فلسطین جنگ اور سرمایہ دارانہ نظام/منصور ندیم

رومن ایمپائر کے دور میں بادشاہوں اور ان کی ایلیٹ کلاس کا پسندیدہ مشغلہ وہ کھیل تھے، جس میں دو ماہر شمشیر زن جنگجو مزاج افراد اپنی زندگی کی بقاء کے لیے لڑتے اور بے رحمی سے ایک دوسرے کا شکار کرتے ۔بادشاہ اور اس کے حواری اور عوام سٹیڈیم میں بیٹھ کر اس ظالمانہ کھیل سے لطف اندوز ہوتے، اس لڑائی کے لیے باقاعدہ غلام بنائے جاتے، جن کی تربیت ہوتی۔ ان کی اچھی خوراک، آرام کے ساتھ ماہر افراد سے انکو لڑائی کے داؤ بیچ سکھائے جاتے ۔کھیل میں ایک کی موت اور دوسرے کی زندگی بچ جاتی۔ یعنی اس کھیل میں شامل دونوں افراد اپنی اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوتے تھے، ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے ان gladiator کو اس بات سے کچھ غرض نہ  ہوتی کہ مدمقابل میرا کتنا اچھا دوست ہے، کیونکہ بادشاہ، اس کے حواری اور عوام کے لیے بس وہ ایک تفریح کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت اس کھیل سے بہت لوگ پیسہ اور فائدے اٹھا رہے ہوتے تھے، یہ کھیل ایک پوری انڈسٹری تھا اس میں جوئے لگتے تھے اس سے وابستہ لوگ اس کھیل کی تیاریوں میں بڑی انویسٹمنٹ کر کے پیسے کماتے تھے۔ سب سے تکلیف دہ ایسے ہولناک واقعات میں روایتی بے حسی ایلیٹ کلاس طبقے کی طرف سے دیکھنے کو ملتی ہے بجائے سختی سے ایسے عناصر کو کچلنے کے وہ خود اس کھیل کا حصہ ہوتے تھے، (یہ پیرا گراف کم و بیش جمیل آصف کی تحریر کا ہے)۔

کسی بھی جنگ کا يا کسی بڑے واقعے کا جیسے ۹/۱۱، مختلف حکومتوں، لیڈروں کا اقتدار ميں آنا يا اقتدار سے نکل جانا وغيرہ  کا پس منظر جاننا ہو تو اس کے بينیفشری کا، يعنی اس واقعے سے مجموعی طور پر فائدہ اٹھانے والے افراد يا ان اداروں کے بارے ميں سوچنا شروع کرديں۔ پھر جو سوال آتے جائيں ان کے جوابات تلاش کرتے جائيں۔ کچھ عرصے ميں آپ کے ذہن ميں يہ گتھی خود بخود سلجھ جاۓ گی۔ مثلاً حاليہ روس، يوکرائين کی جنگ ہو يا اسرائيل غزہ کے واقعات اس کا بينيفشری اسرائيل کسی حد تک ہوسکتا ہے اور نقصان فلسطينيوں کا ہوتا نظر آرہا ہے۔ مگر اصل بينيفشری اب سامنے آتے دکھائی دے رہے ہيں۔ جيسے ورلڈ بنک نے اعلان کرديا ہے کہ پيٹرول کی قيمتوں ميں ہوشربا اضافہ ہونے کے امکانات ہيں، حالانکہ ابھی يہ جنگ شروع ہوۓ کچھ ہی ہفتے ہوۓ ہيں اور بظاہر اس وارننگ کی کوئ تک نہيں بنتی۔ اب کچھ دن بعد شرح سود کی باری ہے جس کے کووڈ اور روس کی جنگ کے بعد اضافے نے عام لوگوں کی جیبيں پہلے ہی ہلکی کردی ہيں۔ اب مزيد اضافہ متوقع ہے جس کے بعد يہ جيبيں بالکل ہی خالی ہوجائيں گی۔

ان کاموں کے بعد دنيا کی ۱ فيصد ايليٹ مزيد امير تر اور باقی ننانوے فيصد مڈل اور لوئر کلاسيں مزید مالی مشکلات کا شکار ہوجائيں گی۔ اس طرح يہ جنگيں فنانس ہونگی اور سب جانتے ہيں کہ يہ پيسہ کن کی جيبوں ميں جاۓ گا۔ دوسری طرف دنيا بھر کا ميڈيا اپنی ہانکتا رہے گا۔ ایک کو ظالم اور ایک کو مظلوم دکھا دکھا کر سب کو فون اور ٹی وی کی اسکرينوں سے چپکا کر ذہن سازی ہوتی رہے گی۔ جسے ہمارے دانشور حضرات ديکھ دیکھ کر اپنی راۓ باقی عوام تک پہنچائيں گے اور اس کارِ خير ميں حصہ ليں گے۔ آخر ميں امير نے امير تر اور غریب نے مزيد غریب ہی ہونا ہے۔ باقی سب کہانياں ہيں، افسانے ہيں۔ (پوسٹ کا یہ حصہ نعمان يوسف کی تحریر کا ہے)

یہ سرمایہ دارانہ نظام کی نیو لبرل ازم کی دوڑ ہے، یہاں مذہبی فکر کے حق و باطل نہیں ہوتے، یہاں نظام کے حاکم اور ایلیٹ کلاس کے سرمایہ دار حق پر ہیں، اور ہم جیسے عام لوگ باطل ہیں، یہاں خلق خدا کا نقارہ بھی سرمایہ داروں کے سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں بجتا ہے اور اس کی قیمت ہم جیسے عام لوگ دیں گے۔ زمانے میں غالب طبقات کے نظریات ہی غالب رہے ہیں، یہ نظریات سیاسی بھی ہیں، سماجی بھی اور معاشی بھی، ان لوگوں کی ثقافت ان لوگوں کی سچائیاں، ان کی طاقت کے سہارے ہمارے اوپر آج بھی حکمرانی کر رہی ہیں۔ یہاں دو ملکوں کی جنگ ہورہی ہے مگر اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کے ادارے پر شاہی کرسیوں پر بیٹھے ایک طبقہ ایلیٹ کلاس، ان دو ملکوں کی جنگ میں ہم جیسے گلیڈییٹرز کو لڑا رہے ہیں، بظاہر یہ گلیڈییٹرز حق و باطل کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اپنی اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں، لیکن ان کے اصل بینیفیشریز کہیں دور بیٹھے اس نظام کو چلا رہے ہیں اور فیصلے کر رہے ہیں، ان گلیڈییٹرز میں ایک وہ لوگ ہیں جو خود لڑ رہے ہیں، اور اس میں ایک اور ایسا طبقہ بھی ہے جو چندے جمع کر کے ان کو بھیجے گا اور خود ہی اس آگ کو ایندھن دے گا، اور اس ایندھن کے بعد بھڑکنے والی اگ سے نیو لبرلزم کے نمائندے مہنگائی کا ایک تلاطم خیز طوفان لائیں گے، اس تلاطم خیز طوفان کی یہ قیمت ادا کرنی ہوگی کہ جب ہمیں پیٹرول کی قیمت مہنگی ملے گی اس کے ساتھ ہی ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ سعودی عرب میں کرونا کے ایام میں بھی مہنگائی نہیں ہوئی تھی، لیکن صرف رشیا اور یوکرائن کی لڑائی کے بعد یہاں پر مہنگائی کا تناسب ڈیڑھ گنا ہو گیا۔ رشیا یوکرائن جنگ پوری دنیا پر اثرانداز ہوئی ہے، اور پاکستان میں بھی بڑھتی مہنگائی میں اس جنگ کی برکات شامل ہوئی ہیں۔

فلسطین اسرائیل تنازع  کو سمجھنے کے لیے کوئی تعارفی متن نہیں چاہئے، عقل والوں کے لئے یہ پیشگی علم اور نظریاتی پس منظر ہی اس کو سمجھنے میں اعلیٰ درجے کا حامل ہے، تاہم، یہ مشرق وسطیٰ کے اسکالرز اور فلسطین کی حالیہ پیش رفت کے لیے ایک ضروری متن ہے، اور عالمی برادری کے ان لوگوں کے لیے جو مسئلہ فلسطین میں شامل ہیں، تاریخی معلومات اور تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ اوسلو کے بعد فلسطین کا معاملہ اس بات کی ایک بڑی مثال ہے کہ کس طرح مغربی عطیہ دہندگان اور مالیاتی ادارے امن کی تعمیر، ریاست کی تعمیر، ترقی اور انسانی امداد کے لیے اپنے طریقے اور نقطہ نظر کو تشکیل دے رہے ہیں۔ ان اداروں کی طرف سے فلسطینیوں کو کس طرح نو لبرل مداخلتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اس کا مطالعہ کرنے سے، کوئی بھی ان پالیسیوں کی نوعیت اور اثرات کو سمجھ سکتا ہے، مگر ظاہر ہے ہم یہ بات اتنی اسانی سے تو نہیں سمجھیں گے کیونکہ ہمیں حق اور باطل، معجزات، جنگوں کا جنون ہی سنبھلنے نہیں دے گا۔ گلوبل کارپوريشنز کا اقتدار ہی ہر بیماری کی جڑ ہے۔ عام لوگ تو بیچارے سيدھے سادھے ہوتے ہيں۔ ایک عام يہودی کو بالکل بھی پرواہ نہيں کہ غزہ کی زمين اس کے ملک ميں شامل ہوجاۓ اور اس کے لئے اسے فلسطينيوں سے نفرت کرنی ہے یا ان کو ان کی زمین سے نکالنا ہے، اسی طرح ايک عام فلسطینی بھی اپنے روزمرہ کے مسائل سے غرض رکھتا ہے کم از کم اس کی نئی نسل کو اب کوئی دکھ نہيں کہ وہ روز بيت المقدس ميں جاکر انہیں لازمی نماز پڑھنی ہے۔ بلکہ اس کی پہلی ضرورت اپنے بچوں کے لیے اور اپنے لیے ایک اچھی زندگی ہے، نماز تو وہ اپنے محلے کی مسجد میں بھی پڑھ سکتا ہے، اسی طرح بھارت اور پاکستان کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا موازنہ بھی حکومتوں کے تعلقات اور پالیسیوں سے ہم سمجھ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن یہ سارا فساد کچھ ایسے ہی چلے گا اور پھر تھم جائے گا، پھر سب کے پاس اپنی اپنی مظلومیت کی ایک اور تاریخ ہوگی، اس کے بعد ہم ایک اور نئے گلیڈییٹرز  کی تلاش میں ہونگے، سب کے پاس اپنے اپنے حق اور باطل ہوں گے لیکن عوام اس کے بعد اپنی روٹی اور ضروریات کے لیے دگنی قیمتوں کی محنت کرے گی، اور اس سارے کھیل پر جنہوں نے سرمایہ کاری کی ہوگی وہ اس سے کئی گنا زیادہ منافع کما کر ہم پر راج کریں گے۔ ایسے حالات میں بینیفیشریز کا تو بڑے پیمانے پر فائدہ ہوتا ہی ہوتا ہے لیکن چھوٹے چھوٹے گنڈوے بھی ایسے حالات میں نکل آتے ہیں، جو ہمارے ملک میں مختلف ناموں پر ایسے مواقع پر غریب عوام کا ہی خون چوس کر چندے مانگتے ہیں۔ گزشتہ 400 سال سے مرتب عالمی نظام نے ہر ملک میں غالب طبقات کو ہی آگے بڑھایا ہے، جو اس وقت معاشروں کے تمام پہلوؤں اور آگاہی کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں، جیسے اپ اسکینڈوین یا عرب کے خلیجی ممالک کی مثال لے لیں۔ جو انتہائی عقلمندی کے ساتھ اپنے معاشی معاملات کے ساتھ سنجیدہ ہیں۔ باقی یہ جنگی جنون اور حق و باطل، ہم جیسے گلیڈییٹرز کی قسمت میں رہ گئے ہیں۔ جن کا مقدر بالآخر اس نظام کے لئے صرف خون دینا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہم بطور پاکستان سرمایہ دارانہ نظام سے تو نہیں لڑ سکتے لیکن کم سے کم کچھ بہتر طور پر اپنے ملک کی حالت درست بھی اسی وقت کرسکتے ہیں جب ہم اس جذباتیت سے نکل آئیں، مگر ہم نے آپس میں بھائیوں کی طرح رہنے والے دو افراد میں سے کسی ایک انتخاب کرلیا ہے جو اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے گلیڈییٹرز بنے ہوئے ہیں، اور ایک دوسرے کا خون کرنے والوں میں سے ہر واقعے پر ہمہ وقت ایک بھائی بن کر رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
یہ پوسٹ تین تحاریر کا ایک تسلسل ہے، آپ اسے تسلسل سے ہی پڑھیں، اس میں دو افراد کی تحریریں بھی جمع ہیں۔ آخری تین پیرا گراف میری تحریر کے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply