سفر نامہ:تکیہ سلیمانیہ۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط36

تکیہ، سلیمانیہ بھی دمشق کی خاص الخاص چیزوں میں سے ایک ہے۔ ایک تو عثمانی خلیفہ کی بنوائی ہوئی۔ رنگ ڈھنگ کا تڑکا بھی اُن کے انداز کا لگا ہوا۔نہر برادہBarada کے کنارے نے خوبصورتی اور محل وقوع کو اور چار چاند لگا دئیے ہیں۔ تو ظاہر ہے سونے پر سہاگہ یقیناً اِسی کانام ہے۔ گو پرانے پن کا گہنانا بھی ساتھ چپکا ہوا ہے۔ مگر اس نے بھی حُسن بڑھا دیا ہے کہ Old is Gold ایسے تو نہیں کہا گیا۔
دور سے ہی منظر نظروں کو نتھ ڈالتا ہے۔ چار دیواری سے جڑے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اردگرد کے ماحول نے کہیں استنبول کی یاد دلا دی تھی۔اپنی وضع کے گول گول ساتھ ساتھ جڑے گنبدوں کی قطاریں جیسے بیسوؤں ایک دوسرے سے ساتھ ساتھ جڑی بیٹھی لقی کبوتریوں کا سا تاثر ابھارتے تھے۔ درختوں سے گھرا، ہریالیوں میں بسابڑا ہی خوبصورت نظر آیا تھا۔
تعمیریہی کوئی لگ بھگ1554ء کی ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ اسی جگہ کوئی دو صدیاں قبل مصری سلطان کامحل”ابلق” تھا۔ تیمو ر نے بھی دمشق پر حملے کے دوران یہیں قیام کیا تھا۔ سلیمان ذی شان نے بھی یہیں تکیہ سلیمانیہ کی بنیاد رکھی۔
تعمیر کے وقت تو بہت سے حصو ں میں بٹا ہوا تھا۔ مہما ن خانے تھے۔ بازار، سراہیں، سلطان کے لئے ہال کمرہ، مسجد اور مدرسہ بھی تھا۔ آغاز میں تو سال ہا سال تک حاجیوں کے لئے سرائے کا کام بھی اسی نے دیا تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ چیزیں بدلتی گئیں۔
تو میں اس کے تالا ب کنارے کھڑی عظمتوں کی داستان پڑھتی تھی۔اس کے خوبصورت اونچے اونچے محرابی کٹوں والے برآمدوں کو دیکھتی تھی۔وہ بھی کیا و قت تھا کہ عثمانیوں کا ڈنکا بجتا تھا۔ رہے نام تیرا مولا۔
اونچے اونچے درختوں میں ہوا سرسراتی اور انہیں خوابیدگی سے باہر نکلنے کو کہتی تھی۔ اس کے کچھ کہنے پر اس کے پتے کبھی سست روی اور کبھی ہوشیاری سے حرکت کرتے تو بہت سے خوبصورت منظر جھلملانے لگتے۔
بلند وبالا چھتوں اور محرابی دروازوں والے دالانوں میں بازار سجے پڑے تھے۔ کبھی یہاں علم وادب کے چراغ جلتے تھے کہ یہ مدرسہ تھا۔ اب ملٹری میوزیم اور بازار بنا پڑا ہے۔
ملٹری میوزیم تو میں نے نہیں دیکھا کہ بھلا اُسے کیا دیکھنا تھا؟ ہاں البتہ بازاروں میں ضرور گھسی۔ کیا رنگ وحُسن کی دنیا بکھری ہوئی تھی یہاں۔کہیں دکانوں کے چہرے مہروں کی رنگا رنگ انفرادیت کو دیکھتی تھی۔ کہیں ان پر چوبی کندہ کاری کی جولانیاں حیرت زدہ کرتی تھی۔کہیں دکانوں کے اندر نادر شاہکار آنکھیں پھاڑتے تھے۔ کہیں اُن ہنر مند ہاتھوں کے یہ خزانے مائل کرتے اور سرگوشیانہ انداز میں کہتے تھے۔
”سنو تو یہ بڑی نادر چیزیں ہیں۔ لے جاؤ جو لے جا سکتی ہو۔“
کھڈیوں پر چیزیں بنتی تھیں اور چاروں طرف ان کے نمائشی شہ پارے تھے۔چینی مٹی کے برتنوں اور ان پر نقاشی کا کام، تانبے، پیتل کے شاہکاروں پر رنگ آمیزی،اتنی خوبصورت دستی کڑھائی کی چیزیں جس چیز کو دیکھوں ایک “ہائے” اندر سے نکلے۔ سینریاں، خطاطی کے نمونے،پہلی بار جی چاہا تھا سمیٹ لوں سب کچھ۔ کیفے ٹیریا سے قہوہ پیتے اور بسکٹ کھاتے ہوئے میں نے بہت وقت گزارااور اس بہت وقت کے ہر ہر لمحے سے لطف اٹھایا۔
میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں کیسے اُن تاثرات کا اظہار کروں جو مجھے یہاں آرٹ اینڈ کرافٹ کی ایک دکان میں داخل ہو کر محسوس ہوئے۔میرے عین سامنے ایک ایسی پنٹینگ تھی جس نے میرے قدموں کو روک دیا تھا۔میری آنکھوں کو ساکت کردیا تھا۔یہ کیسا شاہکار تھا؟وسطی عہد کا نمائندہ۔چھت کے گنبد سے لے کر نشست گاہ کی ہر چیز چوب اور چوبی کندہ کاری سے سجی سنوری آنکھوں کو ہر ہر شاہکار پر روکتی بغور دیکھنے اور سراہنے پر اصرار کرتی تھی۔سچ تو ہے کہ اس کی رنگ آمیزی، اس کے کرداراور قدیم تہذیب کے عکاس روشن اور تاریک حصّے کِس حسن و خوبصورتی سے میرے اوپر عیاں ہوئے۔
دائیں ہاتھ ایک قلعہ بند شہر میں علی الصبح کو شہر کا مرکزی دروازہ کھلنے پر مسافروں کی آمد کے مناظر ہیں۔کچھ منظر مقامی لوگوں کے تھے۔کیا بات تھی فنکار کی۔
چند اور بھی ایسے ہی خوبصورت لاجواب شاہکار تھے۔جی چاہتا تھا بس انہیں خریدلوں اور لے جاؤں۔ہائے میرا دل بھی آیا تو کمبخت کن پر۔کوئی ڈیڑھ گھنٹہ آنکھوں کی پیاس بجھاتی رہی۔دل کو ٹھنڈا کرتی رہی۔
ال میدان کا علاقہ دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی یہاں اسلام کے پانچویں رکن کی تکمیل کے لئیے تاحدّ نظر پھیلے خیموں میں اِس مقدس فرض کی تکمیل کیلئے آئے زائرین کے اژدہام بکھرے ہوتے تھے۔حج کے لئیے قافلے یہاں اُترتے۔اُن کے قیام و طعام،تربیت کے لئے اہتمام اور مقام مقدس کے لئے رخصتی کے سب مرحلوں کا اہتمام، گورنر کی زیر ہدایت اور زیرنگرانی ہوتا تھا۔تصور کی آنکھ کے سامنے ماضی کے خوش کن منظروں کے بہت سے روپ تھے۔مگر حال میں حقیقت کی آنکھ بلندوبالا عمارات کے سلسلے، خوبصورت شاہراہوں پر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں،پٹریوں پر چلتے پھرتے لوگوں کے پرے، اردگرد پھیلی مسجدیں،مدرسے،سکول اور شاپنگ پلازے دیکھتی تھی۔
حجاز ریلوے اسٹیشن بھی دیکھنے کی چیز تھی اور تھا بھی قریب ہی۔ کس قدر عظیم الشان عمارت تھی۔ کیا باہر اور کیا اندر۔ ہال کمرے کی گیلریاں،اُن کی ریلنگ چھت سے جڑتی رنگین شیشوں والی کھڑکیاں، تعمیری خدوخال، نقش ونگاری سب متاثر کن تھے۔ اِس ریلوے اسٹیشن کو بنانے کا بڑا مقصد استنبول عثمانی سلطنت کے دارالخلافہ اور حجاز کے درمیان حاجیوں کی آمدورفت مقصودتھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply