کردار سازی کیلئے کردار چاہیے۔۔مہر ساجد شاد

انسان ایک اکائی ہے اور انسانوں کا مل کر رہنا معاشرہ کہلاتا ہے۔ انسان کے انفرادی روئیے اور عادات ہی اجتماعی معاشرتی خدوخال ترتیب دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے روئیے اور عادات بداخلاقی اور بدتہذیبی کا نشان بنتے جا رہے ہیں، ہم معاشرتی خرابیوں کے باعث جس مقام پر پہنچ گئےہیں وہاں منافقت اور حسد ہرسو عام ہے حد تو یہ ہے کہ ایسے معاشروں میں لوگ خلوص دل سے دعا بھی نہیں دیتے کہ کہیں سچ میں قبول ہی نہ ہوجائے،یہ حسد اور منافقت کا شرمناک درجہ ہے۔

بگاڑ کے شکار معاشروں کو بہتری کیلئے اخلاقی قدروں کی درستی کرنا لازم ہوا کرتی ہے۔ کردار سازی کیلئے کردار کا ہونا ضروری ہے۔ ہم اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے اچھے کردار کے بغیر ممکن نہیں ، اخلاقی قدروں کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن کم از کم تین کام کئے بغیر ہمارے بچوں کی اچھی اخلاقی تربیت ممکن نہیں۔

اوّل : ہماری زندگیوں سے جھوٹ کا خاتمہ ضروری ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کیا کوئی مسلمان بزدل ہو سکتا ہے آپ نے فرمایا ہاں مسلمان بزدل ہو سکتا ہے،پھر سوال ہوا کیا کوئی مسلمان کنجوس ہو سکتا ہے ارشاد فرمایا ہاں کوئی مسلمان کنجوس ہو سکتا ہے، پھر سوال پوچھا گیا کیا کوئی مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ! کوئی مسلمان جھوٹا نہیں ہو سکتا۔

آج ہمارے کاروبار میں جھوٹ ہے،لین دین میں جھوٹ ہے، ہمارے وعدوں میں گفتگو میں جھوٹ ہے، جھوٹ ہماری عادت بن کر ہماری زندگیوں میں شامل ہے، ہمارے جھوٹے کردار کو دیکھ کر ہمارے بچے سچ بولنے کی تربیت کیسے پا سکتے ہیں ؟ وہ کیسے جھوٹ سے بچ سکتے ہیں ؟

دوم : شکریہ ایک رویہ بن کر ہماری عادت میں ڈھلنا چاہیے،
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ۔اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دونگا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خالق کا بھی شکرگذار نہیں ہو سکتا۔ معلوم ہوا کہ شکر ادا کرنا اہم اخلاقی قدر ہے جسکی تاکید خالق اور اسکا محبوب دونوں کر رہے ہیں۔ شکر ادا کرنے پر خالق نعمت کو بڑھانے کا وعدہ فرما رہاہے، جب نعمت کی اقسام لاتعداد ہیں تو شکر بھی بے حساب ہونا چاہیے۔
آسانیوں پر مخلوق کا شکر گذار ہونا چاہیے مخلوق سے بھی آسانیاں زیادہ ملنے لگتی ہیں محبت زیادہ ملنے لگتی ہے۔ اپنے ملازمین ماتحت افراد اپنے سے جڑے افراد کا شکریہ ادا کرنا شروع کر دیں تو ہماری زندگی کے سکون میں اضافہ ہوگا۔
ہماری زندگیوں میں شکریہ آئے گا تو برکت آئے گئ خوشحالی آئے گی سکون آئے گا، پھر یہی شکریہ ہمارے بچوں کی عادت بنے گا انکے زریعے یہ معاشرتی تحریک بنے گا۔

سوم : اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اس پر معافی مانگنا ہمارا رویہ بننا چاہیے۔
آج ساری لڑائیاں سارے جھگڑے سب دوریاں اسی انا کے خول میں بند ہونے کے سبب ہیں۔ ہم غلطی کرتے ہیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں ہم معافی مانگنا توہین سمجھتے ہیں دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ رویہ ہمیں خالق کے سامنے بھی مکمل خلوص کیساتھ جھکنے سے روک دیتا ہے ہمیں اخلاص سے خالی ریاکارانہ کردار بنا دیتا ہے، ہماری توبہ بھی منافقانہ ہوتی ہے جھوٹی ہوتی ہے اسی لئے مقبول نہیں ہوتی۔
جب ہم معافی مانگنے کا رویہ اپناتے ہیں معذرت کرنے کی عادت ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہے، پھر ہمیں دیکھ کر یہی عادت ہمارے بچوں میں پیدا ہو جاتی ہے انکی زندگیوں سے اضطراب نکل جاتا ہے سکون اور محبت آجاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خواتین و حضرات !
اگر ہم اس دنیا کو اچھے انسان دے کر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کیلئے اپنی زندگیوں سے جھوٹ ختم کرکے،شکریہ کی عادت اپنا کر اور معذرت کرنے کا رویہ اختیار کر کے ان کے سامنے خود بہتر انسان بن کر دیکھانا ہو گا، یقین رکھیے وہ ہم سے زیادہ اچھے بہترین انسان بنیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply