مودا پائین۔۔سبطِ حسن گیلانی

  مودا کافی دن ہسپتال میں رہا۔ پولیس نے دوچار چکر لگائے  پھر آرام سے بیٹھ گئی  مگر سمجھ دار لوگ سمجھ گئے کہ مودے پر یہ وبال کس وجہ سے آیا ۔ آج کل مودا اپنی لنگڑی ٹانگ سمیت دودھ دہی کی دکان پر تو بیٹھتا ہے مگر اس کے مشاغل تبدیل ہو چکے ہیں ۔ اب وہ فیس بکی دانشور ہے ۔ ایک اپنے نام سے اور دوسری  جعلی آئی ڈی سے فیس بک چلاتا ہے ۔ڈائجسٹ پڑھتا ہے ۔ نسیم حجازی کی اور تلوار ٹوٹ گئی پڑھ کر تقسیم پر خود کو اتھارٹی سمجھتا ہے۔ ہر معقول بات پر غلیظ کمنٹ کرتا ہے۔ محلے کے مولوی کا چمچہ  ہے، چندہ اکٹھا کرنے ان کے ساتھ جاتا ہے ۔ دودھ دہی کی دکان اس نے خرید لی ہے ۔ زیادہ وقت فیس بک کی نظر کرتا ہے ۔ مذہب  پر خاصی بحث کرتا ہے۔ فیس بک پر دوسروں کو لعنت ملامت بھرے کمنٹ کرتا ہے ۔ ایک نئی ابھرنے والی جماعت سے منسلک ہے ۔دوسری مخالف رائے پر لعنت ہے ایسی سوچ پر، سے اپنا کمنٹ شروع کرتا ہے ۔ جانتا ہے کہ دور بیٹھا بندہ اس کے پیچھے شوکر مارے انجن کی  طرح دوڑ کر نہیں آ سکتا ۔ وہ اپنا غصہ یوں نکالتا ہے ۔ اس کی عزت میں اتنا اضافہ ضرور ہوا ہے کہ اب محلے کے لڑکے اسے پورے نام سے تو نہیں بلاتے بس پائین مودا کہہ دیتے ہیں ۔ مگر چھوٹی عمر کے لڑکے نہیں جانتے کہ پائن مودا ترچھی ٹوپی کیوں پہنتے ہیں جس میں ان کا بایاں  کان چھپا رہتا ہے!

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply