مون سون کے سیلاب ایک موسمیاتی تباہی ہیں۔پے در پے بارشوں سے بڑے پیمانے پر سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات رونما ہوئے اور اب تک سینکڑوں افرادجاں بحق اور مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کے مطابق اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک سنگین تباہی ہے جس سے لوگوں کا ذریعہ معاش متاثر ہو رہا ہے۔ ملک میں اب اکیلے تباہی سے نمٹنے کی طاقت نہیں۔ مون سون کے سیلاب نے پاکستان میں زندگی کے تمام شعبوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مویشیوں کی تعداد میں نصف ملین سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ سیلاب نے سینکڑوں پل تباہ کر دیے، کئی کلومیٹر سڑکیں تباہ اورریلے میں بہہ گئیں۔ کئی علاقے ایک دوسرے سے کٹ گئے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا دورانیہ عموماً جون سے ستمبر تک رہتا ہے۔ یہ زراعت اور پانی کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن بار بار تباہ کن سیلاب نے تباہی مچائی دی ہے، جس کے تباہ کن اثرات مستقبل میں بہت بھیانک ہوسکتے ہیں۔ملک کی حالیہ تاریخ کے بدترین سیلابوں میں سے ایک 2010 میں آیا تھا۔ جس سے سرزمین کا پانچواں حصہ سیلاب کی زد میں آیا اور تقریباً 2000 افراد قیمتی جانوں سے محروم ہو گئے۔ تقریباً 20 ملین افراد بے گھر ہو ئے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق مون سون کی موسلادھار بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اب تک 982 افراد ہلاک جبکہ 1456 زخمی ہو چکے۔بارشوں اور سیلاب سے تباہ ہونے والے مکانات کی تعداد چھ لاکھ 82 ہزار 139 ہے۔14 جون سے اب تک مجموعی طور پر تین ہزار 82 کلومیٹر سڑکیں، 145 پل اور 122 دکانیں تباہ ہوئی ہیں۔اس کے علاوہ 6 لاکھ 70 ہزار مکانات کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے 2 لاکھ 18 ہزار مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جبکہ آٹھ لاکھ کے قریب مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ جرمن ترقی اور ماحولیاتی تنظیم جرمن واچ کے مطابق، یہ دنیا کا آٹھواں ملک ہے، جو شدید موسمی واقعات میں سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ سیلاب اور غیر متوقع بارشوں سے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے سب سے بڑے اور غریب ترین صوبے بلوچستان میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ملک میں 30 سالوں سے اس شدت کا سیلاب نہیں آیا تھا۔اس طرح صرف بلوچستان کے 34 میں سے 27 اضلاع شدید متاثر ہوئے۔ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس کے علاوہ سیلاب سے سینکڑوں اسکول تباہ ہوئے۔ باشندوں کو قدرتی آفت سے بچنے کے لیے اونچی جگہ پر پناہ لینی پڑی۔ ” متاثرین سیلاب کا کہنا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں، کیونکہ بنجر اور بڑے خطرناک پہاڑوں تک ہم کسی نہ کسی طرح نہ پہنچ پاتے تو باروچی خانوں کے برتنوں کی طرح بہہ سکتے تھے۔ اس سیلاب کی وجہ سے میں نے اپنا گھر، فصلیں اور سب کچھ کھو دیا۔ متاثرین کے مطابق اس تمام عرصے میں حکومت کی طرف سے خاطر خواہ مدد نہیں ہوئی۔ بلوچستان کی زندگی عام حالات میں بھی بہت مشکل ترین رہی ہے، عمومی حالات میں بھی ایسے علاقوں میں پہنچنا دشوار گذار ہوتا ہے اور اب سیلاب کے بعد تو جیسے وہاں پہنچنا ناممکن سے ہوگیا ہے۔ ”پہاڑوں اور دور درواز علاقوں کے متاثرین کے مطابق رضاکاروں سے کھانا اور دوسری مدد ملتی ہے۔ تاہم حکومت نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ حکومت مسلح افواج کے ساتھ مل کر امدادی کام میں مصروف ہے، امدادی سرگرمیوں کے دوران سخت حالات کا بھی سامنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا کے شمالی میدانی علاقوں میں ایک سنگین مسئلہ ہے جسے علاقائی تعاون کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن بد قسمتی سے سیاسی عزم کا فقدان ہے۔پالیسی سازوں میں محدود سمجھ بوجھ ہے، خاص طور پر ان ممالک میں محققین اور سول سوسائٹی میں دلچسپی نہ ہونے کے باعث اور معاشی اثرات کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کوو ایک اہم ایجنڈا تصور نہیں سمجھا جاتا اور اسی وجہ سے سیاسی حکومتیں اخراجات کرنے میں تامل کا شکار نظر آتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کا خطہ علاقائی لحاظ سے بدستور سیاسی بحرانوں کی زد میں ہے جو ثقافتی سے لے کر سیاسی تعاون تک ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم آگے نہیں بڑھ رہے ہیں کیونکہ کوئی رول ماڈل نہیں ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں تو پالیسی اقدامات مخصوص ضروریات کو سمجھے بغیر کیے گئے اور اس لیے وہ بڑی حد تک ناکام یا غیر موثر ثابت ہوئے۔ خطے کے رہنما سیاسی جہالت میں الجھے ہوئے ہیں۔اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگ اٹھیں اور ایسے لیڈروں کو منتخب کیا کریں جو ان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کریں جو طویل المدتی فلاح و بہبود کو متاثر کرتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی کے چیلنجز کو قبول کریں بجائے اس کے کہ معمولی جیو پولیٹیکل گیمز کھیلیں،”فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی اب صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
حکومت کے مطابق سیلاب سے تین کروڑ 60لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) کے مطابق مون سون کی بارشوں سے پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ افراد شدید متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 184,000 افراد ملک بھر کے امدادی کیمپوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔ خیال رہے کہ آپریشنل اقدامات میں سیلاب کی زیادہ سے زیادہ سطح کی بروقت پیش گوئی، ممکنہ خطرناک سطحوں کی بروقت اطلاع، آبادی اور املاک کے انخلاء کا انتظام بروقت اقدام سمجھا جاتا ہے، جس کا یہاں فقدان ہے۔ سیلاب کے نقصان دہ عوامل اور نتائج کے خلاف تحفظ کو منظم کرنے کے لیے ایک شرط ان کی پیش گوئی ہے۔ پیش گوئی کے لیے، ایک ہائیڈروولوجیکل پیش گوئی کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے – سیلاب کی کیفیت، نوعیت اور حد کی سائنسی بنیاد پر پیش گوئی حکومت کی ترجیحات ہونی چاہے۔ پیش گوئی متوقع نظام کے کسی بھی عنصر کے شروع ہونے کے تقریباً وقت کی بھی نشاندہی کرتی ہے، مثال کے طور پر، دریا کا بہاؤ، متوقع زیادہ سے زیادہ سیلاب، پانی کی بلند سطح کا ممکنہ دورانیہ اور بہت کچھ۔پیش گوئیوں کو مختصر مدت میں تقسیم کیا جانا چاہیے مثال کے طور پر 10-12 دن تک اور طویل مدتی – 2-3 ماہ یا اس سے زیادہ تک۔دریاؤں اور آبی ذخائر کے انفرادی حصوں کے لیے یا علاقائی پیش گوہی کو سائنسی بنیادوں پر جدید بنانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، جس میں سیلاب کے متوقع سائز اور وقت کے بارے میں ایک بڑے علاقے میں عمومی معلومات شامل ہونی چاہئے۔ متاثرین کی تعداد اور اس سے ہونے والے نقصانات کے لحاظ سے قدرتی آفات میں سیلاب پہلے نمبر پر ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کے لیے ان سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات آپریشنل اور تکنیکی ہوسکتے ہیں جس سے بڑے نقصانات سے بروقت بچا جاسکتا ہے۔
Thanks & Regards
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں