی ہونیت بھی مسلم ، نسلوں کی سماجی سائنس بھی نظر انداز نہیں ہو سکتی لیکن شناخت کی اصل بنیاد عمل و اختیار کی قوت و قلمرو اور اس کے اثرات و نتائج سے مشخص ہو پائے گی ۔ اس طرح مابعد نو آبادیاتی تاریخی عمل ایک مختلف واقعہ بنتا ہے ۔ ان مبادیات سے فکری واقفیت کا بندوبست کرنے کے بعد وہ اپنے قاری میں اس سمجھ کی جوت جگا دیتے ہیں کہ مابعد نو آبادیاتی مطالعہ گویا ازخود پہلے قدم پر توضیح کر دیتا ہے کہ نو آبادیات ایک ایسا تاریخی عہد ہے جو محض یورپی نسل کی ایشیائی و افریقی اقوام پر سیاسی حکمرانی کا دور نہیں ۔ اس عمل نے ایشیا اور افریقہ کے باشندوں کو فقط محکومیت سے دوچار نہیں کیا ۔ یہاں استحصال اپنی سادہ و مروج صورت میں مسلط نہیں ہوا ۔ واعظ کی چالوں کی طرح یہاں بھی بے شمار بل ہیں ۔ اسی نو آبادیاتی تناظر میں مصنف اپنے مابعد نو آبادیاتی مطالعے کے ذریعے آئس برگ کے اوجھل ، بھاری بھرکم وجود کو کھینچ کر ساحل پر لانے میں برابر سرگرداں رہے ہیں ۔
یہ تصریح بے محل نہ ہوگی کہ ناصر عباس نیر صاحب ماضی کے ریکارڈ روم میں موجود مواد کی ترتیب نو کو اہم نہیں جانتے بلکہ وہ عہد حاضر کے احوال پر اسے منطبق کرنے کی بھرپور استعداد بھی رکھتے ہیں ۔ وہ عالمی منظرنامے پر نگاہ رکھتے ہوئے یہ نتیجہ برآمد کرتے ہیں کہ 1970 ء تک بادی النظر میں استعمار کے پنجوں نے زمین پر اپنی گرفت ختم کر دی لیکن نو آبادیات کا ‘ متعدی عارضہ ‘ سپر پاورز کے برتاؤ میں ظہور پذیر ہو کر رہا ۔ گویا عسکری ، سفارتی ، سیاسی دخل اندازیوں کے تازہ سلسلوں نے اپنی اساس رکھی ۔ قارئین کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں کہ ان مداخلتوں کے جتنے اثرات پاک و ہند پر آئے ہیں وہ شاید باقی دنیا سے کہیں زیادہ ہیں ۔ صرف جنگوں ہی کو دیکھ لیجیے ، ان کا ‘ کھرا ‘ مذکورہ مراکز ہی تک پہنچتا ہے ۔ یو ایس ایس آر بکھرا تو ساری شکتی امریکا میں منتقل ہو گئی ۔ اب تیسری دنیا اس کی شکار گاہ ٹھہری ۔
ناصر صاحب نے اپنی اس کتاب کے مندرجات میں ‘ یورپی مرکزیت ‘ کو بھی لطیف مباحث کا مظہر بنایا ہے اور خواندگان کو اس شعور سے ہمکنار کیا ہے کہ ما بعد نو آبادیاتی مطالعہ / تجزیہ یورپ کو نہیں کولونیل ازم کو نیوکلیس گردانتا ہے ۔ اس ناٹک کا اسکرپٹ بھلے ہی یورپ میں ڈرافٹ ہوا ہو لیکن اسٹیج کے چناؤ میں ایشیا ، افریقہ ، لاطینی امریکہ کے وکیل طے ہوئے ۔ یہیں کولونیل ازم اور امپیریل ازم کے باریک فرق کو واضح کرتے ہوئے ایڈورڈ سعید سے مدد لی گئی ہے کہ نو آبادیات امپیریل ازم کا نتیجہ ضرور ہے مگر اس کا مترادف بالکل نہیں ۔ یعنی امیریل ازم میں بھی خروج کیا جاتا ہے ، مفتوحات یہاں بھی حاصلات بنتی ہیں ۔ تاہم محکوموں سے صرف سیاسی خراج ہی طلب کیا جاتا ہے ۔ ان کے قلوب و اذہان سے ثقافتی غلامی کا مطالبہ اصرار نہیں رکھتا ۔ یہ اشتباہ یوں عام ہے کہ لوگ باگ دوسرے فاتحین کے اقدام کا جواز طلب کرتے ہیں ۔ خاص طور پر مغل ایمپائر کو حوالہ بنایا جاتا ہے ۔ مصنف نے اپنے اس علمی فکری مقدمے میں یہ نکتہ کھول کر بیان کر دیا ہے کہ ایک تو نو آبادیات اور جبر لازم و ملزوم ہیں دوسرے یہ کہ ثقافتی اطاعت شعاری اور وہ بھی دل اور روح کی گہرائی سے تقاضا بنتی ہے ۔ عین اس جگہ کتاب میں طاقت کی صورتیں موضوع بنائی گئی ہیں ۔ یہ حصہ جس قدر فکر افروز ہے اتنا ہی پُراسرار بھی ہے کہ عامی ذہن طاقت کی سریت سے آگہی نہیں رکھتا ۔ میثل فوکو سے استنباط کرتے ہوئے مصنف نے اپنے اس متن کو بے شک خاص بنانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے ۔ یہاں جب خوانندہ مصنف کے ہم رکاب چل پڑتا ہے تو وہ خود ہی موید ہو جاتا ہے کہ مابعد نو آبادیاتی مطالعہ ثقافت اور فکر کو استعمار کی مخفی اور عیاں زنجیروں سے رہائی دلانے کی کوشش کا عنوان ہے ۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا یہ کام امتیاز کا حامل تھا ، ہے اور رہے گا کہ فکری تمول سے معمور یہ تصنیف جہاں ان کے وسیع مطالعے پر برہان ہے وہاں ان کی ذاتی صلاحیت کو ممتاز قرار دینے میں بھی حق بجانب ہے ۔ قدم قدم پر وہ استنتاج کی معراج کو چھوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ نتائج آفرینی کا یہ عمل اپنی معروضیت کو بھی برابر قائم رکھتا ہے اور قاری کو حیران بھی کرتا ہے کہ بے انداز سمتوں کی جانب مسافرت کے علی الرغم کیسے کوئی لکھنے والا اپنے محور سے ربط کو پیہم استوار رکھ سکتا ہے ؟ اپنے معاصرین سے تنقید میں اگر ناصر صاحب کو تسلیم اور اعتراف کا ارمغان مسلسل مل رہا ہے تو وہ اس اعزاز کے مستحق ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں