کیا پڑھائی کے لئے پٹائی ضروری ہے ؟۔۔ عاصمہ حسن

اس موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے ہم تھوڑا ماضی میں جھانک لیتے ہیں ۔ ہمارے بزرگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ان کے والدین خاص طور پر والد بہت غضب ناک ہوتے تھے چھوٹی اور معمولی باتوں پر ان کے جوتے سے پٹائی ہو جایا کرتی تھی ۔ جس کو عرفِ عام میں چھترول بھی کہا جاتا ہے ۔ البتہ والدہ نرم مزاج کی ہوتی تھیں، لیکن ان کی ایک نہ چلتی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ تبھی ہم سیدھے تھے کسی غلط کام میں مار کے ڈر سے ملوث نہیں ہوتے تھے اور اسکول یا کالج سے سیدھا گھر کا رخ کرتے تھے ۔ دوستوں یاروں کا بھی گھر والوں کو علم ہوتا تھا ۔ والد اور اولاد کے درمیان ایک خاص فاصلہ ہوا کرتا تھا ۔ بچہ خواہ کسی بھی عمر سے تعلق رکھتا ہو آنکھ اُٹھا کر یا آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا تھا ۔

آہستہ آہستہ وقت نے کروٹ لینا شروع کی اور والد کا غصہ کم ہونے کے ساتھ ساتھ اس تعلق میں بھی دوستی کا عنصر شامل ہونے لگا ۔ جس کا اثر واضح طور پر نظر آنے لگا ۔ وہ والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے وقت نکالتے ہیں ان کے مسائل کو کشادہ دل کے ساتھ نہ صرف سنتے ہیں بلکہ ان کا مناسب حل بھی تلاش کرتے ہیں اور بچوں کو چھوٹے بڑے فیصلوں میں اہمیت دیتے ہیں ان کے بچے انتہائی پراعتماد ثابت ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اس کے علاوہ زندگی کے نشیب و فراز میں بھی کامیاب ہوکر ابھرتے ہیں ۔

مارکٹائی کسی بھی صورت میں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ۔ نئی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مار پیٹ سے بچے کی انا مجروح ہوتی ہے ۔ بچوں کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے ۔ بچے بھی بڑوں کی طرح رویوں کو سمجھ جاتے ہیں اور زیادہ مار پیٹ سے بچے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ بچہ ہو یا بڑا ہمیں ان کی نفسیات کو سمجھ کر چلنا چاہئیے ۔ عمر کے کسی بھی حصے میں بے جا مار پیٹ اور سختی بچے کو خودسر اور باغی بنا دیتی ہے ۔

پیارو محبت وہ جذبہ ہے جو بڑے سے بڑے کام باآسانی حل کروا دیتا ہے اور بچے تو ہوتے ہی پیار کے بھوکے ہیں ان کو جہاں سے پیار ملتا ہے اسی طرف مائل ہو جاتے ہیں لہذا والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ان کی سطح پر آ کر پیار ‘محبت اور اپنائیت دیں اور سب سے بڑھ کر اپنا وقت دیں تاکہ ان کوکسی غیر کی ضرورت نہ پڑے ۔ بچوں کو تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ بچے اپنے اردگرد کے ماحول سے سیکھتے ہیں جیسا آپ کریں گے وہی وہ سیکھیں گے ۔ ان کو مثالی شخصیت بنانے کے لئے خود مثالی بن کر دکھائیں اور ایسا ماحول دیں کہ وہ ایک بھرپور کردار بن کر ابھریں ۔

دراصل ہم جیسے جیسے اپنی عمر کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں ویسے ہی خود کو عقلمند سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنا گزرا ہوا وقت بھول جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ہم بدل جاتے ہیں بلکہ ہماری سوچ اور رویے بھی بدل جاتے ہیں ۔ پھر ہم اپنی بدلی ہوئی اسی سطح پر رہ کر اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ کامل شخصیت کے حامل بن جائیں ‘ روبوٹ بن جائیں جیسا ہم چاہیں اور کہیں وہ بالکل ویسا اور اسی وقت کر دیں ۔ ایسا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ان کی اپنی ایک الگ شخصیت ہوتی ہے ۔ ان کی اپنی سوچ اور چیزوں کو دیکھنے کا اور پرکھنے کا انداز اور زاویہ ہوتا ہے ۔ ان پر زور زبردستی اپنی سوچ اور حکم مسلط کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ ان ننھے ذہنوں پر بوجھ بن جائے گا جو وقت کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جانے کے علاوہ ان کی نفسیات پر بری طرح اثرانداز ہوگا ۔ چھوٹی چھوٹی روزمرہ کی باتیں ہیں جب کا ہمارے بچوں کے ذہنوں پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اور یہ گلاب جیسے پھول مُرجھا کر رہ جاتے ہیں ۔

جہاں تک پڑھائی کا تعلق ہے وہ ہمیں ایک دوستانہ ماحول میں رہ کر کروانی چاہیے ۔ بچے کا کسی دوسرے بچے سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہر بچہ مختلف ہے ان کی ذہنی صلاحیت و قابلیت بھی مختلف ہوتی ہے ۔ اسی طرح ان کے مشاغل اور دلچسپی کے معاملات بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ اب وقت بہت بدل چکا ہے ۔ پڑھائی کا معیار بھی بدل گیا ہے اب مار کٹائی سے پڑھائی نہیں کروائی جا سکتی بلکہ پیار محبت سے ان کو پڑھائی کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے ۔ جو بات ہم پر امن طریقے سے پیار کی زبان میں سمجھا سکتے ہیں وہ زیادہ اثر دکھائے گی بہ نسبت اس کے جو ہم غصہ کی حالت میں کرتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بچوں کی تربیت بہت نازک معاملہ ہے اور بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ ہم بہترین تربیت اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہم اپنے اندر بدلاؤ لائیں گے ۔ وقت کے ساتھ خود کو اور اپنی سوچ کو بدلیں گے۔ اولاد پیدا کرنا آسان ہے لیکن اس کو پالنا اور ان کی تربیت کرنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ کیونکہ بچوں کی عمر کا ہر حصہ تربیت کے لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ کہیں معمولی سی لرزش ان کی شخصیت کو تباہ نہ کر دے ۔ تمام والدین کے لئے ان کی اولاد ان کا سرمایہ ہوتی ہے کیونکہ ان کی پوری زندگی والدین بننے کے بعد اپنی اولاد کے اردگرد گھومتی ہے ۔ لہذا ان کی تربیت پہلے دن سے ایسی کریں کہ جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو کہیں افسوس نہ ہو کہ کاش ہم نے ایسا اپنی اولاد کے ساتھ نہ کیا ہوتا تو آج یہ نتائج سامنے نہ آتے۔ اپنی اولاد اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے اپنی سوچ’ عادات و اطوار کو آج سے ہی بدلیں کہ کہیں دیر نہ ہو جائے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply