کّھلے میں ہگتا پاکستان/ڈاکٹر حفیظ الحسن

کچھ سال پہلے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 4.5 کروڑ افراد کو ٹائلٹ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں جسکے باعث آبادی کا ایک بڑا حصہ کھلے میں پیشاب کرتا ہے یعنی ٹوئلٹ نہیں کھیتوں یا عوامی مقامات پر۔ بھارت اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں بڑی آبادی کو ٹائلٹ یا پاخانے کی بنیادی اور بہتر سہولت میسر نہیں۔ کھلے عام عوامی مقامات پر، کھیتوں میں یا دیگر غیر محفوظ جگہوں پر پیشاب کرنے سے کئی بیماریاں پھیلتی ہیں جن میں سے ایک بچوں میں سٹنٹٹ گروتھ کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے بچے اپنی عمر کے مطابق ذہنی و جسمانی نشونما نہیں پا سکتے۔ سٹنٹ کی شکار مائیں بچے بھی معذور پیدا کرتی ہیں۔

کُھلے میں پیشاب کرنے سے اور بھی کئی بیماریاں پھیلتی ہیں جیسے کہ ہیضہ اور دیگر پیٹ کے امراض جو گندے پانی سے پھیلتے ہیں۔ ان پیٹ کے امراض سے ہر سال پاکستان میں 30 لاکھ افراد پیمار ہوتے ہیں اور لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔

افسرِ شاہی اور سپاہی جو اس ملک کے فیصلے کرتے ہیں انہیں عوام کے کُھلے میں پیشاب کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں۔انہیں شاید یہ اپنا اپنا لگتا ہو کہ وہ خود چلتے پھرتے ٹائلٹ ہیں اور ہر طرف منہ سے اور اپنی حرکات سے ہگتے رہتے ہیں۔ پالیسی سازوں کی اس طرف کوئی توجہ نہیں۔ عوامی مقامات پر ٹائلٹ کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عوام میں صفائی اور ٹائلٹ کے استعمال کے حوالے سے کوئی آگہی مہم یا اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بیرونی ممالک یا ادارے اس حوالے سے کچھ کریں تو کریں، ہماری اشرافیہ کو کوئی پرواہ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

2010 کے سیلاب کے بعد کچھ این جی اوز نے گھروں کی  تعمیرِ نو کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں ٹائلٹس بھی بنا کر دیے تاہم انکی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث یہ بھی ہاتھ سے جاتے رہے۔ حالیہ سیلاب کے بعد صورتحال مزید ابتر ہے مگر کوئی مسئلہ نہیں۔ حکومت کے علاوہ عام شہریوں میں بھی صفائی کا کوئی رجحان نہیں۔ حکومت کرتی ہے یا نہیں عوام کو تو چاہئے کہ کھلے عام پیشاب کرنے والوں کی حوصلے شکنی کرے۔ ویسے اگلی مرتبہ سوشل میڈیا یا دیگر پلیٹ فارمز پر بھارت والوں کو ٹائلٹ کے طعنے دینے سے پہلے یہ ضرور یاد رکھیے گا کہ آپ مقابلہ کس عمدہ چیز کا کر رہے ہیں اور آپکا ملک خود اس حوالے سے کہاں کھڑا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply