ہم جیسے لوگ کہاں جائیں

اے میرے دوست ! تنویر سپراء نے کہا تھا
شیشے دلوں کے گرد تعصب سے اٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے
قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے
لا یستوی الاعمی والبصیر۔اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں۔ میں ہر اس شخص کوروشن دماغ شمار کرونگا جس کے پاس دیکھنے،سوچنے اور لکھنے کی طاقت ہے ۔ہم جیسے لوگ کسی کو بھی قبول نہیں ہیں۔ ہم نے تو ناموں تک کی تقسیم کر لی ہے ۔ سنی نام، بریلوی نام ، شیعہ نام ، اہلحدیث نام۔ العیاذ باللہ۔ میں اگر اہل البیت کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کے نام علی اور حسین رکھوں یا محرم کے مہینہ میں آنکھ اشک کی نعمت سے لبریز رہے تو اپنے لوگوں میں تشکیک کی نظر سے دیکھا جاوں ۔ اور اگر تیسرے بیٹے کا نام عمر رکھوں تو شیعہ دوستوں سے محرومی کا دکھ اٹھانا پڑے، جنید جمشید کی موت پر دکھی ہو لوں تو ناصبی اور خارجی کہلاوں۔میلاد کے نمو پاتے طریقہ کی مزاحمت میں قلم اٹھاوں تو فوراگستاخ،منکر،وہابی کے فتوے لگ جائیں گے ،لیکن یہ سب اسراف اس نبی کے نام پر کیا جا رہا ہےجن کا ایک ایک دینار صدقہ پر لگتا تھا ، فلاح انسانیت پر لگتا تھا، بھوکوں کو کھانا کھلانا جس نبی کا افتخار تھا۔
گذارش صرف اتنی ہے کہ اس جشن کے لیے مختص رقم کے دو حصے کرلیجیے ۔ ایک حصہ نبی کے ان امتیوں کے لیے جن کے گھر میں چولھا مشکل سے جلتا ہے کہ بھوک انسان کوکفر تک لے جاتی ہے۔اور دوسرا حصہ جشن منانے کے لئے، میرا خیال ہے ایسا کرنے سے اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ خوش ہونگے۔ایک دوست نے کہا لنگر بنا کر غریبوں میں ہی تو بانٹا جاتا ہے ۔ جناب آپ کی بات درست مانتا ہوں لیکنپکا پکایا لنگر ایک یا دو دن کے لئیے قابل استعمال رہتا ہے ،بعد میں خراب ہو جاتا ہےاگر یہ لنگر commudity کی صورت میں کسی غریب کے گھر پر بھجوا دیا جائے تو زیادہ کار آمد ہے۔انہیں صرف ایک ہی دن تو بھوک نہیں لگتی پیٹ کا جہنم روزانہ کی بنیاد پر دہکتا ہے۔ گلناز کے الفاظ میں ایک غریب کی آواز سنیے
گوتم,میرے نال دھڑ وٹا لئے
سنیا اے تینوں بھکھ نہیں لگدی
۔میرا ایک دوست بریلوی ہے ان کے والد امام احمد رضا صاحب کے شیدا ہیں وہ میلاد کے اس نمو پاتے طریقہ کو اور ہماری مرضی کی چیز کو روکنا چاہیں یادوست احباب کو امام احمد رضا صاحب کی بات یاد دلانا چاہیں تو منکر قرار پائیں۔
حضرات! آپ ہی بتائیے ایک دوسرے کی کتابوں سے من مرضی کی لائینیں لے کر ایک دوسرے کو کافر، مشرک،منکر،ناصبی، ملحد،گستاخ قرار دیتے لوگوں کے درمیان کھڑے ہم جیسے لوگ کہاں جائیں

Facebook Comments

شاہد خیالوی
شاہد خیالوی ایک ادبی گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ معروف شاعر اورتم اک گورکھ دھندہ ہو قوالی کے خالق ناز خیالوی سے خون کا بھی رشتہ ہے اور قلم کا بھی۔ انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور خالق کا شاہکار ہے لہذا اسے ہر مخلوق سے زیادہ اہمیت دی جائے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا لیا تو قلم کوآسودگی نصیب ہو گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply