امریکی سازش۔۔حسان عالمگیر عباسی

امریکی سازش۔۔حسان عالمگیر عباسی/اگر منڈی لگنا اور خرید و فروخت امریکی سازش ہے تو یہ سوال اپنی جگہ درست ہے کہ کیا یہ پہلی بار ہو رہا ہے؟ اگر بار بار ہو رہا ہے تو سازش بھی پہلی دفعہ نہیں ہوئی اور اگر پہلی دفعہ نہیں ہوئی تو سب جماعتیں اور قائدین اس سازش کا حصہ ہیں۔ اگر اسی بنیاد پہ سیاست کرنی ہے، غداری اور دین فروشی کے پرچے کاٹنے ہیں تو صرف سیاست دان ہی کیوں غدار قرار پائیں؟ اور اگر صرف سیاست دان ہی قربانی کے بکرے نہیں ہونے چاہییں تو اداروں کو بھی اسی لائن میں کھڑا کرنے سے نقصان ملک و قوم کا ہے اور اس کا متحمل فرد ہو سکتا نہ معاشرہ لہذا میٹھے چاول کھائیں اور خوشی خوشی رمضان گزاریں اور عید پہ تمام جماعتوں کے کارکنان بغل گیری کا مظاہرہ فرما کے ثواب دارین حاصل کریں۔

یہ حق و باطل کا معرکہ نہیں ہے۔ اسے حسینیت اور یزیدیت کی جنگ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کفر و اسلام کی لڑائی بھی نہیں ہے۔ یہ غدار اور محب وطن کی کشمکش بھی نہیں ہے۔ یہ صرف ایک انا کے پتلے کی انانیت اور اس کا نارسسزم ہے۔ ان کے ماننے والے اس کے باشعور کارکنان نہیں بلکہ ان کے عقیدت مند ہیں۔ کرشماتی قائد ہے اور خدا نے زبان چلانے کا ہنر بھی دے رکھا ہے جسے وہ استعمال میں لارہا ہے لہذا سیاست دانوں کو اتنی اہمیت دیں جتنی ان کی نظر میں کارکنان کی اہمیت ہے۔

ہمارے ہاں جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے۔ اسے اونچا جانے کے لیے صدیاں نہیں تو دہائیاں ضرور درکار ہیں۔ جمہوریت ایک اچھا نظام اور انسانیت کی بقا کا ضامن ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اپنے اصل روح میں نافذ کیا جائے۔ جمہوریت کا مطلب جمہور کی نمایندگی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کسانوں کی نمایندگی کسان کو، خواتین کی نمایندگی خواتین کو، اور مزدوروں کی نمایندگی مزدور کو حاصل ہے۔ جمہوریت موروثیت، ملوکیت، خاندانی اجارہ داری، غصب، جبر، جاگیرداری، اور دھونس دھاندلی کا نام نہیں ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں چند خاندانوں کا سیاسی وجود ہے جو شکل و صورت اور جھنڈے بدل بدل کر ہر بار جگہ بنانے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ وہی لوگ جو تحریک انصاف میں تھے ہمیں آمدہ انتخابات میں جیتنے والی جماعت میں نظر آئیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ جمہوریت کے نام پہ خاندانی آمریت کا رواج ہے۔ یہاں ایک بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ شعوری کارکن غلط کو غلط کہنا جانتا ہے اور اگر اس کی رائے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے تو احتجاج کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غلامی ابن غلامی اور خاندانی چاکری والی بے بنیاد اور بے رحم جمہوریت صرف ہماری صفوں میں نظر آ رہی ہے جو خوش آیند نہیں ہے۔ بہتری کی گنجائش رکھتے ہوئے سیاست دانوں کو ان کی حیثیت کے مطابق مقام بانٹنے اور اپنی ترقی و خوشحالی کی بڑھ چڑھ کے سبیل پیدا کرنے کی تگ و دو انتہائی ضروری ہے کیونکہ فرد کی ترقی ہی معاشرے کی ترقی ہے۔ بہتری اسی نظر آرہی ہے کہ سیاسی کارکن بننے کی بجائے سیاست کا طالب علم بنا جائے اور تجزیاتی بنیادوں پہ اس میں سے کوتاہیوں اور کمزوریوں کو سامنے لایا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply