انسان کی اصل حقیقت، اس کا وجود، اس کی ہستی ہے اور اپنے ہی وجود تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا اپنا دماغ ہے، یہ بات مخلتف مذاہب نے اپنے اپنے رنگ میں انسان تک پہنچانے کی کوشش کی، اس موضوع پر سب سے بڑا کردار بدھ مت کا ہے جہاں انسان کو خود کو پہچاننے کی طرف ترغیب دلائی جاتی رہی، اس کے بعد کے مذاہب، جیسا کہ عیسائیت اور اسلام میں بالخصوص سلسلۂ تصّوف کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ انسان خود کو، اپنی ذات کو، پہچانے۔ مگر یہ فلسفہ ایک وجدانی کیفیت کو محسوس کرنے کی تلقین تک محدود رہا، مختلف ادوار میں اس نکتے کی شرحی و توضیحی تفسیر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر دو شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے انسانی ہستی اور انسانی دماغ کے درمیان جاری اس جنگ کو مفصل بیان کیا اور ان دو شخصیات کے مابین اٹھارہ صدیوں سے زیادہ کا زمانی فاصلہ ہے، ایک روم کے فلسفی اور بعد میں قیصرِ روم کے عہدے پر فائز رہنے والے مارک اوریلی ہیں اور دوسرے دورِ حاضر کے روحانی عالم اکہارٹ ٹولے ہیں، ثانئ الذکر نے اپنی دو کتابوں، لمحۂ موجود کی طاقت، اور، ایک نئی دنیا، میں اس نکتے کی جو علمی و سائنسی تفسیر پیش کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انسان کا دماغ ایک عضو ہے اور اس کی اپنی ذمہ داریاں ہیں جیسا کہ دوسرے اعضاء، دل، پھیپھڑے، گردے وغیرہ اپنی اپنی مخصوص ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، اسی طرح دماغ اپنے اندر یادداشت، تجزیہ کرنے کی صلاحیت، سوچ ،معلومات کا مرکز، اور نظامِ محرک و حساسیت کے ساتھ ساتھ کچھ دوسری طبعی ذمہ داریاں لیے ہوئے ہے ، پھر ایسا کیونکر ہوا کہ یہ دماغ جو کہ ایک عضو ہے، انسان کی شخصیت پر، اس کی ہستی پر مکمل غالب آگیا؟
یہ حادثہ صدیوں کے ارتقاء کے نتیجے میں رونما ہوا، انسانی دماغ اپنے مالک پر مکمل غلبہ چاہتا ہے، اور انسانی شعور کے ساتھ اس کی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے اور جاری رہے گی، اس کیلئے جو ہتھیار انسانی دماغ استعمال کرتا ہے، وہ سوچ ہے، انسانی سوچ ، یہ اس کی شخصیت اور اس کے مستقبل کی آئینہ دار ہے، سوچ ایک توانائی، ایک انرجی کا نام ہے اور یہ کائنات کی سب سے طاقتور چیز ہے، اور یاد رکھیے کہ آپ کی ہر سوچ ایک دن مادّی شکل اختیار کر کے رہے گی، آج آپ جو کچھ بھی ہیں آپ گزشتہ کئی سالوں کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہیں اور آج سے پانچ دس سال بعد آپ وہی ہوں گے جو آج آپ کی سوچ ہے جو آج آپ کا تخیل ہے۔
یہ سوچ مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی اور یہی وہ پیمانہ بھی ہے جس سے آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کا دماغ آپ کے قابو میں ہے یا معاملہ الٹ ہے، مثبت سوچ اس بات کی علامت ہے کہ فرد کا شعور اور اس کی ہستی دماغ کو قابو میں رکھے ہوئے ہیں اور ایسی شخصیات ہر لحاظ سے انتہائی مضبوط واقع ہوئی ہیں جبکہ دوسری طرف اگر سوچ کا جھکاؤ منفی ہے تو جان لیجیے کہ آپ مکمل طور پر اپنے دماغ کے زیرِ اثر ہیں اور آپ کی اپنی شخصیت ثانوی حیثیت میں ہے، جب تک یہ دماغ آپ کے قابو میں ہے یہ آپ کا ایک بہترین دوست اور معاون ہے لیکن اگر یہ دماغ آپ پر حاوی ہے تو یہ ایک ظالم ماسٹر کا روپ دھار لیتا ہے اور پھر وہی ہوگا جو یہ چاہے گا ، اور آپ کی بربادی میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھے گا کہ آپ کے دماغ کو آپ سے کچھ زیادہ ہمدردی نہیں، اس کا اصل مقصد اپنا تسلّط ہے، آپ کی ذات، آپ کی ہستی، آپ کے شعور، آپ کے وجود پر مکمل تسلّط۔
اکہارٹ ٹولے نے دماغ کے تسلّط کے حوالے سے ایک خوبصورت اصطلاح استعمال کی ہے، دُکھ بدن، آپ کا دماغ آپ کے اندر ایک دکھ بدن کا کھیت بوتا ہے، اور اس کھیت کی آبیاری منفی سوچوں سے ہوتی ہے، آپ جتنا زیادہ منفی سوچیں گے ،دکھ بدن زیادہ پروان چڑھتا رہے گا ، وقت کے ساتھ ساتھ یہ دکھ بدن آپ کے وجود کا لازمی حصہ بن جائے گا اور آپ کو روزانہ کی بنیاد پر منفی سوچ کی کھاد سے اپنے دکھ بدن کی خوراک کا بندوبست کرنا پڑے گا وگرنہ آپ کا دماغ آپ کو چین نہ لینے دے گا، اور یہی وہ مقام ہے جہاں آپ کی ہستی ،آپ کا شعور آپ کو مثبت سمت کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں اور دماغ و شعور کے درمیان ایک جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اگر دماغ کو قابو میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش نہ کہ گئی، تو یہ دماغ آپ کی سوچ میں وسوسے، شکوک، وہم وغیرہ کی مدد سے آپ کو منفی سوچ پہ مجبور کرے گا، اوور تھنکنگ اور ڈپریشن کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے، زندگی کے ہر معاملے میں ایک منفی سوچ سامنے آتی ہے، اگر کاروبار شروع کیا تو کہیں گھاٹا نہ آجائے، موٹرسائیکل پر اگر سبزی لینے جاؤں گا تو کہیں روڈ پر کوئی حادثہ نہ پیش آجائے، کہیں مجھے نوکری سے نہ نکال دیا جائے، کہیں میں ناکام نہ ہوجاؤں وغیرہ، یہ تمام شکوک، اوور تھنکنگ اور وسوسے نہ صرف انسان کے اعتماد کو قتل کرتے ہوئے اسے کمزور بنا دیتے ہیں بلکہ یہ تمام منفی سوچیں ایک دن مادّی روپ دھار لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ سب کچھ ہوکے رہے گا جس کا آپ کو ڈر ہے۔
دماغ آپ کے وجود میں دکھ بدن کو ،منفی سوچوں کی مدد سے ، کوٹ کوٹ کے بھر دیتا ہے، آپ اس کے ایسے عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہو جاتا ہے، دکھ کی ایک خواہش جنم لیتی ہے، غم کی ہم رکابی کو انسان ترستا رہتا ہے، مظلوم بننے اور دِکھنے کو طبیعت بے تاب رہتی ہے، غور کیجئے کہ ہجر کو محبت کی معراج کیوں قرار دیا گیا، اور کس نے قرار دیا؟ کیا یہ ایسے ہی لوگوں کا گروہ تو نہیں جو اپنے دماغ کی پیداوار، دُکھ بدن، کے غلام ہیں؟ حالانکہ محبت تو وصل، خوشی و لطف کا نام ہے۔
موضوع کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس کیفیت کا علاج کیا ہے؟ کیسے فرد اپنے دماغ کو قابو میں لاسکتا ہے، کیسے دکھ بدن سے نجات پائی جا سکتی ہے؟
ہمارا معاشرہ چونکہ اپنے اندر مذہب کو بطور بنیادی ڈھانچہ لئے ہوئے ہے ، اس لیے اسی نکتۂ نگاہ سے عمومی طور پر جتنے بھی مذہبی رسومات و لوازمات ہیں اگر ان کو اچھی طرح سے سمجھتے ہوئے عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے تو دماغ کے تسلط کو کم کیا جا سکتا ہے، آپ غور کیجیے کہ نماز میں خشوع و خضوع کی بار بار تلقین کرنے کا مقصد کیا ہے؟ یقیناً یکسوئی، مگر ایسا کیوں ہے کہ دنیا جہان کی بھُولی باتیں اور واقعات ہمیں نماز کے دوران ہی یاد آتے ہیں؟ اس لیے کہ آپ جب بھی اپنی توجہ لمحۂ موجود پر مرکوز کرتے ہوئے، یکسوئی یا خشوع و خضوع کی کوشش کریں گے،یہ آپ کے اپنے شعور، اپنی ہستی کو مضبوط کرنے کی کوشش ہوگی اور یہ دماغ کی غیر ضروری فعالیت کو روکنے کے ابتدائی اقدامات ہیں، مگر دماغ کو یہ بات منظور نہیں، وہ اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے آپ کی توجہ ہر ممکن سمت میں کھینچنے کی کوشش کرے گا، یہاں ایک بات پلے باندھنا ضروری ہے کہ یکسوئی کی اس کوشش میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ آپ جو وِرد یا ذِکر، یا نماز میں کلمات ادا کر رہے ہیں ان کا مطلب آپ کیلئے جاننا ضروری ہے ورنہ اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو پائیں گے۔
جب تک آپ اپنی سوچ کو ماضی کے غم چاٹنے اور مستقبل کے ممکنہ یا تخیلاتی خطرات کا محور رکھیں گے، دماغ کے اس بے رحم تسلط سے نجات قطعا ممکن نہیں، لمحۂ موجود کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دیجیے، ماضی پر پچھتانا، دکھ بدن کی آبیاری کا سامان کرنا ہے، اس سے نجات ضروری ہے، مستقبل کی بابت صرف اچھائی اور امید کو اپنی سوچ میں لائیے، یہ معاملہ اتنا آسان نہیں، آپ کو بار بار آپ کا دماغ وسوسوں اور منفی سوچ کی طرف کھینچے گا، اور جتنا مضبوط دکھ بدن آپ کے اندر موجود ہے اتنی آسانی سے آپ کا دماغ آپ کو ورغلانے میں کامیاب رہے گا، اس کیلئے یوگا کی مشق ایک بہترین عمل ہے، چونکہ دماغ کو کسی بھی سوچ سے مبرا حالت میں رکھنا شاید ممکن نہیں، اس لیے یوگا کی مشق کے دوران توجہ صرف سانس کے اندر جانے اور باہر آنے پر مرکوز کی جاتی ہے کہ دماغ کی منفی سوچ سے آہستہ آہستہ نجات پاتے ہوئے اس کے تسلط سےآزاد ہوا جا سکے، صوفیاء کا مراقبہ بھی اسی کی ایک شکل ہے۔
ان سب مشقوں میں سب سے مؤثر ایسے لوگوں کا ساتھ ہے جو خود مثبت سوچ کے مالک ہوں ، جو غم اور خوف کی کیفیات سے مبرّا ہوں، جو بلاوجہ تنقید کرنے کے عادی نہ ہوں ، جو حسد اور نفرت کے منفی احساسات سے پاک ہوں، جو ماضی اور مستقبل کی بجائے لمحۂ موجود میں جینے کو ترجیح دیتےہوں ،جو آپ کے ساتھ مخلص ہوں اور آپ کی کامیابی پر دل سے خوش ہوں اور ہر مثبت اقدام پر آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں