ذہانت (19) ۔ انوکھے ڈاکٹر/وہاراامباکر

کیا آپ میموگرام دیکھ کر پہچان سکتے ہیں کہ چھاتی کا سرطان کس کو ہے اور کس کو نہیں؟ ساتھ لگی تصاویر ان کی مثالیں ہیں۔ اگر آپ تربیت یافتہ پیتھالوجسٹ یا ریڈیولوجسٹ نہیں تو آپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ برسوں کے تربیت یافتہ میڈیکل ایکسپرٹ بھی ان کی پہچان میں غلطی کر جاتے ہیں۔

 

 

 

یہ فن کس قدر جلد سکھایا جا سکتا ہے؟ اس پر تجربہ کرنے کے لئے کچھ نوآموز بھرتی کئے گئے جن کو تربیت سے پہلے اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو تربیت دی گئی۔ میموگرام دکھائے گئے جن میں سرطان تھا اور جن میں سرطان نہیں تھا، انہوں نے ان تصاویر کو دیکھ کر پہچان کرنا سیکھا۔ صرف دو ہفتے کی تربیت کے بعد ان کی ایکوریسی 85 فیصد ہو چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تربیت پہلے تصاویر کا ایک سیٹ دکھا کر تربیت کی گئی تھی جس میں ان کو پہچان کروائی گئی۔ اس کے بعد ان کو وہ تصاویر دکھائی گئیں جن کو انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اور اس میں پہچان کرنا تھی۔ اس کے بعد ان کو ریڈیولوجی کے ٹیسٹ دکھائے گئے۔ اس میں بھی انہوں نے اتنی ہی مہارت حاصل کر لی۔ نہ صرف پہلی تصاویر یاد کر لیں بلکہ نئے دکھائے جانے والی تصاویر پر بھی اتنے ہی اچھے نتائج دے دئے۔
اس سے زیادہ متاثر کن نتائج اس وقت ملے جب ان کی ووٹنگ کروائی گئی۔ یعنی الگ الگ شناخت کروا کر اکثریت کا فیصلہ دیکھ کر نتیجہ نکالا گیا۔ اس سے ایکوریسی 99 فیصد ہو گئی۔
یہاں پر زیادہ دلچسپ چیز یہ تھی کہ یہ ٹیسٹر کون تھے۔ یہ اونکولوجسٹ نہیں تھے۔ یہ ڈاکٹر بھی نہیں تھے۔ نہ ہی نرس اور نہ ہی میڈیکل کے طالبعلم۔ حتیٰ کہ یہ انسان بھی نہیں تھے، یہ کبوتر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
فی الحال تو ڈاکٹروں کی ملازمت خطرے میں نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ہم ڈاکٹروں کی جگہ پر کبوتر دیکھیں گے۔ لیکن یہ تجربہ جو اہم نکتہ دکھاتا ہے وہ کچھ اور ہے۔ ان تصاویر کی بنیاد پر پیٹرن تلاش کر لینے کی صلاحیت انسان سے خاص نہیں۔
اور اگر یہ کام کبوتر کر لیتے ہیں تو پھر الگورتھم بھی تو کر سکتا ہے۔۔۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply