وادیء جہلم سے پانڈو سیکٹر تک/طیبہ ضیاء چیمہ

کس قدر حسین ہے تو، دلفریب دلنشیں ہے تو، تیرا ذرا ذرا دلکش، تیرا ہر رنگ ہر شہر ہربستی ہر کوچہ وادی جنت نظیر ہے۔ گلگت بلتستان سے، آزاد کشمیر بلوچستان سے۔ لاہور کا پنجاب۔ کراچی کاسندھ۔ ریگستان سمندر دریا چشمے پہاڑ سبزہ زار ہے تو۔ یوں تو رب کا سارا جہان ہی قابل دید ہے پر پاک وطن تو ماں جیسا جمیل ہے۔

 

 

 

پاکستان کے خوشحال مکین بھی اگر اپنے وطن کی سیاحت سے محروم ہیں تو دنیا کے حسن سے تقابل کیونکر کر سکتے ہیں؟

گلگت بلتستان کے حسن پر متعدد کالم لکھ چکے ہیں جبکہ آزاد کشمیر جنت نظیر بھی خالق کی حسین تخلیق ہے۔ مظفر آباد سے وادی جہلم دریا کے سنگ سنگ لائن آف کنٹرول تک کا سفر انتہائی دلفریب ہے۔ چھوٹے چھوٹے کئی دیہات گزر کر چناری کا پل عبور کرکے کشمیر کی چوٹی تک پہنچے۔ نو ہزار فٹ بلندی پر سرد پہاڑیاں پانڈو کی سرحد کہلاتی ہے جس کے دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کی سرحد اوڑی چوکی کہلاتی ہے۔

پہلے نشان حیدرکیپٹن سرور شہید کے جواں رنگ خون سے روشن چکوٹھی، اوڑی سیکٹر اور پانڈو کی پہاڑی۔ یہ ہے وہ علاقہ جہاں کیپٹن سرور شہید نے خون کا نذرانہ دے کر قبضہ کیاا ور مظفر آباد کو دشمن کے حملے سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ اوڑی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا ایک شمالی سرحدی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ ایک طرح سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان آزادی کے بعد سے جاری جدوجہد کی پہچان کہلاتا ہے۔

سرینگر سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر اوڑی واقع ہے۔ پاکستانی کشمیر پانڈو اور مقبوضہ کشمیر اوڑی میں دونوں اطراف فائرنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تین سال سے سیز فائر ہے، بظاہر کچھ امن ہے، پاک فوج فائرنگ سے گریز کرتی ہے کہ دونوں جانب مسلمان نفوس آباد ہیں مگر دشمن شر پسندی سے باز نہیں آتا۔ مظفر آباد اوڑی بس سروس 2005 میں شروع ہوئی تھی جو تبدیلی والے اور مودی دور حکومت میں رک گء ہے۔ اوڑی اس بس سروس کا اہم مرکز تھا کیونکہ وہ انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

انڈیا اور پاکستان کی تقسیم سے پہلے اوڑی کاروبار کے لیے اہم مرکز تھا۔

1948ء کے بعد سے اوڑی فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل ہوتا گیا۔

2005ء میں جب انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایل او سی پار بس سروس کا افتتاح کیا تھا، تب سرینگر سے مظفرآباد کے 130 کلومیٹر طویل سفر کے اہم مرکز کے طور پر اوڑی کی پرانی اہمیت لوٹنے لگی تھی۔ اوڑی اور سیکٹرپانڈو امن و جنگ کا مرکز رہا ہے۔ ھم پاک سرحد پانڈو کی چوٹی پر کھڑے حد نگاہ تک دونوں اطراف کشمیر کا نظارہ کرتے ہوئے ” کشمیر بنے گا پاکستان ” کی بازگشت میں کھو گئے۔ سیکٹر پانڈو سے آگے پہاڑی پر شہدا کی قبور ہیں۔

مظفر آباد جہلم ویلی سے ھم سیکٹر پانڈو کی طرف نکلے جو سطح سمندر سے 9000 فٹ کی بلندی پر ہے۔ پانڈو کی پہاڑی کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے پاکستان کو ہندوستان پر دفاعی برتری حاصل ہے۔ اسے مجاہدین اور قبائلیوں نے 1948 میں آزاد کروایا۔ اسی پہاڑی کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کے پہلے نشانِ حیدر کیپٹن سرور شہید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ پانڈو پہاڑی تک جانے کے لیے بڑے لمبے اور دشوار گزار راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔

آسمانوں کوچھوتے بلندوبالا سر سبز پہاڑ اس علاقے کی جان ہیں۔ وادی جہلم سے بلند و بالا وچوٹی پانڈو تک بل کھاتی سڑک تنگ، خطرناک اور شکستہ حال ہے۔ پانڈو سے نیچے اترے تو چکوٹھی لائن آف کنٹرول پہنچے۔ تمام راستہ کشمیری عورتوں کی ہمت اور محنت نے حیران کر دیا۔

لائن آف کنٹرول پہ رہنے والے غریب کشمیری مسلمان بڑی بہادری اور ہمت سے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کررہے ہیں۔ کشمیر ی مسلمان مرد اور عورتیں خو دار ہیں، محنت مزدوری کرکے اپنا گزارا کرتے ہیں۔ کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ ایل او سی کیراستے میں پیدل چلتی ہوئی کئی غریب عورتیں نظر آئیں۔ گاڑی روک کر ان کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا۔ فوراََ لینے کی بجائے انہوں نے بار بار پوچھا کیوں دے رہے ہیں۔ ہم نے بتایا محبت کا اظہار ہیتو انہوں نے لے لیا۔ گلگت بلتستان کے سفید پوش مقامی باشندے بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔

کشمیر کی سرحد کارگل سے پانڈو تک محب وطن اور جفاکش قوم آباد ہے۔ اسد کشمیر کی چوٹی پر سیکٹر پانڈو سے واپسی پر ھم چکوٹھی رکے۔ چکوٹھی آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی سرحد یعنی لائن آف کنٹرول ہے۔ گیٹ پر لکھا تھا ” کشمیر بنے گا پاکستان ” اور اطراف بلند و بالا بورڈز نصب ہیں جن پر لکھا ہے ” پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے “۔۔

چکوٹھی کی پہاڑی پر ہریالی پرچم لہرا رہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کی پہاڑی پر دشمن کا پرچم لہرا رہا ہے۔ دونوں اطراف فوج تعینات ہے۔ بس سروس بند ہے۔ سیز فائر ہے۔ بظاہر خاموشی ہے مگر دشمن کی شر پسندی کا سلسلہ اچانک شروع ہوجاتا ہے۔ اس دشمن سے پاک فوج غافل نہیں کہ یہ دشمن کشمیریوں کے لہو سے ہولی کھیلنا اپنی طاقت سمجھتا ہے۔ چکوٹھی ایل و سی سے ہم چھم آبشار کا نظارہ کرنے نکل گئے۔ چھم آزاد کشمیر کی سب سے بڑی اور دلفریب آبشار ہے۔ سڑک زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے بند تھی۔

ہماری جیب متبادل مگر انتہائی دشوار راستے سے چھم تک لے گئی۔ چھم آبشار بھی سیاحت کا حسین مقام ہے مگر سرکاری سطح پر سیاحوں کی سہولت کے لئے نہ ابھی روڈ ہے نہ تفریحی بندوبست ہے۔ پاکستان میں ریگستان، سرسبز و شاداب علاقے، میدان، پہاڑ، جنگلات، سرداور گرم علاقے، خوبصورت جھیلیں، جزائر اور بہت کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں پاکستان نے اپنے طرف 1 ملین سیاحوں کو مائل کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

امن و امان کے مسئلے کے وجہ سے پاکستان کی سیاحت بہت متاثر ہوئی لیکن اب حالات بڑی حد تک معمول پر آچکے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے پاکستان کا رْخ کیا ہے۔ حکمرانوں کو معدنیات اور حسن سے مالا مال مملکت پاکستان کی طرف عملی اور سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے پھر یہ ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply