منو بھائی بھی چلے گئے، جن کے لکھے ڈرامے دیکھ دیکھ کر ہم بڑے ہوئے اور جن کے کالم پڑھ پڑھ کر ہم نے اپنے قلم کے راستے کا تعین کیا، وہ قلم کے محنت کش چلے گئے۔ا دبی تقاریب میں نظر آتے توبہت ہی دھیمے لہجے میں، انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی دِکھتی تھی۔ان کو اپنے بڑے ادیب ہونے کا کبھی بھی فخر یا گمان تک نہ تھا۔ہمیشہ جھک کر دوسرے کی بات کو سنتے اور بعد میں اپنی بات کہتے۔ ان کے فقرے میں بلا کی کاٹ ہوتی تھی اور کبھی کبھی ان کے جملے ضرب المثال بھی بن جاتے، بے نظیر اور نواز شریف کے تقابلی جائزے پر ان کی لائن دیکھیں!
”ایک بول نہیں سکتا،دوسری سن نہیں سکتی“۔
اسی طرح ان کا لکھا ایک اور جملہ میری نظر سے کئی بار گزرا،اسے بھی دیکھیں!
”اگر کچرا کھاکے مرنے والے کتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کچرا کتوں میں بہت پاپولر ہوگیا ہے“
یہ جملہ سسکتے ہوئے دکھوں کے مارے پاکستانی عوام کی سچی تصویر ہے،ایسا بے رحم اور ننگی تلوار جیسا جملہ لکھنے کی قدرت کوئی عام لکھاری نہیں کرسکتا۔یہ منو بھائی ہی کا خاصہ ہے کہ وہ صحافت اور خبروں سے ادب کوکشید کرکرکے ہمیں اپنے فن پارے پیش کرتے رہے۔
سونا چاندی ایک شاہکار ٹی وی سیریل تھا۔ اس کے کردار جیتے جاگتے ہمارے آس پاس کے وسیب سے لئے گئے تھے۔ منو بھائی نے متوسط طبقے کے چھوٹے بڑے سبھی مسائل کو چھوا اور جوں کا توں ٹیلی ویژن پر پیش کردیا۔غور سے دیکھا جائے تو سونا چاندی کے دونوں مرکزی کردار جو گاؤں کے سیدھے سادھے،دل کے سچے، میاں بیوی ہیں ان کو اپنے سچ بولنے کی وجہ سے کئی بار نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مجھے تو ان دونوں کرداروں میں منو بھائی کی اپنی ذاتی شخصیت بھی جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ بھی تو اسی سچ کے جرم میں کئی بار نوکری سے محروم ہوئے۔ پھر اس ڈرامے کے کردار امر ہوگئے اور ایسے امر ہوئے کہ وہ کسی اور خانے میں فٹ نہ ہوسکے۔ آپ شیبا حسن اور حامد رانا کا کوئی اور یادگار کردار یا ڈرامے کا نام بتا دیں جو سونا اور چاندی سے بڑھ کر ہو۔سونا چاندی تو کیا باقی سارے کردار بھی دیکھ لیں کیا ان کو کسی اورڈرامے میں اتنا عروج ملا؟ ماما یعقوب، باجی رخسانہ، عرفان ہاشمی عرف اُنگلا،محسن رضوی عرف ڈاکٹر ڈھنکنا، غیور اختر عرف اوہو اوہو وغیرہ یہ سب کردار اس ڈرامے کے ساتھ ہی مشہور ہوئے۔اور تو اور منور ظریف مرحوم کے چھوٹے بھائی منیر ظریف کو چاچا کرمو ٹائم پیس جیسا امر کردار کسی اور نے لکھ کر ہی نہ دیا،وہ بھی سونا چاندی کے ساتھ ہی فنی ظور پر ختم ہوگئے۔
منو بھائی وزیر آباد میں پیدا ہوئے لیکن گجرات کے ساتھ ان کا خاندانی رشتہ تھا، ان کے ننھیال کنجاہ جیسی علمی اور ادبی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ماموں شریف کنجاہی صاحب پنجابی زبان وادب کے معمار کہلائے جاتے ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کنجاہ کے دامن میں شریف کنجاہی صاحب کے علاوہ غنیمت کنجاہی،روحی کنجاہی جیسے ادبی نام پہلے ہی سے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ فن سپاہ گری میں میجر شبیر شہیدو راحیل شریف، کنجاہ ہی کے نزدیک گاؤں منگوال غربی سے چوہدری اعتزاز احسن اور راقم، پنڈ جوکالیاں سے مستنصر حسین تارڑ،اسی علاقے سے سہیل وڑائچ، گجرات ہی کے انور مسعود صاحب کنجاہ کے سکول میں پرائمری کے استاد رہ چکے ہیں جہاں پہ انہوں نے اپنی شہرہ آفاق نظم ”امبڑی“ تخلیق کی۔ احمدسلیم صاحب بھی قریبی ضلع منڈی بہاؤالدین کے جم پال لیکن خود کو اب بھی ضلع گجرات کا بیٹا کہنے پہ مصر ہیں۔ یہ دھرتی فن و ادب کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے ہندوستان سے موسیقی کے میدان میں برصغیرچھوٹے استاد کا انعام جیت کر کنجاہ لوٹنے والے کا نام روحان علی ہے۔
منو بھائی اور ہمارے درمیاں ایک دریائے چناب ہی تو حائل تھا، وہ دریا کے اس پار تھے اور ہم ادھر،جیسے سوہنی اور مہینوال۔ عاشقوں کے اس دریا کے بارے میں تو روس کے دورے پر گئی ہوئی پنجابی کے مہان لکھاری امرتا پریتم سے روسی ادیبہ نے بھی پوچھ لیاتھاکہ ”سنا ہے آپ کے دیس میں بھی کوئی عاشقوں کا دریا ہے“ امرتا نے کہا ”ہاں ہے بالکل ہے جھناں کہلاتا ہے“ تو منو بھائی صاحب آپ کے وزیر آباد اور گجرات میں یہی عاشق دریا ہی تو ایک مضبوط اور محبت کا پکا رشتہ ہے۔ ویسے تو اور بھی کئی رشتے نکل آتے ہیں اگر دیکھیں تو، سجاد کریم انجم جو پہلی سے میرے ہم جماعت تھے اور پبلک ہائی سکول نمبر 1سے لے کر زمیندار کالج گجرات تک ہمارا ساتھ رہا، منو بھائی میرے اس دوست سجاد کریم کے انکل تھے۔سجاد کریم کے ہاں میرا آنا جانا رہتا تھا،ان کا گھر میرے گھر کے ساتھ والی گلی میں تھا۔ ان کے والد مرحوم بھی محنت کش اور مزدور انسان تھے۔ماربل فیکٹری میں کام کرتے اور شام کو گھر آکر کتابیں جِلد کرتے۔ یہیں انہی کے گھر منو بھائی صاحب سے پہلی ملاقات بھی ہوئی۔
منو بھائی جیسا کہ سبھی جانتے ہیں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کے والد کے اپنی ریلوے کی نوکری کے سلسلے میں شہر شہر تبادلے ہوتے رہتے تھے،منو بھائی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز راولپنڈی سے کیا اور ڈاکٹر فتح محمد ملک صاحب کیساتھ وہ اکادمی ادبیات اسلام آباد کے سٹیج پر اپنے ابتدائی دنوں کی جستجو کو بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ”ہم دونوں لیاقت باغ کے پاس اپنے اخبار کے دفترسے نکلے اور پیدل ہی گھر کی جانب چل دیے،فٹ پاتھ پر چلتے چلتے ڈاکٹر فتح محمد نے ٹھٹھک کرمنو بھائی سے پوچھا،منیر کیا تم نے بھی وہی بات محسوس کی جو میں نے کی ہے؟ تو منو بھائی بولے ہاں میں نے بھی اپنی سانسوں میں وہ مہک محسوس کی ہے جس سے ہم دونوں کئی دنوں سے نا آشنا تھے۔وہ مہک تازہ پکی ہوئی گرما گرم روٹی کی تھی جو قریبی کسی ڈھابے کے تنور سے آرہی تھی۔ ہم دونوں نے اپنی جیبیں ٹٹولیں اور جو ریزگاری نکلی اس کو جمع کرکے اس ریسٹورنٹ میں پہنچے اور تازی روٹی لے کر آدھی آدھی کرکے کھالی۔“
منو بھائی چلے گئے لیکن اپنے پیچھے مستحکم ارادہ،قوت اظہار،مستقل مزاجی،عزم مسلسل اور طویل جدوجہد کی مثالیں چھوڑ گئے۔ غربت کے ماحول سے نکل کراپنی جدوجہد اور ہمت سے اپنی راہیں متعین کیں اوراپنے بنائے ہوئے راستے پر گامزن رہنے والی یہ شخصیت اب ربّ کے حضور پیش ہوچکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دنیا میں انسانیت کی خدمت اور رہنمائی کے لیے جس مشن پر آئے تھے وہ یقیناً سرخرو ہوکرگئے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں