الفاظ کی حرمت کی پامالی جانے کب ہو گی کم؟

لفظوں کی حرمت سچ کی محتاج ہے۔ازل سے ابد تک اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔زبان سے نکلے لفظ اگر سچائی سے محروم ہوں ،تو ان کی حرمت باقی نہیں رہتی ۔بے وقعت اور بے توقیر الفاظ سے معاشرے میں کسی بھی قسم کا تاثر اور ارتعاش پیدا نہیں کیا جا سکتا۔سامنے کی اس حقیقت پر مگر گذشتہ ستر سالوں سے لے کر آج تک کسی سیاسی رہنما نے غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔سچائی پر مبنی الفاظ زبان وبیان کی باریکیوں سے بھی ماورا ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں آج بھی اکثریت انگریزی زبان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ذرا اندازہ کیجیے آج سے اسی سال قبل جب قائداعظم محمد علی جناح انسانوں کے جم غفیر کے سامنے انگریزی میں خطاب کرتے تھے ،تو سامعین جو کہ انگریزی زبان سے یکسر نابلد تھے ۔وہ کیسے قائداعظم کی زبان سے نکلنے والے اک اک لفظ کا مطلب جان جاتے تھے۔
ایک دفعہ قائداعظم کی تقریر سنتے ہوئے مجمع میں موجود شخص سے کسی نے سوال کیا قائداعظم تو انگریزی زبان میں بات کر رہے ہیں ،آپ کو سمجھ آ رہی ہے۔تو اس شخص نے جواب دیا سمجھ تو بالکل نہیں آرہی۔مگر میرا یقین ہے کہ جو بھی کہہ رہے ہیں،حرف بہ حرف سچ ہے۔اس سے بڑا معجزہ کیا ہو گا۔سچائی نے سامعین کےدل و دماغ کو ناقابل فہم زبان کے باوجود تسخیر کر لیا۔مگر بدقسمتی سے آج ہمارے سیاسی رہنما الفاظ کی حرمت کو پامال کر چکے ہیں ۔صبح وشام لفظوں کی جگالی کرتے ہیں ۔مگر کو ئی تاثر قائم نہیں کر پاتے۔سیاسی رہنماؤں کی تضاد بیانی اور جھوٹ نے الفاظ کی حرمت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ۔پچھلے ستر سال سے اس بدنصیب قوم کو ابن الوقت رہنما جھوٹ اور تضاد بیانی پر مبنی الفاظ سے بے وقوف بنا رہے ہیں ۔قول و فعل میں تضاد اس قدر بڑھ چکا ہے،کہ لفظوں کا اعتبار ہی ختم ہو چکا ہے۔سیاسی رہنماؤں کی بات چھوڑیں یہاں تو اہل علم اور دانشور حضرات بھی الفاظ کی حرمت کو دن رات پامال کرنے میں مصروف ہیں ۔نجانے کب ہم کو قائداعظم محمد علی جناح جیسی شخصیت نصیب ہو گی ،جو الفاظ کی حرمت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے اک اک عمل سے سچائی کی آبیاری کرے گی۔
آج کے رہنما اس قدر جھوٹ اور تضاد کا شکار ہیں کہ دن میں متعدد بار ادا کئے الفاظ اور دعوئوں کی رات ڈھلنے سے پہلے نفی کر کے سوتے ہیں۔پوری دنیا کے سامنے میثاق جمہوریت کے معاہدے کرتے ہیں،مگر عملی طور پر میثاق جمہوریت کی دھجیاں اڑاتےہیں۔اپنے الفاظ کو چبا چبا کر قوم کی تقدیر بدلنے کے خواب دکھاتے ہیں ۔مگر سنگدلی کے ساتھ ان خوابوں کو کچل کر نئے خوابوں کی تعمیر شروع کر دیتے ہیں۔لفظوں کی حرمت کی پامالی کو ختم کرنے کے لیے سچائی کو حرزجاں بنانا ازحد ضروری ہے ۔کاش کوئی اپنی زبان سے ادا کئے گئےالفاظ کو اپنے عمل سے، کردار سے وقعت اور توقیر بخش دے۔قول و فعل میں تضاد بیانی کا عنصر ختم کیے بنا ملک کی تعمیر و ترقی نا ممکن ہے۔تو دست بستہ گزارش ہے کہ الفاظ کو سچائی سے محروم کرنا چھوڑ دیں۔اگر اپنے ادا کئے لفظوں کی لاج رکھنی ہے ،تو خلوص نیت کے ساتھ عمل کرنا ہوگا سچائی کو حقیقی معنوں میں اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply