کشن گنگاکی وادی(قسط10)- جاویدخان

گزشتہ قسط پڑھنے کیلئے لنک کھولیے

 

 

 

 

قسط10

پُرخطر موڑ:۔
پُر خطر رستہ ختم ہونے میں نہ آرہاتھا۔اس رستے میں ایک چٹان ہمیں دھکادینے کھڑی تھی۔فولادی سواریاں ڈرتے گُرکتے وہاں سے سنبھل سنبھل کر گُزریں۔غربت تھی یاخطرات سے کھیلنے کاشوق ہماری اگلی جیپ چڑھائی میں رُک گئی اَور پھر پیچھے سرکنے لگی۔یہ رکنااَور سرکناایک موڑ پر تھا۔جیپ کے پیچھے اَور موڑ کے نیچے گہری کھائی تھی۔کھائی کے اختتام پر کوئی گھاس دارمیدان نہ تھابلکہ نالاناڑ اَور اس کی ایک معاون ندی کے بڑے بڑے پتھر تھے۔جیپ بان کے معاون نے فوراً ہی تدبیر کی اَور کچھ بڑے پتھر سرکتی جیپ کے پچھلے پائیوں کے پیچھے بطور رکاوٹ رکھ دیے۔اس روک نے اَور جیپ بان کی پیروں تلے پیہ جام نے مل کر گاڑی کواُترائی میں کھڑاکردیا۔سترہ لوگ جن میں خواتین بھی تھیں ،عورتوں سے ساتھ بچے بھی اُترے ۔جیپ کو پھر سے حوصلہ اَور کاروں نے مل دھکادیاتو وہ پُرخطر موڑکی چڑھائی چڑھنے  میں کامیاب ہوئی۔کچھ دیر پہلے یہ لب بام گُرک رہی تھی۔بہت ہی بہادر جیپ تھی۔پہلی دفعہ پتہ چلاکہ پہاڑوں میں چلنے والی جیپیں کتنی بے خوف ہوتی ہیں۔

ترکناکی دُنیا:۔
یہ سڑک 2012  میں بنی تھی۔اَب بھی بار بار بنتی ہے بگڑتی ہے اَور پھرسے بنتی ہے۔یہاں کے بادو باراں اس کاحُلیہ بگاڑ کررکھ دیتے ہیں۔برفانی موسم الگ ستم گری پہ اُتر آتے ہیں۔ہم ایک دکان کے سامنے جارکے ۔چشمے کاپانی پائپ کے ذریعے آزاد بہہ رہاتھا۔
پچھمی مشروبات دیسی ہوکر یہاں بھی آن پہنچے تھے۔ایک بڑے برتن میں پانی بھراہواتھا۔جو قدرتی ٹھنڈک رکھتاتھا۔یہ اسی چشمے کاتھاجو اب آزاد پائپ کے ذریعے آزاد بہے جارہاتھا۔ٹب ایک آبی یخ دان تھا۔سیاح یہاں اُترتے ہیں اَور قدرتی ٹھنڈک میں نہاے بدیسی اَور دیسی مشروبات پیتے ہیں۔یہ دکان سعید خان صاحب کی تھی۔ہماری جیپ نے منھ کھولاتو بھاپ کامرغولا بے اختیار باہر کو لپکااَور ہر جیپ منہ  کھولے کھڑی تھی اَور ہر ایک کے منہ  سے ایساہی مرغولا باہر کولپک رہاتھا۔چشمے کاٹھنڈا پانی ان فولادی وجودوں کے گرم منھ میں اُنڈلاجانے لگا۔اتناسرد پانی ایک دم گرم وجود میں اُترنے سے کچھ طبی مسائل جنم لیتے ہیں۔اس عمل سے دل کی شریانیں منجمند ہوجاتی ہیں اَور عارضہ قلب ہوجاتاہے۔۔مگر یہاں ایسانہ ہوا۔جیپوں کوشاید دل کادَورہ نہیں پڑتا۔شدید برف میں رات کو جب یہ ٹھٹھرنے کے بعد اچانک اَور جبراً بیدار کی جائیں تو کچھ کمزور دل،دل ہار جاتی ہیں۔

ایک درخت اس حدودمیں اَب نظر آنے لگاتھا۔پستہ قد ،کچھ جھکاہواکھردرے اَور نیم سفید تنے کے ساتھ۔اس کاپتا تین کونوں والاتھا۔یہا ں مقامی زبان میں اسے ‘ترکنا’کہتے ہیں۔کھردرے جسم محنت کشی اَور جفاکشی کی علامت ہوتے ہیں۔یہ چٹانوں کی تہوں سے پھوٹ آے تھے۔ترکنا کے یہاں گھنے جنگل نہ تھے ۔وہ اقلیت میں بھی نہ تھے۔دیارکے بعد بیاڑ اَور اَب ترکنا تھے۔چھدرے ،کہیں کہیں دُشوار بلندیوں میں اٹک کر ،پھنس کر اَور چٹانوں کے چھجوں سے لٹک کر باہر آئے تھے۔یہ سخت حالات میں جنم لینے اَور پھر جینے کاایک خوب صورت نباتاتی انداز تھا۔مشقت بھرے جیون کاردعمل اَور شکوہ صرف انسان کے پاس ہے ۔جماداتی اَور نباتاتی زندگی شکووں میں نہیں عاجزی کاپیرہن اَوڑھے چلی آرہی ہے۔اِن کااَنداز ،بساو اَور رہن سہن دُشوار دنیامیں بھی مسکراہٹیں بکھیر رہاتھا۔پتے ہل رہے تھے شاخیں جھوم رہی تھیں ۔ہوائیں انھیں جھولاجھلارہی تھی۔یہ کبھی چٹانوں کے چھجوں کو جھک کر بوسہ دیتیں تو کبھی ایک دُوسرے سے بغل گیر ہوجاتیں۔جیسے سکھی سکھیاں ایک دُوسرے سے اٹھکیلیاں کررہی ہوں۔اُوپر کی طرف چڑھتے ہوے وہ یہاں ہماری داہنی طرف کھڑی چٹانوں سے اُگ آئے تھے۔

چٹانوں کے پتھر لاوہ زدہ تھے۔جیسے کبھی وہ بہت جلے ہوں،پھر جل کر بنے ہوں ،پلے ہوں ۔سُرخ انگارہ ہوکر پھر ٹھنڈے یخ ہوگئے ہوں اَور پھر ایک دن ان کی تہہ سے ترکنا نکل آے ہوں۔یہ کہاں سے آے ۔؟یہاں کیسے پہنچے ۔؟اَور کیوں کر پہنچے ۔؟ترکنا برادری حیرت سے اپنے قدموں میں دُور نیچے ہمیں دیکھ رہی تھی۔کہ یہ مداخلت کار کہاں کہاں سے نکل نکل کر آرہے ہیں۔دُشوار زمینوں پر ترکناکانباتاتی خاندان الگ تھلگ تھا۔ان کی دُنیا باقی نباتاتی دُنیا سے الگ تھی۔

ہماری پُشت پر ‘ڈنہ’سامنے ‘کھبے ناڑ ’تھا۔ڈنہ کشمیر میں بلند اَور ٹھنڈے علاقے کو کہتے ہیں۔اَیسی ڈھوکیں جو گرما میں مال مویشیوں کے لیے رسیلا گھاس وافر مہیاکرتی ہیں۔برفیں پگھلنے پر یہاں زندگی اَور بہار لوٹ آتی ہے۔ٹھنڈی چادر اوڑھے سوئی ہوئی زمین بیدار ہوتی ہے ،کروٹ لیتی ہے تو خوشبووں کی لِپٹیں چار سودوڑ نے لگتی ہیں۔
دُنیامیں جتنے بھی حسین مناظر ہیں اُن میں سے کچھ یہاں چھپے ہوئے ہیں ۔اس رستے پر سنسان و ویران وادیوں کاحُسن ،باقی دُنیا سے پوشیدہ تھا۔اسے اَگر کسی نے دیکھاتھاتو وہ فطرت کے پالناروں نے،بکروالوں نے ،پہاڑیوں نے اَور رشیوں ،مُنیوں ،صوفیوں نے ،سادھووں اَور سنتوں نے۔

ابھی پورے ۹ کلومیٹر کاسفر باقی تھا۔مجھے درمیان سے اُٹھاکر اگلی نشست پر بھیج دیاگیا۔عاشق صاحب میری باہنی طرف بیٹھے تھے۔گاڑی پھرسے چلنے لگی اَور زور لگانے لگی۔بہتے پانیوں کی آوازیں ،چھوٹی چھوٹی آب شاریں ،دُودھ رنگ جھرنے ،بلندیاں ،اُن پرآسمان اَور نخلستانوں میں مویشیوں کے ریوڑ۔اِن مناظر میں انجن کی گروں ۔۔۔گَر ۔۔۔ہوں ۔۔۔۔۔گروں ۔۔۔گَر ۔۔۔گروں ۔۔گَر۔یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب دُنیا کے سارے مصنوعی حسن اَور آسائشوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔گاڑی پھر کسی موڑ پر تھی اَور ہمارے بائیں طرف نیچے گایوں (گائیں)کاریوڑ چر رہاتھا۔

تتلی وادی :۔
سیدھی چڑھائی تھی۔گاڑیاں رواں تھیں۔بائیں نشیب تھا۔جہاں اِک نالہ مترنم جھرنے کی شکل میں بہے جارہاتھا۔سامنے چوٹیوں پر بادل ڈھلکنے لگتے تھے۔نیاگاناشروع ہوابول تھے۔ ؂
سُناہے پھول کلیوں سے
تجھے رب نے بنایاہے۔
اَور اسی لمحے ایک نیامنظر سامنے تھا۔جیسے فطرت نے اَپنی بیاض کاورق اُلٹ کر آگے رکھ دیاہو۔ندی میں ساز تھااَور وہ اُوپر سے حد نگاہ نشیب تک بِناکسی ٹیڑھ کے رواں تھی۔ندی کے دونوں طرف ڈھلوانی دیواریں تھیں۔اِن دیواروں پر خوش رنگ پھول پودوں کی چادریں بچھی تھیں۔یہ اَیسے ہی تھاجیسے کوئی بہت بڑی تتلی آن بیٹھی ہواَور اپنے پنکھ اَیسے ہی پھیلاے خاموش سوگئی ہے۔اِسے جگانے والے ،شوراٹھانے والے بھلے دُنیابھرکاخرابہ اٹھاے پھریں۔مگر جیسے اس نے یہاں خاموش سوجانے کافیصلہ کرلیاہو۔ڈھلوانیں کِسی تتلی کے پنکھوں کی طرح ندی کے دوطرفہ پھیلی ہوئیں تھیں۔جب کہ دُودھیاندی خوش رنگ پروں کے علاوہ اس کے وجود کاباقی حصہ تھا۔
قدرت نے ان پر،پنکھوں کو سرخ پھولوں اَور بیل بوٹوں سے آرائستہ کردیاتھا۔مزید اس پرگائیوں ، گھوڑوں اَور بکریوں کے ریوڑ کھرے کردیے تھے۔وہ ان بڑے بڑے سوئے ہوئے پنکھوں پر چہل قدمی کرتے،گھاس چرتے اَور پھولوں کی پتیاں چُنتے بھلے لگ رہے تھے۔

ہم اس تتلی کے دائیں پنکھ پر محو سفر تھے۔ اَور وہ تھی کہ ہماری گڑگڑاہٹ ،شور اَور آوازوں سے نیاز خاموش بیٹھی تھی۔تتلیوں کوخاموش بیٹھاکس نے دیکھاہوگا۔؟ورنہ روزگڑگڑاہٹ پھیلانے والے قافلے ۔یہاں رُک کر،ٹھہر کراَور خاموش رہ کر ،اس وادی کے حُسن کو محوہو کردیکھتے۔پوری وادی نشیب وفراز میں بیٹھی تتلی کی ماند لگتی تھی۔
گاڑی نے بلندی پر ایک اَورموڑ لیااَورپھر سیدھی چڑھائی چڑھنے لگی تو ایک اَور منظر فطرت کی بیاض نے کھول دیا۔قدرت ایک اَور رنگ میں جلوہ گرہوئی۔وادی جیسے کسی دُلھن نے اپنی مہندی لگی ہتھیلوں کو جوڑ کر پھیلادیاہو۔مہندی لگے کنوارے ہاتھ خوش نمابیل پودوں سے مزین تھے۔منظر بدستور تھااَور نغمہ بھی۔اس اک بول پر کان متوجہ ہوجاتے تھے۔
؂
سُناہے پھول کلیوں سے
تجھے رب نے بنایاہے۔
ڈھلوانی پنکھوں کے آگے پہاڑ نمابلندیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
برقی و مقناطیسی فیتے پر مصنوعی سُروں نے نئی تان چھیڑی ۔
تُم ساکوئی پیارا ،کوئی معصوم نہیں ہے۔
منظر بدلتے اَور سحر اَنگیزکرتے سامنے آتے جارہے تھے۔یہاں جیپ اس جگہ جیپ اُچھلتی ہے ،ہچکولے کھاتی ہے جتناجتناوہ آگے چلتی ہے سوار اس سے زیادہ اُچھلتے ہیں،بجتے ہیں اَور ایک دُوسرے پر گِرتے ہیں اَور سہارتے ہیں۔
پہاڑوں کے دامن میں بسی زندگی ایک دُوسرے پر گرنے،برسنے ،گرجنے اَور پھرسنبھلنے ،سنبھالنے اَور سہارنے میں ہی بسر ہوتی ہے۔مکمل پہاڑی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔جذبات آب شار ہوتے ہیں ،ندیاں ہوتے ہیں ،تازہ ہوتے ہیں اَور پہاڑوں کی طرح سخت کوش اَور قدامت لیے ہمیشہ کھڑے ہوتے ہیں۔
نئے نغمے نے تان بدلی۔
؂
جب تک نہ پڑے عاشق کی نظر
سنگھار اَدھورا رہتاہے۔
گاڑی بان شاید پہاڑوں میں بستے بستے اَور چلتے پھرتے فطرت شناس ہوگیاتھا۔حُسن کی اِنتہا سادگی ہے اَور سچائی ہے۔یہی اَزلی خوب صورتی ہے۔یہی اس کاسنگھار ہے۔
بکروالوں کے ڈھارے اَب نظر آنے لگے تھے۔ڈھلوانوں ،ندیوں اَور آب شاروں کے کنارے نخلستانوں پر مٹی کے ڈھاروں میں زندگی سادہ اَور سچارُوپ لیے بیٹھی تھی۔مکئی کی روٹی ،جنگلی ساگ،دہی اَور لسی دن کاکھانا ہے۔کبھی کبھار شام کواُبلے ہوئے چاولوں پر بکریوں کاکچاگرم دُودھ ڈال کر کھالیاجاتاہے۔صبح چاے کے ساتھ دیسی گھی میں چپڑی چپاتیاں نوش کی جاتی ہیں۔اَور کسی گرم دوپہر کو مٹی کے ڈولے میں دہی ہوتاہے جو اُبلے ہوئے چاولوں پر ڈال کر کھانے میں لذت دوبالاکردیتاہے۔
اَیسے کچے گھر،نخلستان ،گھاس ،پھول اَورچرتے مویشی جگہ جگہ پھُوٹتے چشمے کبھی ہمارے جیون کاحصہ تھے۔اَیسے صبح وشام ،اِیساہی معصوم بچپن سادہ اَور سُتھراماحول ،سادہ کھانے ،سادہ زندگی ،یک رنگی اَور سانجھے دُکھ سُکھ ۔سچاجیون وہی ہے جو ان سادہ اَور ستھرے رنگوں سے مل کر بناہے۔

دوندیوں کامِلن :۔
ہم سفروں کی بغل میں اَور ایک خوب صورت وادی کی آغوش میں ،اک پہاڑی چراگاہ میں ،ہماری جیپ آہستہ آہستہ بلندی کی طرف رینگ رہی تھی۔حسین مناظر کانہ رُکنے والاسِلسلہ جاری تھا اِک نخلستان فطرت کی گود میں پڑاتھا۔وسیع سبزہ زار کے اِردگرد پربتوں کاڈیرہ تھااَور دوندیاں یہاں ہم آغوش ہورہی تھیں،مل رہی تھیں اَور دو سے ایک ہورہی تھیں۔ یک جان و یک قلب کے اس آبی عمل نے اس جگہ کو ‘دومیل ’کانام دے دیاتھا۔

گڈریوں کے ڈھارے ندی کے کنارے بنے تھے۔جابہ جاپھول صورتیں نکالے مُسکرا رہتے تھے۔گھوڑے دُمیں اپنی کمر پر مار رہے تھے اَور گردن باربار جھٹک رہے تھے۔اس چوپاے کی یہ اَدا کی پہاڑی چراگاہ میں دل موہ لیتی ہے۔یہ یہاں گھاس چر رہے تھے ۔بھیڑیں اَور بکریاں چراگاہ کی مُشکل بگڈنڈیوں پر کھڑی چر رہی تھیں۔
دوندیوں کے درمیان اَور کنارے اِس نخلستان پر میرے اَندر کالڑکاجاگا۔وہ اپنے لڑکپن میں واپس جاناچاہتاتھا۔نخلستان کی کنواری گھاس پر لوٹیں لگاناچاہتاتھا۔سفید ،نیلے ،پیلے اَور سُرخ پھولوں کے خوش رنگ رخساروں پراَپنے گال رکھناچاہتاتھا۔ان کی میٹھی ،ستھری اَور سہونی باس لیناچاہتاتھا۔یہ بچپن ،یہ لڑکپن وہ جگہ تھی جہاں کسی دُکھ درد کاگُزر نہ تھا۔شفقت تھی ،اُمید تھی ،وسیع کل (وقت)آگے خرچ کرنے کوپڑاتھا۔ہرطرح سے بے فکری تھی۔ماں باپ تھے اَور فطرت کی شوخیاں تھیں ان کے ساتھ ہماری اَٹھکیلیاں تھیں۔

لڑکپن خوب صورت یاد ہے۔اَیسانخلستان ہے جہاں وسیع نیلگوں آسمان سروں پر سائبان ہے۔رات کو تارے چمکتے ہیں ۔یہ آسمان دوبڑے ستونوں پر کھڑاہے۔ایک کانام ‘ماں ’ ہے اَور دوسرے کانام ‘باپ’ ہے۔یہ آسمان ان دونوں نے مل کر تھام رکھاہے۔آپ یہاں پھیلے وسیع صحن کی گود میں زندگی کابہترین وقت گزار چکے ہوتے ہیں۔وقت کاوہ پیاراپڑاؤ جہاں کھردرے لہجے بھی آج میٹھاس گھول گھول کر ساری کڑواہٹ کو شیرنی بنادیتے ہیں۔

ندی میں گلیشر پڑاتھا۔سفیداَور جامد ۔۔۔ایک بے حسی سی اس کے مزاج سے ٹپک رہی تھی۔یہ کب یہاں اُترا۔؟اس کاباقی خاندان کیاہوا۔؟اس کے باقی ساتھی آج کہاں ہیں۔؟وہ کون ساوقت تھاجب اِن ندیوں کوبغیر پُل عبورکے کرناخطرے سے خالی نہ تھا۔ان کادُودھیارنگ پانی یہاں تیز رفتار تھا۔اَیساتیزکہ قدم اس میں ٹھہرنہ پاتے ۔جو اس میں اُترتا،اس کے کاٹ دار بہاو کی زدمیں آجاتا۔دواریاں ندی میں آکر ملنے والی ندی میں گلیشر سوے پڑے تھے۔ مگروہ ندیاں اَور گلیشرجو ان ندیوں کی اُجلی یخ طغیانی بپاکیے ہوتی تھیں۔کدھر چلی گئیں ۔؟وہ گُم نام کیوں ہو گئیں ۔؟اَور یہ جوگلیشر یہاں لیٹے ہوے ہیں ۔کسی دن یہ بھی گُم نام ہوگئے تو۔۔۔؟پھر اِن دوملنوں کاکیاہوگا۔؟مِلن کوئی بھی ہوادھوراہ ،یک رُخااَور خشک نہیں ہوناچاہیے۔

نخلستانی وادی اَب ڈھلوانی وادی میں تبدیل ہورہی تھی۔یہاں چرواہوں کے ڈھارے بنے ہوے تھے۔یہ مانسہرہ بہک تھی۔بہک ڈھوک کوکہتے ہیں۔جہاں عارضی بساو ہوتاہے اَو ر لوگ اَپنے مویشی چراتے ہیں۔قدرتی چشمے جگہ جگہ سے پھوٹ رہے تھے اَور بہہ رہے تھے۔چھوٹی چھوٹی ندیاں بنارہے تھے اَور ندیاں گنگنارہی تھیں ۔نیلے نیلے آسمان تلے اس چراگا پر ،نیلے نیلے پھولوں کی بہار تھی۔اپنے ڈنٹھل اٹھاے وہ زمین سے چند اِینچ اُوپر لہلہارہے تھے۔دُودھیاندیاں اِن کے بیچوں بیچ بل کھاتی ،گنگناتی بہہ رہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے بائیں طرف والی ڈھلوان پر سات گوٹیل (کوہانوں )والے بیل قطار میں اِک پگڈنڈی پکڑ کر چل رہے تھے۔جب کہ گائیوں کاریوڑ سو قدم پیچھے پیچھے چل رہاتھا۔نخلستانوں اَورڈھلانوں میں سرکتی پگڈنڈی نماسڑک پر رینگتے ،چڑھتے ہم اَپنے پڑاو میں پہنچے۔
جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply