آپ کو طیبہ ، طوبیٰ اور عمران یاد ہیں؟۔۔عبید اللہ چوہدری

 دس سالہ طیبہ، وہی جو  اسلام آباد کے جج صاحب کے گھر کام کرتی تھی؟  جس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔ جلایا گیا، چھری سے زخمی کیا گیا۔ سٹور میں بند کیا گیا۔ جب اس کی پہلی تصویر منظر عام پر آئی تو ایسا لگا کہ وہ ایک جج کے گھر کی نہیں بلکہ کسی جنگل کی باسی ہو۔ یہ طیبہ ہی تھی جب کئی ایک نے اس کے والدین ہونے کا دعویٰ  کر دیا اور ایک جوڑے نے تو صلح نامہ بھی جمع کرا دیا تھا۔ اس کے مقدمے کا سپریم کورٹ نے نوٹس بھی لیا تھا۔ پھر یہ نوٹس کہیں گم ہو گیا! سات سالہ طوبیٰ جسے کراچی میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، زیادتی کے بعد جس کی گردن اور ہاتھ کی نسیں بھی کاٹ دی گئی تھیں. آٹھ سالہ عمران جسے فیصل آباد کے ایک دینی مدرسے میں اجتماعی زیادتی کے بعد برہنہ حالت میں تیسری منزل سے نیچے گلی میں پھینک کر مار دیا گیا تھا، جس کی نعش کئی گھنٹے گلی میں ہی پڑی رہی۔ اب قصور کی زینب کا سانحہ سامنے آیا ہے۔ زینب سے قبل اسی علاقے میں ایک سال کے دوران 11 معصوم بچیوں کو اسی علاقے میں درندگی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ سخت نوٹس بھی ہوئے مگر قاتل نہ  پکڑے گئے۔ انسانیت تو اس وقت شرمندہ ہوئی جب DPO نے کہا کہ آپ کی بیٹی کی نعش مل گئی ہے۔ آپ کانسٹیبل کو 10 ہزرا انعام دیں۔ اس کا مطلب ہے کئی بچیوں کی نعش بھی نہ  مل سکی ہو گی۔ اب تو ماں باپ اس بات کا ہی شکر کریں کہ نعش مل جاتی ہے۔

یہ پڑھیں  یہ بچے کس کے بچے ہیں؟۔۔نادر گوپانگ

افسوس صد افسوس !ایسی حکمرانی اور ایسی پولیسنگ پر۔ حکمرانوں کا کیا ہے؟ سازش کہہ کر ذمہ داری سے مکمل آزادی اور پھر وہی دن اور وہی رات۔ کسی مردہ معاشرے اور بے حس ریاست میں مجرم اگر جج، جرنیل، وڈیرا، سرمایہ دار، مولوی، میڈیا کا گارڈ فادر یا کوئی ” انتہائی شریف” سیاست دان ہو آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اگر غلطی سے ان پر مقدمہ بن بھی جائے تو ان کی ایک ایک پیشی پر دو دو کروڑ کا خرچہ آتا ہے۔ نجی جہاز، اور پھر 42 گاڑیوں کا قافلہ۔ اس پر زندہ باد کے نعرے بونس میں، کوئی بھی ان کے خاندان والوں، سسرالیوں، بیوی بچوں اور ان کے ملازمین سمیت ان کے پالتو جانوروں “کتوں” کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اب پھر وہی ہو رہا ہے۔پنجاب حکومت زینب کیس میں بھی ویسی پھرتی دکھا  رہی  ہے  جیسے 2015 میں قصور کے بچوں کے سیکس ویڈیو سکینڈل میں دکھائی تھی۔ اب بھی ایسی ہی کارروائی  ڈالی جائے گی کہ سب شانت ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ ملک کے سب حکمران ہی ایسا کرتے ہیں۔ مگر پنجابی اشرافیہ کواس ہنر میں ملکہ حاصل ہے اب اس دھندے میں مین سٹریم میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

یہ پڑھیں  طالبات سے جنسی زیادتی اور ہمارا قومی بیانیہ ۔ عبید اللہ چوھدری

دانشوروں کا کیا ہے وہ تو سیٹھ کے ملازم ہیں۔ ان کا لالچ بھی ناقابل علاج ہو چکا ہے۔ رہے عوام تو ان کا جوش تو ہمیشہ ہی بلبلہ ثابت ہوتا ہے۔ زبان کے شیر اور عمل کے زیرو ۔۔۔ اور یہ ہے وہ عوامی کمزوری جس کا حکمران بھر پور فائدہ اٹھاتے تھے۔ اب بھی اٹھا رہے ہیں اور لگتا ہے آئندہ  بھی اٹھاتے  ہی رہیں گے۔  لگتا تو ایسے ہے کہ معاشرہ اور موجودہ نظام حکومت  کاری دونوں ہی دفن ہونے جا رہے ہیں۔ اب انقلاب مزدور یا کسان یا غریب لے کر نہیں آئیں گے۔ حالات بدل گئے ہیں اب تعلیم یافتہ نوجوان کو آگے آنا ہو گا۔  اب وہ ملک سے فرار ہو نے کی بجائے منظم ہو کر اٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نظر نہیں آتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ یہ مشورہ ہے دعوت نہیں!

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آپ کو طیبہ ، طوبیٰ اور عمران یاد ہیں؟۔۔عبید اللہ چوہدری

Leave a Reply