بے خواب کواڑوں کو مقفل کرنے کی کیا ضرورت؟/یاسر جواد

اب ہمیں ضرورت ہی نہیں رہی کہ کوئی آئے، اور کوئی کیا لینے آئے گا؟ عفریت کا پہرہ ہر طرف سخت ترین ہو چکا ہے، بلکہ وہ جن پر پہرہ دیتا تھا، وہ بھی اُس کے ساتھ مل کر پہرہ دینے لگتے ہیں۔ ہم خربوزہ ہیں جس کے دانت اپنے پیٹ میں ہوتے ہیں۔ ہم کلہاڑی کا دستہ بن کر لوہے کے معاون اور تمام لکڑیوں اور ہرے درختوں کا شریکا ہیں۔

ہم وقت کی اوندھی کشتی تلے لیٹے بارش رکنے کی دعا مانگتے ہیں۔ بچے ہمیں بُرے لگنے لگے ہیں، کہ ہمارے بعد وہ رہ جائیں گے اس سب کو سہنے کے لیے۔ اُنھیں ادب اور آرٹ تو کیا دریا بھی نہیں ملیں گے، جزیرے بانٹے جا چکے ہوں گے، گیس کے تمام مالیکیول چولہوں میں توڑے جا چکے ہوں گے، اُنھیں تتلیاں نہیں کاکروچوں سے محبت ہو گی۔ تمنا کا کرب ختم ہو جائے گا۔

عفریت، اژدھے اور دیو بھینٹ لینے میں وقفہ دیا کرتے تھے، تاکہ نوجوان آزادی میں سانس لے کر توانا ہو جائیں اور بھینٹ تو اچھی ہو۔ ہمارے عفریت نے تو رحم پر بھی انگلیاں گاڑ رکھی ہیں۔ اُسے بھینٹ لینے کی بھی تمیز نہیں۔ باسی پھولوں اور نشوونما سے محروم کھوپڑیوں کے ہار ہی سجائے پھرتا ہے۔

عفریت کا کوئی معدہ نہیں۔ اُس کا کھانا فضلے جیسا ہے اور فضلہ کھانے جیسا۔ جن قلم والوں نے عفریت کی تصویر کھینچنا تھی، وہ تیسری جہت کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ ان کے لیے طول و عرض ہے، صعود نہیں۔ بیسویں صدی میں انسان ہارا تھا، مگر مٹا نہیں تھا۔ لایعنیت کے فلسفے شروع کرنے والے معاشرے نئے فلسفوں میں کھو گئے۔ ہم لایعنیت کا فلسفہ نہیں جانتے، ہم خود بن کر دکھا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن جہاں لایعنی پن اِس قدر بڑھ جائے، وہیں سے نئے چشمے بھی پھوٹتے ہیں۔ یہ شاعرانہ بکواس ہے، اور اِس کے سوا جینے کا کوئی اور سہارا موجود نہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply