میکسم گورکی، جوزف اسٹالن اور لیون ٹراٹسکی۔شاداب مرتضیٰ

میکسم گورکی نے 15 نومبر 1930 کو اپنے مضمون “اگر دشمن سرنگوں نہیں ہوتا” میں لکھا:
“چالاک دشمن ملک میں خوراک کی قلت کو منظم کر رہے ہیں۔ کولاک (امیر کسان) کھیت مزدوروں کو دہشت میں مبتلا کرنے کے لیے قتل، آتش زنی اور ہر قسم کی کمینگیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ہر چیز جو تاریخ میں اپنا وقت پورا کر چکی ہے ہمارے خلاف ہے اور یہ بات اب بھی ہمیں یہ حق دیتی ہے کہ ہم خود کو ہنوز خانہ جنگی میں مبتلا سمجھیں۔ اس سے جو فطری نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے: اگر دشمن سرنگوں نہیں ہوتا تو اسے تباہ و برباد کر دینا چاہیے۔”
میکسم گورکی بالشویک پارٹی کی زراعت کی اجتماع کاری کی پالیسی کے زبردست حامی تھی اور ان کی تحریروں اور اپیلوں نے روس کے کھیت مزدوروں اور غریب اور درمیانے کسانوں میں حکومت مخالف امیر کسان طبقے کے خلاف جدوجہد کی نئی روح پھونک دی تھی۔
روس میں سوشلسٹ معیشت کے قیام کے لیے زراعت کی اجتماع کاری لازمی اہمیت رکھتی تھی جس کے راہ میں امیر کسان طبقہ سب سے بڑی اور پرتشدد رکاوٹ تھا۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاری، اکتوبر انقلاب کے فورا بعد 14 ملکوں کی فوج سے معرکے اور خانہ جنگی کے سبب روس کی معیشت تباہ و برباد ہوچکی تھی۔1917 کے اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کے دس سال بعد 1927 میں پہلی بار روس کی معیشت دس سال پرانی سطح پر واپس پہنچی تھی۔
زراعت کی اجتماع کاری کی نہایت اہم جدوجہد میں میکسم گورکی مکمل طور پر بالشویک پارٹی اور اسٹالن کے ساتھ تھے۔ ان کے اہم کردار نے ٹراٹسکی اور بخارن کو مجبور کیا کہ وہ بالشویک حکومت کو ناکام بنانے کی سازشوں میں بالشویک حکومت کے حق میں اٹھنی والی اس موثر آواز کا خاتمہ اس طریقے سے کریں جسے ان کا گروہ “تدریجی قتل” کہتا تھا۔ اس طریقہ واردات کا نشانہ تین افراد تھے: میژنسکی، میکسم گورکی اور ان کا بیٹا میکسم پشکوو۔
بالشویک حکومت کے خلاف سازشیں کرنے کی وجہ سے جب 1929 میں ٹراٹسکی کو ملک بدر کیا گیا تو اس نے میکسم گورکی سے درخواست کی کہ وہ کیپری، اٹلی، میں اس کی رہائش کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور اٹلی کی حکومت سے اس بارے میں بات کرے۔ تاہم، میکسم گورکی جو ٹراٹسکی کے ردِ انقلابی کردار سے بخوبی واقف تھے انہوں نے اس کی درخواست مسترد کردی۔
سال 1920 میں روسی ادیبوں کی انجمن “پرولتاری لکھاریوں کی روسی تنظیم” کا قیام عمل میں آیا جس میں بالشویک حکومت کے مخالف ترمیم پسندوں اور ٹراٹسکی نوازوں کا غلبہ تھا۔ اس تنظیم نے اپنے ادبی رسالے On Literary Guard کے ذریعے بالشویک حکومت کی پالیسیوں سے اتفاق رکھنے والے ادیبوں اور لکھاریوں کو نشانہ بنایا جن میں سوویت یونین کے قومی شاعر ولادیمیر مایاکوفسکی، مائیکل شولوخوف اور میکسم گورکی بھی شامل تھے۔
اس تنظیم کا سربراہ لیوپولڈ ایورباخ تھا جو ایک ٹراٹسکی نواز تھا۔ رابرٹ اسٹیسی اپنی کتاب “روسی ادبی تنقید: ایک مختصرتاریخ” میں لکھتے ہیں کہ “ایورباخ نے ابتدائی سوویت روسی ادب پر حقیقتا آمریت مسلط کی” اور” ایورباخ کی 1923 میں شائع ہونے والی پہلی کتاب ٹراٹسکی کے پیش لفظ کے ساتھ سامنے آئی “۔
یہودیوں کی نسل کشی کے حوالے سے نورالیون اپنی کتاب “سوویت یونین میں یہودی 1947 سے: بقاء کے المیے” میں لکھتی ہیں کہ “1937 میں ایورباخ کو ٹراٹسکی کے ایجنٹ کی حیثیت سے بے نقاب کیا گیا جس کی غلطیوں سے سوویت ادب میں تخریب نے جنم لیا”۔ وکٹر ٹیرس اپنی کتاب “روسی ادب کا کتابچہ” میں لکھتے ہیں کہ “ایورباخ ادبی معاملات میں اپنے برتاؤ  کے اعتبارسے ایک جابرعقیدہ پرست اورفرقہ پرست انسان تھا”۔
ان ٹراٹسکی نواز ترمیم پسندوں، خصوصا ً زینوویو کے ہاتھوں میکسم گورکی کو ایذارسانی کا عمل جب ناقابل برداشت ہوگیا تو 1921 میں میکسم گورکی ملک چھوڑ کراٹلی چلے گئے۔
جین ورنسکایا اورولادیمیرچوگوو کی کتاب “سابقہ سوویت یونین کی سوانحی لغت: 1917 سے اب تک تمام شعبوں میں ممتاز افراد” کے مطابق “زینوویو، پیٹروگراڈ کے مقامی آمر، کے ساتھ اس کے (میکسم گورکی کے) تعلقات اس قدرخراب ہوگئے کہ 1921 کی خزاں میں وہ روس چھوڑکرچلا گیا۔”
انتھونی تھارلبی اپنی کتاب “پنگوئن ادبی ساتھی” میں لکھتے ہیں کہ “سرکردہ بالشویکوں (زینوویواورکامینیو) کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجہ سے گورکی 1921 میں دوبارہ ملک سے باہرچلا گیا”۔
ڈان لیون اپنی کتاب “میکسم گورکی کی زندگی اورکام” میں بیان کرتے ہیں کہ “گورکی نے نئے مالکوں میں سے ایک، زینوویو، کو اپنا جانی دشمن بنا لیا” اور “کامینیو نے زینوویوکی حمایت کی۔ یہ سوویت روس میں گورکی کی حالت کی کمزوری تھی، بددلی اورمایوسی تھی، نا کہ اس کی گرتی ہوئی صحت، جس نے بالآخراسے 1921 میں جانے پرمجبورکردیا۔”
فروری 1928 میں ترمیم پسندوں کی اس تنظیم کے رسالے میں میکسم گورکی کے بارے میں کہا گیا کہ وہ “طبقاتی شعورسے محروم آدمی ہے”۔ اس تنظیم کے سربراہ ایورباخ کے  رسالے The Present میں گورکی پراس کے حملوں کو سائبیریا کے ادیبوں کی انجمن نے شائع کیا جس میں اسے “ایک شاطر، خفیہ دشمن” قراردیا گیا۔
واہن جیمز کے مطابق گورکی کے خلاف ان ترمیم پسندوں کی مہم میں “گورکی کوطبقاتی دشمن قراردیا گیا اورکہا گیا کہ وہ سوویت مخالف عناصرکا محافظ ہے”۔ اس موقع پر بالشویک پارٹی نے مداخلت کی اورایک قرارداد جاری کی جس کا عنوان تھا: “سائبیریا کے ادیبوں اورانجمنوں کے ایک حصے کے میکسم گورکی کے خلاف بیانات کے معاملےپر”. اس قرار داد میں اس ترمیم پسند ادبی تنظیم کی سائبیریا کی شاخ کو سختی سے اس عمل پرملامت کی گئی۔
گورکی کے ملک سےباہررہنے کے دوران اسٹالن نے ان سے رابطہ قائم رکھا اوران کی ہرممکن مدد کی۔ مثلا جنوری 1930 میں اسٹالن نے گورکی کو خط میں لکھا کہ “مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کوروس سے ایک ڈاکٹردرکارہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟ آپ کون سا ڈاکٹرچاہتے ہیں؟ ہمیں بتائیے ہم اسےبھیج دیں گے۔”
اسی طرح 24 اکتوبر 1930 کو اسٹالن نے گورکی کو اپنے خط میں لکھا کہ “لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ انتشار پھیلانے والوں کے خلاف ایک ڈرامہ لکھ رہے ہیں اورآپ برا نہیں منائیں گہ اگرآپ کواس بارے میں کچھ مواد بھیجا جائے۔ میں نے انتشار پھیلانے والے عناصر پرکچھ مواد جمع کیا ہے اورآج میں اسے آپ کوبھیج دوں گا۔ وہ جلد ہی آپ کو مل جائے گا۔ آپ کی صحت کیسی ہے؟ آپ کب سوویت یونین واپس آنے کا سوچ رہے ہیں؟”
اس کے جواب میں 2 نومبر 1930 کو گورکی نے اسٹالن کوخط میں لکھا کہ “میں تباہی پھیلانے والوں کی نئی سرگرمیوں کو جان کربری طرح سے کانپ کررہ گیا۔۔۔۔لیکن ساتھ ہی مجھے بہت حوصلہ ہوا کہ جی پی یواورخفیہ پولیس پارٹی اورمزدورطبقے کی حفاظت کے لئے انتھک کام کررہے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنی بوڑھی ہڈیوں کوگھرواپس لے جاؤں۔۔۔موسم سرما کے دوران میری صحت کافی بہترہوئی ہے۔ میں یکم مئی سے قبل پہنچ جاؤں گا۔ میں آپ سے مضبوطی سے مصافحہ کرتا ہوں، عزیزکامریڈ”۔
ترمیم پسندوں کی 1932 میں شکست کے بعد گورکی نے روس واپس آنا مناسب سمجھا۔ لیکن ان ترمیم پسندوں کےعزائم پوری طرح ختم نہیں ہوئے تھے۔ 1934 میں میکسم گورکی کے بیٹے، میکسم پشکوو، کو قتل کرنے کے بعد 1936 میں وزیرداخلہ یاگودا کے ذریعے جوترمیم پسندوں کے حلقہ اثرمیں تھا، میکسم گورکی کوبھی قتل کردیا گیا۔ 1938 میں عدالت کے سامنے دیئے گئے اپنے بیان میں یاگودا نے کہا کہ “یانکدزے نے مجھے بتایا تھا کہ مرکز (ٹراٹسکائیٹوں اور دائیں بازو کے عناصر پر مشتمل حزبِ اختلاف گروہ) نے پولٹ بیوروکے ممبروں کے خلاف دہشت گردی کی بہت سے سرگرمیاں کرنے کا فیصلہ کیا تھا اوراس کے علاوہ میکسم گورکی کے خلاف  ذاتی طورپربھی۔ یانکدزے نے مجھے یہ وضاحت دی کہ “ٹراٹسکائیٹوں اوردائیں بازوکا بلاک” میکسم گورکی کوخطرناک شخص سمجھتا تھا۔ گورکی، اسٹالن کی قیادت کا سرگرم حامی تھا، اوراگرسازش پرعملدرآمد کیا جاتا تووہ بے شک ہمارے خلاف، سازش کرنے والوں کے خلاف، اپنی آوازبلند کرتا۔” جب عدالت میں اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ میکسم گورکی کے قتل کا اعتراف کرتا ہے تو اس نے کہا “ہاں میں اعتراف کرتا ہوں۔” میکسم گورکی کے ڈاکٹردمتری پلیتنیونے عدالت کے سامنے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے ساتھی ڈاکٹرلیولیون کے ساتھ مل کرگورکی کے جسمانی مزاحمتی نظام کوکمزورکرکے اسےموت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply