کارل مارکس کی وفات پر اینگلز کا خطاب/مشتاق علی شان

ہائی گیٹ قبرستان، 17 مارچ 1883ء، لندن؛
14 مارچ کو دوپہر پونے تین بجے ہمارے عہد کا عظیم ترین مفکر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ وہ بمشکل دو منٹ کے لئے ہی تنہا رہا اور جب ہم واپس آئے تو وہ اپنی کرسی پر سکون کی نیند سو رہا تھا۔۔ابدی نیند۔
اس شخص کی وفات نے امریکہ اور یورپ کے جنگجو پرولتاریہ اور تاریخ کی سائنس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس عظیم روح کی پرواز سے پیدا ہونے والے خلا کا ادراک جلد ہی ہونے لگے گا۔

جس طرح سے ڈارون نے نامیاتی فطرت کے قانون ارتقا کی دریافت کی تھی، اسی طرح مارکس نے انسانی تاریخ کے ارتقا کا قانون دریافت کیا: وہ سادہ حقیقت جسے نظریات کی حد سے زیادہ بالیدگی نے چھپا دیا تھاکہ سیاست، سائنس، فنون لطیفہ، مذہب وغیرہ میں حصہ لینے سے پہلے انسانیت کو خوراک، رہائش اور لباس درکار ہے؛ اور اس لئے فوری مادی ضروریات کی پیداوار، اور اس کے نتیجے میں مخصوص لوگوں یاکسی عہد کی معاشی ترقی، وہ بنیادیں فراہم کرتی ہیں جن پر ریاستی ادارے، قانونی افکار، فنون لطیفہ یہاں تک کہ مذہب کے حوالے سے متعلقہ لوگوں کے خیالات تشکیل پاتے ہیں اور اس طریقے سے ہی ان پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے، نہ کہ ان بنیادوں پر جن کے ذریعے اس سے پہلے یہ کوشش کی جاتی رہی ہے۔
لیکن بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ مارکس نے موجودہ سرمایہ دارانہ طرزپیداوار اور اس کی بنیاد پر بننے والے بورژوا سماج کا مخصوص قانون حرکت بھی دریافت کیا۔ قدر زائد کی دریافت نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی جس کو حل کرنے کی تمام سابقہ کوششیں،چاہے وہ بورژوا معیشت دانوں کی طرف سے کی گئی ہوں یا پھر سوشلسٹ نقادوں کی جانب سے، اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے کے مترادف تھیں۔

ایسی دو دریافتیں ہی ایک زندگی کے لئے کافی تھیں۔ اگر کسی شخص کو ان میں سے ایک دریافت بھی میسر ہو جاتی تو وہ خوش نصیب ہوتا۔ مارکس نے کئی شعبوں کا گہرائی میں جائزہ لیا اور اس نے جس بھی شعبے میں تحقیق کی، یہاں تک کہ ریاضی میں بھی، اس نے آزادانہ دریافتیں کیں۔

سائنس کے آدمی کے بطور وہ ایسا تھا۔ لیکن یہ اس کی شخصیت کا نصف بھی نہیں تھا۔ مارکس کے لئے سائنس ایک متغیر تاریخی انقلابی قوت تھی۔ چاہے وہ خوشی کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو جس سے وہ کسی نظریاتی سائنس میں نئی دریافت کو خوش آمدید کہتا تھا ،جس کے عملی اطلاق کی پیش بینی کرنا شاید فوری طور پر ناممکن ہوتا تھا، لیکن وہ ایک اور ہی طرح کی خوشی محسوس کرتا تھا اس وقت جب کسی دریافت کے فوری طور پر صنعت میں اور عمومی تاریخی ارتقا پر انقلابی اثرات پڑتے تھے۔ مثال کے طور پر، اس کی برقیات کے میدان میں اور مارسیل ڈیپریز کی حالیہ دریافتوں میں گہری دلچسپی تھی۔

کیونکہ مارکس سب سے پہلے ایک انقلابی تھا۔ اس کی زندگی کا اصل مقصد کسی نہ کسی طرح سرمایہ دارانہ سماج اور اس کے بنائے ہوئے ریاستی اداروں کو اکھاڑ پھینکنے میں اپنا کردار ادا کرنا اور جدید پرولتاریہ کی آزادی میں حصہ ڈالناتھا جسے پہلی مرتبہ اس نے اپنی تاریخی حیثیت اور ضروریات سے روشناس کرایا، اپنی آزادی کے لئے درکار حالات کا ادراک دیا۔ جدوجہد اس کا خاصہ تھا۔ اور وہ ایسے جوش و خروش، مضبوط قوت ارادی اور کامیابی کے ساتھ جدوجہد کرتا تھا جو چند لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس کا پہلے رہینائش زائتنگ (1842ء)، پیرس وروارتس (1844ء)، ڈوائچ بروسیلر زائتنگ (1847ء)، نیو رہینائش زائتنگ (49-1848ء)، نیو یارک ٹربیون (61-1852ء) اور ان کے علاوہ بے شمار لڑاکا پمفلٹ، پیرس، برسلز اور لندن کی تنظیموں میں انقلابی کام اور پھر سب سے بڑھ کر عظیم International Working Men’s Association کی تعمیر۔۔۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی شاندار کامیابی تھی کہ اگر اس کے خالق نے اور کچھ نہ بھی کیا ہوتا تو اس تنظیم کی تعمیر ہی فخر کرنے کے لیے کافی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور نتیجتاً مارکس اپنے عہد کا سب سے ناپسندیدہ اور تہمت زدہ انسان تھا۔ مطلق العنان ہوں یا جمہوری حکومتیں، دونوں نے اسے ملک بدر کیا۔ بورژوازی چاہے قدامت پسند ہویا انتہائی جمہوریت پسند، دونوں نے اس پر بہتان تراشی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی۔ اس نے کوئی پرواہ کئے بغیر اس سب کو یوں جھاڑ دیا جیسے مکڑی کا کوئی جالا اور صرف اسی وقت جواب دیا جب اس کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ اور مرتے وقت وہ ایک انتہائی محبوب اورقابل احترام شخص تھا، جس کی وفات پر سائبیریا سے لے کر کیلیفورنیا کی کانوں تک اور یورپ اور امریکہ کے تمام حصوں میں کروڑوں انقلابی مزدوروں نے غم منایا ، اور میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگرچہ اس کے بے شمار مخالفین ہوں گے، لیکن شاید ہی کوئی اس کا ذاتی دشمن ہو۔
اس کا نام مدتوں تک زندہ رہے گا اور ساتھ ہی اس کا کام بھی۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply