شخصیت پرستی۔۔مرزا مدثر نواز

حکایت ہے کہ ایک آدمی اپنے گاؤں میں ہاتھی لے کر آیا اور اسے کمرے میں باندھ دیا۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔گاؤں میں اس سے پہلے کسی نے ہاتھی کو نہیں دیکھا تھا۔ اہلِ گاؤں کو خبر ہوئی تو وہ اس جانور کو دیکھنے کے لیے اس آدمی کے گھر آئے۔ کمرے میں اندھیرے کے باعث لوگ اپنے ہاتھ سے ہاتھی کو چھوتے تھے اور اپنے اندازے کے مطابق مختلف قیاس کرتے تھے۔ کسی کا ہاتھ پیر پر لگا تو اس نے کہا یہ کوئی اونٹ نما ہے، کسی کا سونڈ پر لگا تو اس نے کہا یہ فلاں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح ہر ایک نے اس عظیم الجثہ جانور کا اپنے ذہن میں مختلف خاکہ بنایا۔

حاصلِ حکایت یہ ہے کہ انسان علم کی روشنی کے بغیر اندھا ہے۔ علم کے بغیر صرف اٹکلے دوڑائے جا سکتے ہیں۔ اگر کمرے میں روشنی ہوتی تو ہر ایک پر روزِ روشن کی طرح ہاتھی کا خاکہ واضح ہو جاتا۔ جو علم کے جس مرتبے پر فائز ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن انسان ہونے کے ناطے غلطی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس جہانِ فانی میں کسی کی رائے کو بھی حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا سوائے ارشادِ ربانی اور   حدیثِ نبوی ﷺ کے۔ سائنس کی دنیا میں لوگوں نے اپنے نظریات پیش کیے اور کئی سال تک انہیں غلط ثابت نہ کیا جا سکا۔ لیکن جوں جوں سائنس نے ترقی کی اور انسان کا علم وسیع ہوتا گیا، ماضی کے نظریات کوتحقیق کی بنیاد پر غلط ثابت کیا گیا۔

بنی نوع انسان اپنے سے بہتر لوگوں کو مثال بنا کر ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ کوئی ماضی کی کسی شخصیت سے متاثر ہے تو کوئی اپنے لیڈر،سیاسی پنڈت‘ پیر یا استاد سے۔ یہ بہترین عادت ہے کہ اچھے کاموں میں کسی کی پیروی کی جائے۔کہا جاتا ہے کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے یہ اسے جہاں سے ملے ، لے لینی چاہیے۔ لوگ عقیدت کی بنا پر اپنے لیڈر یا پیر کو اپنے والدین سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ والدین کے خلاف تو شاید وہ کوئی سخت الفاظ سن لیں لیکن پسندیدہ سیاسی شخصیت ‘ پیر یا مرشد کی شان میں گستاخی برداشت نہیں۔

شخصیات کے افعال پر بحث آپ کے روزمرہ مشاہدہ میں لازمی آتی ہو گی۔ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کا پیروکار اپنے لیڈر کے بارے میں کوئی مثبت یا تعمیری تنقید سننے کو تیار نہیں۔لاکھ کہا جائے یہ شخصی پارٹی ہے‘ اس پر عرصہ دراز سے خاندانی قبضہ ہے‘اس میں میرٹ کا قتل عام ہوتا ہے ٹکٹ کی تقسیم قابلیت کی بجائے پیسے اور اثر و رسوخ دیکھ کر کی جاتی ہے‘ یہ جمہوریت نہیں بلکہ ملو کیت کی ایک قسم ہے‘ ایسے لوگوں اور جماعتوں کی حمایت سرا سر غلامی کے زمرے میں آتی ہے لیکن وہ ان کے ہر غلط و صحیح فیصلے یا رائے پر مہر تصدیق ثبت کرے گا۔ بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور دانشور بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں۔

آج کل کے ٹی وی ٹاک شوز اس بات کی گواہی ہیں۔ پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی کا لیڈر دوسروں کی نظر میں ڈان، قاتل اور غدار ہے لیکن اس کا پیروکار اس کے بیانات کا دفاع بھی کرتا ہے اور اس کے لیے جان تک دینے کے لیے تیار ہے۔ جعلی پیر یا مرشد عوام کو لوٹ رہا ہے اور اسلام کی غلط تشریح کر رہا ہے، پاک ہستیوں سے منسوب کر کے غلط پیشین گو ئیاں کر تا ہے لیکن اس کا مقلد پھر بھی اسی کا فین ہے۔ تقلید اور عقیدت کی انتہا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے غلط افعال پر اس سے سوال نہیں اٹھائے گا بلکہ اس کی غلط رائے کو اپنی دلیل بنانا شروع کر دے گا۔ ماضی قریب میں جذباتی قوم نے ایک لیڈر کی زبان سے نکلنے والی گالیوں کو قرآن و سنت و صحابہؓ سے ثابت کرنے کی کوشش کی اور ایسی دلیلیں پیش کی گئیں کہ اہل علم سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔اسی فعل کو شخصیت پرستی یا Hero-worshipکہتے ہیں۔

اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ اندھی تقلید یا حد سے زیادہ تعظیم؟یہی سوچ، اندھی تقلید اور حد سے زیادہ تعظیم ایک خدا سے کئی خداؤں  کے عقیدے کا سبب بنی۔ اسی نے تثلیث کے عقیدے کو جنم دیا اور شاید یہی تفرقہ کا باعث ہے۔
انسان خطا کا پتلا ہے، عقلِ کل نہ ہی عالم کل کا دعوٰی کر سکتا ہے۔ اس کو غلطیوں اور نادانیوں سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔آئیڈیل بنانااور اس کی اچھے کاموں میں پیروی کرنا کوئی بری بات نہیں اور ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو تسلیم کرنا ایک حقیقت پسندانہ ذہن کی عکاسی ہے۔ لیڈر یا مرشد غلطی کر سکتا ہے لہٰذا غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کی جرأت پیدا کرنی چاہیے اور مدح سرائی  سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ی

ہ دلیل مت دیں کہ وہ اتنا تعلیم یافتہ اور اعلیٰ مرتبے کو پہنچا ہوا ہے، اس سے تو غلطی کا احتمال ہو ہی نہیں سکتا۔ کتنے مصنفین ایسے ہیں جنہوں نے اپنی لکھی ہوئی کتابوں پر شرمندگی کا اظہار کیا اور بعد میں ان کی تصیح کی۔ لیڈر کی باتوں کو حقائق کے آئینے  پر  پرکھیں اور حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ صادر کریں کیونکہ آپ مقلد ہیں، غلام نہیں ۔اگر یہ سوچ اور نظریہ ہمارے ذہنوں میں گھر کر جائے تو پھر کوئی مداری، مفادپرست، اپنا سرمایہ بیرونِ ملک رکھنے والا، بیرونی طاقتوں کا آلہ کار اور طالع آزما اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔

اسلام ہر معاملے میں اعتدال پسندی کی تعلیم دیتا ہے اور ہر شخصیت کو اس کے مقام پر رکھ کر اہمیت دینے کی تلقین کرتا ہے۔ کسی کی بھی اندھی تقلید اور حد سے زیادہ عقیدت و احترام ایمان و عقائد پر ضرب لگاتا ہے۔ عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ صرف اللہ اور اس کے سچے رسولﷺ کی بات ہی حتمی ہے اور اگر کسی پیر یا استاد کا قول قرآن و حدیث سے ٹکراتا ہے تو اسے چھوڑنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ اہلِ مکہ اور پہلی اقوام کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ ہمارے آباوٗ اجدادجو کچھ کرتے آئے ہیں وہ غلط نہیں ہو سکتااور اس کی نفی نہیں کر سکتے۔ شخصیت پرستی کی بنیاد پر اپنے اکابرین کی کتب کا دفاع تفرقہ بازی کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تبارک سے دعا ہے کہ ہمیں Hero-worship سے محفوظ رکھے۔

موضوع کے حوالے سے سیرت النبی ﷺ میں سے چند  واقعات  حسبِ  ذیل  ہیں۔
آپﷺ کے وصال کے وقت بعض ازواج مطہراتؓ نے جو حبشہ ہو آئی تھیں، وہاں کے عیسائی معبدوں کا اور ان کے مجسموں اور تصویروں کا آپﷺ سے تذکرہ کیا، آپﷺ نے فرمایا ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا ہے تو اس کے مقبرہ کو عبادت گاہ بنا لیتے ہیں اور اس کا بت بنا کر اس میں کھڑا کر دیتے ہیں، قیامت کے روز اللہ کی نگاہ میں یہ بد ترین مخلوق ہوں گے(صحیح بخاری و صحیح مسلم باب النھی عن بناء المسجدعلی القبور)۔

وفات کے وقت آپﷺ نے فرمایا’’ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا(صحیح بخاری ذکر وفات و صحیح مسلم باب مذکور سابق)۔

آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میری اس قدر مبالغہ آمیز مدّح نہ کیا کروجس قدر نصاریٰ ابنِ مریم کی کرتے ہیں، میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا فرستادہ ہوں (صحیح بخاری جلد اول صفحہ ۲۴۰)۔

قیس بن سعدؓ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حیرہ گیا وہاں لوگوں کو دیکھا کہ رئیس شہر کے دربار میں جاتے ہیں تو اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، آپﷺ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا اور عرض کی کہ آپﷺ کو سجدہ کیا جائے تو آپﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں، آپﷺ نے فرمایا کہ میری قبر پر گزرو گے تو سجدہ کرو گے؟ کہا نہیں، فرمایا تو جیتے جی بھی سجدہ نہیں کرنا چاہیے (ابو داؤد کتاب النکاح بات حق الزوج علی المرأۃ)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دفعہ آپﷺ وضو کر رہے تھے وضو کا پانی جو دستِ مبارک سے گرتا فدائی برکت کے خیال سے اس کو چلو میں لے کر بدن میں مل لیتے، آپﷺ نے پوچھا کہ تم یہ کیوں کر رہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں، فرمایا اگر کوئی اس بات کی خوشی حاصل کرنا چاہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت رکھتا ہے تو اس کو چاہیے کہ جب باتیں کرے تو سچ بولے، جب امین بنایا جائے   امانت ادا  کرے اور کسی کا پڑوسی ہے تو ہمسائیگی کو اچھی طرح نبھائے (مشکوٰۃ بحوالہ شعب الایمان بیہقی)۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply