سول ہسپتال کوئٹہ سے/پروفیسر فضل تنہا غرشین

موت برحق ہے۔ کوئی انسان سدا تندرست نہیں رہتا۔ بیماری زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے۔ بیمار ہونے کی صورت میں اشرافیہ نجی ہسپتالوں اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ جب کہ بیمار غریب عوام کے حصے میں موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نجی ہسپتالوں میں علاج کافی حد تک مہنگا، تیز تر اور تسلی بخش ہوتا ہے، لیکن سرکاری ہسپتالوں میں علاج سست رفتار، اور معاشی لحاظ سے قابل برداشت ہوتا ہے۔ سول ہسپتال کوئٹہ ہر حوالے سے ابھی تک مڈل کلاس اور غریب عوام کے لیے ایک بہت بڑی نعمت بنا ہوا ہے۔ گذشتہ پندرہ دنوں سے فیملی کے علاج معالجے کے سلسلے میں سول ہسپتال کوئٹہ میں ہوں اور یہ میرے لیے پریشانی کے بجائے ایک خوش گوار تجربہ ثابت ہوا ہے۔

سنڈیمن پروانشل ہسپتال کوئٹہ ایک سرکاری ہسپتال ہے۔ سرکاری ہسپتال کا نام سنتے ہی انسان کے ذہن میں سب سے پہلے ایک خوش نما خاکہ ابھرتا ہے کہ وہاں ڈاکٹر ہوں گے، ادویات ہوں گی، خون کے تمام تر ٹسٹ، ایکسرے، سی ٹی سکین، ایم آر آئی، الٹراساؤنڈ، ڈائلاسز اور دیگر سرجریاں مفت ہوں گی اور کھانے پینے کے علاوہ مریض کا کوئی خرچہ نہیں ہوگا۔ ایسا نہیں ہے۔ مذکورہ بالا تمام تر ٹیسٹ ہسپتال سے باہر کیے جاتے ہیں۔ بلڈ کلچر کے لیے خون کے نمونے کراچی یا اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں۔ ہسپتال کے اندر سی ٹی سکین پر کم سے کم نو ہزار روپے خرچہ آتا ہے۔ اکثر اوقات مختلف لیبارٹریوں کا نتیجہ مختلف آتا ہے۔ وہیل چیر اور اسٹریچر ڈھونڈنا درد سر بن جاتا ہے، البتہ آکسیجن کی کوئی کمی نہیں۔ ایکسرے فلم کی کمی کی وجہ سے بسا اوقات مریض رل جاتے ہیں۔ او پی ڈی مکمل فعال ہے اور ڈاکٹرز دن کے نو بجے سے ظہر کے دو بجے تک حاضر رہتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات مریضوں کو سرکاری ہسپتال کی او پی ڈی میں کم وقت جب کہ پرائیویٹ ہسپتال میں زیادہ وقت دیتے ہیں۔ ہسپتال میں گولیاں اور ادویات میسر نہیں ہیں، مگر کچھ قیمتی انجکشنز ہسپتال کی طرف سے مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہسپتال سے باہر جناح روڈ پر واقع میڈیکل سٹورز ہفتہ وار ادویات کی قیمتوں میں “نئ ریٹ” کے نام سے مسلسل اضافہ کرتے ہیں۔ ابتدائی طبی امداد، ہرنیا، اپینڈکس، ملیریا، ٹائیفائڈ اور ٹی بی کا تسلی بخش مگر سست رفتار علاج اسی ہسپتال میں ممکن ہے۔ ہسپتال کی آب و ہوا، عمارت اور جغرافیہ بلی، لال بیگ، چوہے اور مچھروں کی افزائش نسل کے لیے نہایت موزوں ہے۔

اتوار کو چھٹی ہوتی ہے اور باقی ایام میں سینئر ڈاکٹروں کا دو گھنٹوں پر مشتمل ایک راؤنڈ ہوتا ہے، اور پھر اگلے دن تک پورا یونٹ نرسنگ اسٹاف کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ مگر نرسنگ اسٹاف بہت کو آپریٹیو اور ملنسار ہوتا ہے۔ نوجوان ڈاکٹروں کی مریضوں سے گفتار اور برتاو لائق تحسین ہے۔

ہسپتال میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ لوڈشیڈنگ کا تصور تک نہیں۔ دو تین جگہوں پر فلٹر واٹر کی سہولت بھی موجود ہے۔ برائے نام یعنی سرسری صفائی روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ فیمیل وارڈز کے باتھ رومز کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ پبلک باتھ رومز صاف اور صرف بیس روپے میں میسر ہیں، مگر لوگ بخالت یا ناقص تربیت کی وجہ سے اوپن ڈیفیکیشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہسپتال کا پورا ماحول متعفن رہتا ہے۔ عوام صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ مریضوں کی خدمت کرنے والے گھریلو افراد کی رہائش کے لیے خاص تسلی بخش انتظام میسر نہیں ہے۔ پورے ہسپتال میں مریضوں کے لیے صرف تین مقامات پر لفٹ کی سہولت موجود ہے اور مکمل فعال ہیں۔ ہسپتال کے اندر کینٹین میں کھانے پینے کی اشیاء بازار سے با رعایت دستیاب ہیں۔

ہسپتال کے فیمیل یونٹ میں کثیر تعداد ان خواتین کی بے جو زچگی کے دوران میں مقامی نیم یا غیر تربیت یافتہ برائے نام فیمیل ڈاکٹروں یا نرسوں کے ہاتھوں برباد ہوگئی ہیں۔ جب صحت کاروبار بن جاتی ہے تو ایسے واقعات خود بخود رونما ہونے لگتے ہیں۔ یہ کھلواڑ صرف صحت تک محدود نہیں، بل کہ تعلیم کی بھی یہی حالت ہے۔ شعبہ حادثات اور گائنی وارڈ کی کارکردگی سے عوام مطمئن ہیں۔
انتظامیہ مہذب اور مددگار ہے۔ ڈاکٹروں کے لیے لائبریری موجود ہے مگر عوام کے لیے لائبریری کی سہولت موجود نہیں۔ ہسپتال میں مریضوں کی خدمت اور عیادت کے لیے طلبہ اور اساتذہ بھی آتے ہیں اور ان کو گھنٹوں باہر فٹ پاتھ پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ہسپتال میں پبلک لائبریری کا ہونا از حد لازمی ہے۔

سول ہسپتال کوئٹہ میں بھاری اکثریت مجبور افغانی مریضوں کی ہے، جو مالی لحاظ سے کمزور، سماجی لحاظ سے اجنبی اور کم لکھے پڑھے ہیں۔ ان کو کھانے پینے، ادویات خریدنے اور خون کے یٹسٹ کرانے کی مد میں بھرپور مالی امداد کی ضرورت ہے۔ کراچی والوں کے برعکس کوئٹہ والوں میں سخاوت اور فیاضی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئٹہ کے مخیر حضرات پر لازم ہے کہ وہ اپنی عطیات، خیرات، زکوۃ اور صدقات ہسپتالوں میں موجود غریب اور مستحق مریضوں پر خرچ کریں۔ عوام صاف پانی پئیں، سادہ خوراک کھائیں اور اپنی صحت کا خیال خود رکھیں۔ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت بلوچستان اور محکمہ صحت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سول ہسپتال کوئٹہ کی ناقص حالت پر فوری توجہ دیں۔ مریضوں کو تمام سہولیات ہسپتال کے اندر مفت فراہم کی جائیں۔ روزانہ کی بنیاد پر محکمہ صحت میں ٹرانسفر پوسٹنگ عوام کی صحت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ میڈیا اور صحافی برادری اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔ اپنی تمام تر خامیوں اور ناقص سہولتوں کے باوجود سول ہسپتال کوئٹہ غریب عوام کے لیے کسی مسیحا سے کم تر نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply