آنندی نے ماسٹر رول بالکل اوپر سے پڑھنا شروع کیا۔ یہ تیسری بار تھا۔ گاؤں کا نام بانگئی بیڑا، بلاک انگڑا۔ عورت کا نام بھی وہی تھا — جاموئی دیوی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے چھریرے بدن، سانولے رنگ اور سفید دانت والا چہرہ گھوم گیا۔ جس دن وہ گاؤں میں پہنچی تھی اسی دن ملاقات ہوئی۔ گاؤں خالی تھا، پتہ چلا سب تالاب کھودنے گئے ہیں۔ سب سے نیچے ایک عورت تسلے میں پتھر بھر رہی تھی۔
”کتنے بھرے گی؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”جتنے اٹھا سکے گی۔“ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
پورا تسلا سر پر اٹھاکر تالاب کی گہرائی سے چڑھتی، پھر بہت دور جاکر پتھر پھینک کر آتی ہوئی جاموئی کو اس نے ڈرتے ڈرتے روک کر پوچھا — ”سنو، میں تم لوگوں کو پڑھانے آئی ہوں۔“
وہ صرف انکار سننے کے لیے تیار تھی مگر جاموئی نے کہا تھا — ”ایک لالٹین لگے گی۔“ اس کے چہرے پر حیرانی دیکھ کر بولی — ”رات کو پڑھیں گے۔“
”رات کو پڑھاکر میں واپس کیسے جاؤں گی؟“ اس نے پوچھا تھا۔
”مت جانا، ہمارے یہاں رہنا۔“ اس وقت آنندی کو اپنے دوستوں کی چیتاؤنی بھی یاد آئی تھی — ”آدی واسی چھیتر میں مت جانا۔ وہاں کون پڑھنا چاہتا ہے۔ آدی واسی چاہتے ہی نہیں کہ وہ اُنّتی کریں۔“
اسے غصہ آیا تھا۔ ایک تو سرکار انھیں مفت پڑھائے اوپر سے ان کے ناز نخرے بھی سہے۔
سب کچھ وہی تھا، تو پھر ڈیٹا کیسے صحیح ہوسکتا تھا، اس نے نیچے تک نظر دوڑائی۔ تقریباً سارے نام جانے پہچانے لگے۔
اس بات کو چار سال ہوگئے تھے۔ اس بار آنندی نریگا کا سروے کروا رہی تھی۔ نریگا، جو گاؤں میں روزگار کے مطلب بدل دے گا۔ جس سے ہجرت بند ہوجائے گی۔ ہر خاندان کو 100 دن کام ملے گا۔ غریبی ریکھا کے نیچے جینے والے لوگوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ ماسٹر رول پر، کام کرنے والوں کے نام کے ساتھ ان کو دی گئی ایک دن کی نیونتم دیہاڑی اور ان کے انگوٹھے کا نشان۔ سرکار کی طرف سے ضروری لکھا پڑھی۔ لیکن اس نے اپنے این جی او کے کاریہ کرتاؤں سے ہر مزدور کا شکچھا استر بھی درج کرنے کے لیے کہا تھا۔
آنندی نے پانچ چھ مہینے کے ماسٹر رول جانچنے شروع کیے۔ پورے گاؤں کا حساب لکھا تھا۔ ہر مزدور نے جتنے بھی دن کام کیا تھا اتنے دن کے پیسوں کی پراپتی اور آگے انگوٹھے کی چھاپ۔ شکچھا استر کے کالم میں کاریہ کرتا کے ہاتھ سے لکھا تھا — ”نرکچھر۔“
لیکن جاموئی دیوی کو تو اس نے خود پڑھایا تھا۔ چار سال پہلے جب وہ سروشکچھا ابھیان کی ’والنٹیئر‘ بن کر انگڑا بلاک، ضلع رانچی میں آئی تھی۔ صرف جاموئی دیوی ہی نہیں، بونگئی بیڑا کی ساری عورتوں کو، گھر گھر جاکر، انہی کے گاؤں میں چھ مہینے رہ کر انھیں شاکچھر کیا تھا۔ جاموئی دیوی تو چھ ماہ میں تیسری کی کتاب پڑھنے لگی تھی۔ آنندی کو کتنی آشا تھی کہ ایک دن وہ اپنے گاؤں کی گرام سیویکا بنے گی۔ ہنس مکھ، دلیر، پرانے تانبے کی رنگت اور گٹھیلے مضبوط شریر والی جموئی، جو پیٹھ پر چالیس کلو کی بوری اٹھائے، یوں بتیاتی ہوئی چلتی تھی جیسے بالوں میں پھولوں کا گجرا باندھے ہو۔
جس نے ہسیہ اتارکر، اس تیندوئے کے منہ میں گھسا دی تھی جو ان کی طرف تاک کر ان پر جھپٹا تھا۔ جسے صاف سفید ساڑھی پہن کر، کالے بالوں کے کسے ہوئے جوڑے میں، لال جبہ پھول باندھ کر، رات بھر ناچنے کا شوق تھا۔
آنندی نے اپنے ’ڈک بیک‘ کا جھولا اٹھایا، بٹوئے میں پیسے دیکھے اور بس سٹاپ کی طرف چلی۔ بھلا ایسے کیسے اپنی محنت کا نکارا جانا سہہ لیتی؟
گلی کے موڑ سے جاموئی دیوی کی اونچے کنٹھ کی جھنکار بھری آواز آرہی تھی۔ شاید کسی کو تھوڑا ڈانٹ کر کچھ سمجھا رہی تھی۔ آنندی زور سے پکاری — ”جاموئی!“بیچ کے چار سال نہ جانے کہاں کھو گئے۔ جاموئی دوڑتی ہوئی آئی اور اس سے لپٹ گئی۔ پھر بنا کچھ کہے اپنے کھپریل کی چھت والے، مٹی کے کچے گھر کی طرف لپکی۔ آنندی کے پہنچنے سے پہلے وہ سیتل پاٹی کا ایک ٹکڑا لیے ہوئے باہر آگئی اور جھک کر بچھانے ہی لگی تھی کہ اچانک ٹھٹھکی۔ سکوچائی سی، ایک جگہ کھڑی آنندی کو دیکھا اور پھر جیسے سب کچھ سمجھ کر نظریں جھکا لیں۔
ان دونوں نے مل کر اس بلاک کو ساکچھر کرنے کا سپنا دیکھا تھا۔ کتنا کچھ سیکھا تھا مہانگر کی جنمی اور وہیں پلی بڑھی آنندی نے یہاں۔۔۔خالی زمین پر بیٹھنا، سیتل پاٹی پر چادر بچھائے بنا سونا، تالاب میں کپڑے پہنے ہوئے نہانا، بنا ترکاری سبزی کے نمک کے ساتھ چپچپاتا بھات نگلنا اور اسے کھانا کہنا۔ مہانگر کی سطحی زندگی کو کاٹ کر پھینک پائی تھی وہ اس گاؤں کے سہارے اور بدلے میں کیا دیا تھا؟ کیول ساکچھرتا! اس بھروسے پر کہ شکچھت جن جاتیاں خود اپنے لیے ترقی کی راہ کھوج لیں گے اور جو راہ، جو ڈگر یہ خود کھوجیں گے وہی ان کی ترقی کی اصلی راہ ہوگی۔ سوچی سمجھی، جانی پہچانی، سویم کی سرجن کی ہوئی پرگتی۔ اس انّتی میں جس کا بھی یوگدان تھا، اسے کیوں واپس لوٹا دیا گیا تھا؟ آنندی کو ایسا لگ رہا تھا جیسے جاموئی نے اس کے وجود کو ہی نکار دیا ہو۔ دکھ اور پیڑا سے وہ بلبلا اٹھی تھی۔
”کیوں جاموئی؟ اس طرح کا جھوٹ کیوں؟“
جاموئی نے سوال نہ سمجھنے کی ڈھکوسلے بازی میں وقت ضائع نہیں کیا۔
”آدی واسی کو بٹھاکر کون کھلائے گا؟ کام تو کرنا ہی پڑتا ہے۔“
”نریگا کا کام تو کھلا ہے نہ پنچایت میں، اور پڑھنے کا کام سے کیا سمبندھ ہے جو اسے چھپانا پڑے۔“
”ساکچھر کو کام نہیں دیتے۔ کنواں کھودو، تالاب کھودو، سڑک بناؤں، سرکار ایک دن کا 82 روپے دیتی ہے۔ تین فٹ نیچے پتھر نکل آتا ہے اسے پھوڑنے کا پچیس روپیہ اور ملنا چاہیے۔ نہیں دیتے۔ کھدی ہوئی مٹی پتھر کو دور پھینکنے کا پچیس روپیہ اور ملنا چاہیے۔ نہیں دیتے۔ ایک دن کا 82 بھی نہیں دیتے۔ ہاتھ میں بس چالیس آتا ہے۔ ساکچھر ہو تو یہ سب دھوکہ دھڑی پر شاید آپتّی کرو، اپنا جائز حق مانگوگے، شاید آندولن کر دو، آواز اٹھاؤ، گٹ بنالو، بلاک میں عرضی دے آؤ۔ اس لیے ساکچھر کو کام نہیں دیتے۔ ہر جگہ گہار لگاکر دیکھ لیا، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ گھر سے پانچ میل دور بھی کام کرنے کی کوشش کی۔ ساکچھر ہو، یہ جانتے ہی بات بند۔“
”نریگا کا کام تو پنچایت پردھان کو ملا ہوگا۔“ اس نے کہا۔
ایک اداس سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی — ”جہاں آدی واسی کو لوٹنے کی بات ہو وہاں کوئی اپنا نہیں ہوتا — میٹ، پردھان، بی ڈی او، سب کو کہہ کر دیکھ لیا۔ کام نہیں تو بھات نہیں، نمک نہیں، گھاٹو بھی نہیں۔ کیا کریں؟ نرکچھر بن کر ایک سمے کھائیں یا ساکچھر ہونے کا ڈنکا پیٹ کر بھوکے مریں؟“
اپنی میز کے ٹھیک سامنے بڑے اکچھروں کے پوسٹر کو آنندی دیر تک تاک رہی تھی۔ امرتیہ سین کا کوٹیشن تھا — ’سکچھت لوگ خود پرگتی کا مارگ کھوج لیں گے، اپنا بھوشیہ طے کریں گے۔‘ آنندی نے ہمیشہ اس کوٹیشن کا پورا وشواس کیا تھا۔ آج پہلی بار اسے اس کی سچائی پر شک ہورہا تھا۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں