بے حسی کا راج/عاصمہ حسن

ایک وقت تھا جب رشتے پیار و محبت میں بندھے ہوتے تھے ـ بڑوں کا لحاظ و شرم ہوتا تھا ـ بزرگوں کے آگے بولا نہیں جاتا تھا ـ والدین کی ڈانٹ ڈپٹ بھی بھلی محسوس ہوتی تھی ـ ان کے سامنے غلطی ہو یا نہ ہو گردن جھکی ہوتی تھی ـ بہن بھائی وقتی لڑتے تھے پھر دوسرے ہی لمحے قہقہے گھر میں گونج رہے ہوتے تھے ـ۔

وقت نے کروٹ لی تو لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کے رویے اور رسم و رواج بھی بدل گئے ـ پہلے فاصلے زیادہ تھے لیکن دل جڑے ہوئے تھے مگر اب دلوں میں فاصلے آ گئے ہیں یا دورِ حاضر میں خلوص کی جگہ مطلب پرستی نے لے لی ہے ـ کس رشتہ دار’ دوست یا ہمسائے سے ملنا ہے اور کس سے نہیں یہ اب ان کی حیثیت اور رتبہ دیکھ کر متعین کیا جاتا ہے ـ اگر کسی سے حال یا مستقبل میں کسی بھی قسم کا کام نکل سکتا ہے تو اس سے مراسم بڑھائے جاتے ہیں بہ صورت دیگر اس کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے ـ اب ایک ہی چھت تلے لوگ اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں ـ پہلے برکت ہوا کرتی تھی کیوں کہ سب مل بانٹ کر کھایا کرتے تھے لیکن آج ایک ہی خاندان کے لوگ آپس میں فرق کرتے ہیں ـ ایک دوسرے کی کامیابیوں سے حسد کرتے ہیں ‘ دل میں کینہ پروری کو پروان چڑھاتے ہیں ـ چھوٹی اور معمولی باتوں پر قتل تک ہو جاتے ہیں ـ کیونکہ دلوں میں خلوص و محبت نہیں رہی ‘ احساس ‘عزت و احترام عنقا ہو گیا ہے ـ۔

اگر کوئی صاحبِ اختیار کسی غریب رشتہ دار کی مدد کر تاہے تو اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور بار بار جتاتا ہے اس کے علاوہ پورے خاندان میں اپنے نیک دل ہونے اور اُس کئے گئے احسان کا پرچار کرتا ہے ـ یہاں تک کہ وہ غریب بے چارہ غربت اور اس احسان کے تلے دب کر مر جائے ـ اب ایسے بے حس اور خود غرض ہو گئے ہیں میرے دیس کے لوگ ۔۔

ایک وہ خوبصورت دور تھا جب کسی کا راز معلوم ہو جاتا تو دل و جان سے اس کی حفاظت کرتے تھے۔ اگر کسی کی مدد کرتے تو کانوں کان خبر نہ ہونے دیتے تھے لیکن اب چونکہ ڈیجیٹل دور ہے لہذا تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے ـ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی گئی نیکی کو اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ سوشل میڈیا پر وائرل نہیں ہو گی ـ
حدیث کا مفہوم ہے کہ : “صدقہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو ” لیکن ہمیں اشتہار لگا کر ہی سکون ملتا ہے ـ۔

اس کے علاوہ آئے دن تصاویر’ بیان’ یا وڈیوز بغیر اجازت کے وائرل ہو جاتی ہیں جس سے اس خاندان پر کیا گزرتی ہے اس بات کی کسی کو فکر نہیں ہوتی ـ ایسے کرنے والوں کو صرف اپنے لائک اور فالونگ بڑھانے کی فکر ہوتی ہے اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ـ یہ بے حسی کی انتہا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کی عزت کو اپنے پیروں تلے جان بوجھ کر روند کر دلی سکون اور تسکین محسوس کرتے ہیں ـ۔

آج کل لوگ تماشہ دیکھنے کے شوقین ہو گئے ہیں کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتا ـ ظلم اور زیادتی کو ہوتا دیکھتے رہتے ہیں ـ اس کی کئی مثالیں ہمیں روزانہ کی بنیاد پر اپنے اردگرد دیکھنے کو ملتی ہیں جب بے حسی اپنے عروج پر ہوتی ہے ـ جیسے سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے کوئی آگے بڑھ کر مدد نہیں کرتا لیکن وڈیو ضرور بنانا شروع کر دیتے ہیں بالکل اسی طرح اگر لڑائی ہو جائے تو لوگ اکٹھے تو ہو جائیں گے لیکن صرف تماشہ دیکھنے کے لئے کوئی صلح نہیں کروائے گا’ معاملے کو رفع دفع کرنے میں پہل نہیں کرے گا بلکہ وڈیو بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں بے شک کوئی ہمارے سامنے اپنی جان سے ہی چلا جائے اس کی ہمیں پرواہ نہیں ہوتی ـ شاید اُن لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرنا زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے اس سے زیادہ اہم اس کو سوشل میڈیا پر ڈالنا اپنا اولین فرض سمجھا جاتا ہے ـ اس سے ہماری با حیثیت انسان سوچ’ تربیت اور ترجیحات ظاہر ہوتی ہیں ـ دراصل ہم انسانیت کے عہدے سے گِر چکے ہیں ـ ہم اشرف المخلوقات کہلانے کے لائق ہی نہیں رہے ـ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنا تو دور کی بات ہے ہم انسانیت کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے ـ۔

ہم اپنی خواہشات اور خودپسندی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ـ اپنے مقصد اور تسکین قلب کے لئے کسی کی عزت سے بھی بڑے آرام سے کھیل جاتے ہیں’ تہمت لگانے اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے اور جھوٹ بولنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ‘ دھوکہ دینا عام سی بات ہے یہی نہیں ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی لاٹھی بے آواز ہے اور جو ہم کرتے ہیں کہیں نہ کہیں ‘ کسی نہ کسی وقت گھوم کر ہمارے پاس آ جاتا ہے ـ۔

جن لوگوں کے پاس اختیارات ہوتے ہیں وہ ان کا بے جا استعمال کرتے ہیں ـ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے وہ لوگوں کا حق مارتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ لوگ بے حس بن جاتے ہیں ـ ان کو دوسروں کی تکلیف سے نہیں بس اپنی خواہشات سے’ اپنے مطلب سے غرض ہوتا ہے ـ۔

معاشرے میں سدھار لانے کے لئے ہمیں اسکول’ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اخلاقیات سیکھانی چاہیے ـ دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سکھانا چاہئیے ـ اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا’ ڈیجیٹل میڈیا کو بھی کردار سازی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے ـ ایسے ڈرامے اور پروگرام ترتیب دینے چاہیے جن سے بچوں اور بڑوں کی اصلاح ہو سکے ـ ہم سب کو مل کر معاشرے کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ـ۔

اصول و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے پھر چاہے ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا’ سرکاری ہو یا غیر سرکاری’ امیر ہو یا غریب سب کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہیے اور اصول سب کے لئے یکساں ہونے چاہیے ـ منشیات کی روک تھام کے لئے کام کرنا چاہیے ـ۔

اگر ہم اپنا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود سے شروعات کرنی چاہیے ـ تماشہ دیکھنے والا نہیں بلکہ ہمیں ہمدرد اور مددگار بننا چاہیے ـ ایسا دروازہ بننا چاہیے جس سے خیر داخل ہو ـ ایسی روشنی کی کرن بننا چاہئیے جو لوگوں کو اندھیرے میں راستہ دکھانے والی ہو ـ۔

خود کو اتنا مضبوط بنائیں کہ آگے بڑھ کر لوگوں کی مدد کر سکیں اور اس کی مجبوری کا اشتہار نہ لگائیں ـ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر آج ہم دوسروں کے عزت کی پاسداری کریں گے تو کل ہمارا رب ہمارے عیبوں کی پردہ داری کرے گا ـ۔
بقول شیخ سعدی : ” جیسا سلوک تو مخلوق خدا سے کرے گا ویسا ہی سلوک خدا تیرے ساتھ کرے گا “ـ

Advertisements
julia rana solicitors

خلق سے محبت ہی اللہ تعالٰی سے محبت ہے ـ لوگوں سے مطلب کی خاطر تعلق بنانا چھوڑ کر ان کی بے لوث مدد کریں ـ خیر اور آسانیاں بانٹنے والے بنیں ـ پھر دیکھیں کہ کیسے اللہ تعالیٰ  آپ کے لئے آسانیوں کے دروازے کھولتا ہے اور آپ کی زندگی میں سکون ہی سکون کا راج ہوتا ہے ـ اللہ تعالی ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا کریں ـ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب کریں ـ ۔آمین ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply