کیا آپ کبھی مایوس ہوتے ہیں؟/گُل رحمٰن

وقت کی چابک جب زندگی کے گھوڑے کو بھگاتی ہے تو تکبک تکبک کی آواز میں اور کچھ سنائی نہیں دیتا۔اور اگر گھوڑا منہ زور ہو تولگام کی پکڑ میں مہارت ضروری ہو جاتی ہے۔ ناتجربہ کار گھڑ سوار زمین بوس ہونے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے۔

لیکن مایوس مت ہوں !

گھوڑا اور زندگی کی کہانی بہت مختلف ہے۔ جہاں ایک طرف لگام ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے وہیں دوسری طرف ہماری ڈور کسی اور کےہاتھ میں ہوتی ہے۔ جیسے ایک چُست گھڑ سوار کا مقصد مالک کے لیے جیتنا ہوتا ہے ویسے ہی ہمارا مقصد بھی اگر اپنے مالک کے لیےفاتح ہونا بن جائے تو زندگی کی بھاگ دوڑ میں ہچکولے محسوس نہیں ہونگے۔

بیشک دونوں مثالیں ایک کھیل کے زمرے میں ہی آتی ہیں ۔۔ لیکن ایک کی ریس کا وقت متعین ہے اور دوسری کا پوشیدہ ۔

ہار جیت کا خوف انسان کو بالآخر کس قدر تھکا دیتا ہے۔ بے معنی سی بے چینی ہمیں ہر دم جکڑے رکھتی ہے۔ نہ  منزل کا پتہ نہ انجام کا ، مگر

سر پٹ بھاگ رہے  ہیں۔۔

پیٹ کا کنواں بھر نہیں رہا، فکروں کے انبار لگا رکھے ہیں ، شکایات کا کھاتا چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے، اگر احساس کمتری نہیں تواحساس برتری کا مشغلہ پالا ہوا ہے، حسد اور ہوس کی عینک لگا رکھی ہے یعنی  نہ  چاہتے ہوئے بھی ایک افسُردگی سی طاری رکھنےکا معمول جاری رہتا ہے۔

چنانچہ خود کی جان عذاب کرکے ہم حالات ، معاملات حتی کہ دوسروں کو بھی الزام دینے سے گریز نہیں کرتے۔

جی ہم ایسے ہی ہیں ۔۔۔۔مایوس !

زندگی سے تھکے ہوئے ، غمزدہ ، بے یقین ۔

کیوں نہ ہوں ؟

ہمیں اس تکلیف کے دلدل میں رہنا اچھا لگتا ہے۔

لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنا باعث تسکین معلوم ہوتا ہے۔

دوسروں سے مدد مانگنا، انُ پہ انحصار کرنا اپنا حق محسوس ہوتا ہے۔

مسکین ہمدردی کا متلاشی ہوتا ہے، جیسے کسی مہم میں سرگرداں اپنی پوری قوت منفی سوچ کو سیر کرنے میں لگاتا ہے جبکہ مثبت قوت سے کامیابی کے زینے بہت جلدی پھلانگے جا سکتے ہیں ۔اور جب ان سب سے بھی دل نہ بھرے تو فقط “ مایوس “ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ کبھی خود کو  بھی الزام دے کر دیکھیے۔

توکل کس بلا کا نام ہے۔۔۔سیکھیے ۔

اور اپنے اندر کے انسان کو سمجھاتے رہیے شاید وہ ہی ایک دن آپ کی بات مان جائے ۔

وہ منیر نیازی نے کیا خوب کہا ہے

؀ کُج انج وی راہواں اوکھیاں سَن

کج گَل وچ غم دا طوق وی سی

کُج شہر دے لوک وی ظالم سَن

Advertisements
julia rana solicitors london

کُج سانوں مرن دا شوق وی سی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply