ہبوط۔۔ابن ِ نیاز

پھاوڑا لگا اور پھاڑتا چلا گیا۔ نشیب و فراز سب برابر کر دیے گئے اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیاگیا۔ کچھ سوراخ ہوئے، کہیں پہ دراڑ پڑی۔ کہیں سختیاں آئیں لیکن محنت اور لگن کے سامنے ہر سختی ہیچ ہو جاتی ہے، تو یہاں بھی ہر سختی ضرب غضب کی بدولت چور چور ہو کر بکھرتی چلی گئی۔ جو بکھر نہ سکی اس کو راستے سے ہٹا کر کہیں کنارے پر رکھ دیا گیا کہ پھر کسی وقت اس سے نمٹا جائے گا۔ سختی در سختی یکے بعد دیگرے رکاوٹیں ڈالنے کے لیے آتی رہیں، لیکن ہمتِ  مرداں مددِ خدا کے ہوتے ہوئے سب کو یا تو پاش پاش کر دیا گیا یا پھر ان کا آپس میں ملاپ اس طرح کر دیا کہ کسی اور طرف ان کی توجہ ہی نہ ہو سکے۔
وہ گول تھا یا شاید بیضوی، مگر اندر سے سفید تھا، اوپر سے سیاہ۔ ۔لیکن اس کو اپنی رنگت کے اس فرق پر بھی ناز تھا۔ کیونکہ وہ آدم سے بالکل الٹ تھا جو اوپر سے سفید ہوتا ہے اندر سے سیاہ۔ جس طرح دل سیاہ ہوتا ہے پہلے تھوڑا سیاہ اور پھر سیاہی بڑھتے بڑھتے مکمل سیاہ۔۔
وہ حجم میں چھوٹا تھا ،مگر اسے کوئی فکر نہیں تھی۔۔ کیونکہ اس نے تو بڑے بڑوں کو زمین کی دھول چاٹتے دیکھا تھا اور چھوٹوں کو آسمان چومتے دیکھا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا نصیب اچھا ہوا تو وہ بھی ایک دن نیلا آسمان دیکھے گا۔ وہ تو بس ایک قطرے کے انتظار میں تھا۔ تب تک وہ نشیب میں صرف پڑا ہی نہیں بلکہ نشیب میں ہی چادر اوڑھ کر محو ِاستراحت ہو گیا۔
ایک بوند گری، پھر ایک اور گری، پھر گرتی گئی۔ بوند بوند نے ہر سو مہکار پھیلا دی۔ کچے میں گری تو مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نے اذہان کو معطر کر دیا۔ اور پکے میں گری تو تعفن کو بہا کر دور کہیں گرا آئی۔ بوند کی اپنی بھی ایک مہک ہوتی ہے جس کے بہت سے عاشق ہوتے ہیں۔ اسی بوند کا مٹی سے بھی عشق ہوتا ہے۔ اسی بوند کا سسکتے اور جلتے بدن سے بھی رشتہ ہوتا ہے۔ کسی بدن پر پڑتے ہی تڑپ بڑھ جاتی ہے تو کہیں وہ سختی کو نرمی میں بدل دیتی ہے۔
پھر جو روایتی سختی تھی، جس کو ضرب غضب نے ننھی سی کھائیوں اور دراڑوں میں بانٹ دیا تھا اور وہ اتنی ضربوں سے بس ایک قطرے کی بدولت نرمی میں بدلنے کو تیار تھی، نرمی میں بدلی اور بدلتی گئی۔مگر مجال کہ اپنی جگہ سے ہلی ہو۔
ہاں، بدلاؤ ضرور آیا، تہہ و بالا کا، نشیب و فراز سب تہہ و بالا ہوئے۔ قطرے نے سفید گولے کو چوما، جو عالم رویا کی سیر کر رہا تھا۔ گولے نے ایک انگڑائی لی اور ٹھنڈے لمس سے محظوظ ہوتے ہوئے اپنے آپ کو پھیلا دیا۔

لمحے بدلتے گئے۔ گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک ٹک اپنے محور کے گرد چکر لگاتی رہیں۔ وہ نہیں تھکتیں، اگر ان کی پوجا وقت پر ہوتی رہے۔ وہ چلتی رہتی ہیں اور چلتی رہتی ہیں۔ سوئیوں کے گرد شیشے کے خول پر مٹی پڑ جاتی ہے مگر ان سوئیوں کی زندگی رکتی نہیں۔
سورج نے بھی بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تمازت دکھائی۔ صبح سویرے خنکی کو چیرتا ہوا عروج کی جانب گامزن ہوا۔ بڑے طمطراقانہ انداز میں ہر ظلمت کدے کو تار تار کرتا ہوا اوپر، اور اوپر بڑھتا گیا۔ مگر تکبر کے زعم میں بھول گیا کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ وقت کے خالق کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے  کاانداز پسند نہ آیا اور اس کی قسمت میں زوال بھی لکھ گیا۔ ایسا زوال کہ  اس کو پھر ہر روز ظلمت کدے سے لڑ کر اُبھرنا پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کو بھی عروج کی طرف گامزن ہونا تھا جو نیچے کہیں زیر ِدست تھا۔ قطرہ قطرہ پیتا رہا، عالمِ  مدہوشی بھی اسے آسمان ہی نظر آتا رہا۔ ایک دن وہ جذبات میں پھٹ پڑا۔ اپنے اوپر منوں بوجھ کو در خورد اعتناء نہ سمجھتے ہوئے اسے تہہ و بالا کرتے ہوئے، وہ نازک مزاج کوہ کنی میں گویا ڈھل گیا۔ لیکن اس کوہ کنی کا نتیجہ عروج تھا، پاتال نہیں۔
جونک لگ ہی جاتی ہے جب کوئی بہت پَر پھیلاتا ہے ،بشرطیکہ وہ پتھر نہ ہو۔۔ اس کو کیسے نہ لگتی۔ لیکن پہلے وقت نے ایک کھیل کھیلنا تھا۔ اس لیے جب وقت کے گھیراؤ نے اپنا گھیرا مکمل کیا تو وہ بھی نکلا اور عروج کو چھونے کی جدو جہد میں جی جان سے لگ گیا۔ کوشش فرض ہے نتیجہ خالق پر۔ اس کے ساتھ دینے والے بہت تھے۔ سب ایک ترتیب سے اپنی اپنی قطار میں لگے تھے اور سر توڑ کوشش میں مصروف تھے۔
پھر ایک آواز نکلی اور رنگ اُبھر آیا۔ خوبصورت رنگ، زندگی کا رنگ، وہ رنگ جس کی بدولت معصیت پرستوں کو  مغفرت کی شفا ملتی ہے۔ یہ دیکھ کر عروج کو بھی جوش آیا اور اسے آبِ  حیات سے مزّین کیا۔ اپنے زعم میں طائر لاہوتی کی مانند اوپر اور بلند ہوا۔ اس کے ساتھ اس سفر میں اور بھی تھے۔ فرق جو ان میں روا ہوا ،وہ چھوٹے بڑے کا تھا۔ عروج اگر تکبر کا ہو تو بلند ہوتے ہوئے نظروں میں چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔ بنیاد کے ساتھ تو وہ بڑا دِکھتا تھا لیکن اس کی انا نے کہ کوئی اس کو چھو نہ پائے، اس کو نظروں سے دور کر دیا تھا۔ بہت چھوٹا کر دیا تھا۔
زیست کا یہ سفر پسینے کا تھا۔ اس لیے صغیر سے کبیر کا سفر تھا مگر درحقیقت کبر کا سفر تھا۔ کبر جو صرف اِلٰہ کو روا ہے اکبر کو کیسے پسند ہوتا۔ زندگی کے اس سفر میں زندگی کی صعوبتیں شامل ہونا شروع گ ہو تو پھر وقت نے بھی اپنا بھیانک چکر شروع کیا۔ گردشِ دوراں نے اس سفر کو بھول بھلیوں میں اٹکا دیا۔ نہ راستہ ملا ،نہ نکل سکا۔
گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک وقت کے گزرنے کا بتاتی رہی۔ وقت جو کسی کے لیے نہیں رکا۔ کوئی اگر سنبھل گیا تو کامیاب ٹھہرا، کوئی پھسل گیا تو کامیابی کی حسرت لیے گزر گیا۔ گھڑی کی سوئیوں کی وہی ٹک ٹک جاری رہی۔ پھر مٹی سے اٹا ہوا اوزار جو وقت مقررہ پر کبھی دستِ مشقت میں نظر آتا ہے، آج پھر چمک رہا تھا۔ جب اَنا اور غرور کا چکر نہ تھما تو وقت نے دھیرے سے پلٹا کھایا اور افلاکی سفر کی تکمیل ایک ارضی دستک پر منتج ہوئی۔ ۔۔ ٹھک ٹھک ٹھک۔۔ نے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply