اسرائیل کا پاکستان کو انسانی حقوق پر سبق/سلمیٰ اعوان

لو اب کہنا تو یہی پڑے گا نا کہ چھاج تو بولے سو بولے پر بیبا اب تو چھلنی بھی بولنے لگی ہے جس میں ستر سو چھیدہیں۔
اللہ کی شان اسرائیل نے بھی پاکستان پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگادیا ہے یعنی نو سو چوہے کھا کر اب بلی خیر سے حج کو چلی ہے۔
یوں تو خیر سے یہ جتنے بھی بڑے بڑے پڑھے لکھے ،ترقی یافتہ مہذب اور کلچرڈ ملک ہیں، جنہیں انسانیت کی بہت فکر رہتی ہے اور جو چھوٹے اور غیر مہذب ملکوں کے چھوٹے موٹے جھگڑوں پر بڑے زعم سے اُنہیں تنبیہی بیان جاری کرتے رہتے ہیں۔ڈوب کر نہیں مرتے کہ انہوں نے غریب لاچار ملکوں اور خود اپنے مقامی لوگوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں ان کا سارا حساب کتاب تو تاریخ میں درج ہے۔پر یہ اسرائیل تو اِس کام میں سب کا باپ ہے ۔کوئی اسے آئینہ تو دکھائے بلکہ صدیوں پرانی تاریخ گواہ ہے کہ قیصروں،رومیوں اور اسپین کے بادشاہوں کے ساتھ لڑائیاں جن میں ہیکل کا جلنا،لاشوں کے ڈھیرجب کہ ڈیڑھ لاکھ افراد کا تہ تیغ کیا جانا ریکارڈ پر ہے۔ نعرہ کیا لگتا تھا۔‘‘بڑا گھمنڈ اور تکبر ہے انہیں اپنی اعلیٰ نسلی کا۔بڑا گھٹیا سمجھتے ہیں یہ دوسری قوموں کے لوگوں کو ۔ایک بند ہ بھی نہ بچنے پائے۔’’ حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ کوئی بچا بھی نہ تھا کہ جو یہ بتاتا کہ ہیکل مغربی پہاڑ پر تھا یا مشرقی پر۔ صدیوں کی تاریخ ایسے ہی واقعات کی گواہ ہے ۔یورپ کی حکومتوں نے انہیں ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ماضی قریب کو دیکھ لیں۔
کس کس قوم نے ان کی نسل کشی نہیں کی۔کہیں فرانسیسیوں نے،کہیں روسیوں نے اوران انگریزوں نے جنہوں نے انہیں زمینیں خریدنے اور کاشت کاری سے روکا۔ہنری دوم اور سوم نے ان سے لاکھوں پونڈ بھی لیے اور ان کے ماتھے پر شناخت کا ٹیکا لگوا کر ان کا عام لوگوں کے ہاتھوں پٹڑا بھی کروایا۔یہی فرانس کے شاہ فلپ نے کیا۔انہیں جیلوں میں ٹھونسا ۔ان سے پیسہ بھی لیا اور انہیں دیس بدر بھی کیا۔ پرتگالیوں کے بھی رویے ایسے ہی تھے۔ان کے عیسائی پادری تو حلفاً ان سے یہ اقرار کرواتے۔
‘‘میں نجس یہودی ہوں۔میرے آباء نے سچے مسیح کو صلیب پر چڑھایا۔’’
پولش قوم نے ٹکا کے رگڑا دیا۔ پیسہ بھی ان سے لینا،ادائیگی بھی نہیں کرنی اور نزلہ بھی سارا ان پر۔اور اوپر سے نعرے بھی توہین آمیز۔یہ یہودی ہمارا خون چوس رہے ہیں۔دیکھو تو کیسے عالیشان گھروں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔جلاؤ ان کے گھر۔تباہ کرو ان کی کالونیاں اور جرمنوں نے سبھوں کو مات دے دی۔ہولوکاسٹ کا تمغہ ماتھے پر سجا دیا۔
صدیوں سے دربدر ٹھوکریں کھاتی اس قوم کو جب یہودی سائنس دان ڈاکٹر ہیم ویز مین نے اپنے کیمیائی رازوں سے برطانیہ سے سودے بازی کے نتیجے میں فلسطین میں صہیونی ریاست بنانے کا پروانہ عنایت کیا تو انہیں اپنا ہولو کاسٹ یاد رکھنا چاہیے تھا۔اپنی تاریخ کو، خود پر بیتے ظلم کو بھولنا نہیں چاہیے تھا۔ مگر ہوا کیا۔انہوں نے اسی تاریخ کو دہراناشروع کردیاجس کا وہ خود شکارہوئے تھے۔
غریب فلسطینیوں کی اُن کے گھروں سے بیدخلی،آرگنUrgun،ہگاناHagunaاوراسٹرن Estern جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں سے جس تیزی کے ساتھ ہوئی وہ بڑی المیہ کہانی ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ جب اور جہاں چاہتے بم بلاسٹ سے گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ کردیتے۔کوئی پوچھنے والا کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا۔ دیر یاسین جیسے پر امن شہرت رکھنے والے قصبے کو جس طرح گوریلا دستوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔وہ تاریخ کا ہولناک باب ہے۔آرگن کے گوریلا دستے جن کی کمانڈ سٹرن کے مرنے کے بعد اب میناحم بیگن کررہا تھا۔اس نے ڈائنامیٹ سے گھر اڑا دئیے۔معصوم بچوں اور بوڑھوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ قصبے کا کوئی فرد زندہ نہیں بچا۔
اس اتنے بڑے المناک سانحے پر میناحم بیگن کا بیان ابھی بھی تاریخ میں درج ہے جو انسانیت کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہے۔
دیریاسین فلسطین کا ہولوکاسٹ ہے۔پڑا ہو۔میرے لیے سب سے بڑا اعزاز بس یہی ہے کہ میں تاریخ میں اِس اہم کارنامے کی وجہ سے زندہ رہ جاؤں کہ اسرائیلی سرزمین کی حدوں کو ابد تک قائم کرنے والا انسان مینا حم بیگن تھا۔
اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں،سوا صدی گزر جانے کے بعدبھی اسی شدومد سے جاری ہے اور یہ کیسا المیہ ہے کہ
یہ ریاست پاکستان کو انسانی حقوق کا سبق دے رہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply