سولہویں پارہ مبارک میں سورہ کہف کا بقیہ حصہ اور سورہ مریم اور سورۃ طٰہٰ مکمل ہے۔
پچھلے پارے کے اختتام پر موسی اور خضر علیہما السلام کا واقعہ شروع ہوا تھا۔ اسی سے اس پارے کی ابتدا ہوتی ہے۔ ان دونوں کے سفر کے دوران بعض ایسے واقعات پیش آئے جن کی حقیقت کا ادراک موسی علیہ السلام نہیں کر سکے۔ خضر اللہ کی مشیت کی وجہ سے وہ کام کررہے تھے جو عام فہم سے ماورا تھے۔ سفر کے اختتام پر انہوں نے موسی علیہ السلام کو ان کاموں کی مصلحت اور حکمت سمجھائی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے بعض اوقات معاملات انسان کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں، وہ اللہ کے حسن تدبیر کا مظہر ہوتے ہیں، جس کا انسان فورا ادراک نہیں کر سکتا۔ اس لیے کبھی تقدیر کے فیصلے پر اللہ کو الزام نہیں دینا چاہیے۔
ایک اہم بات اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتی ہے کہ نیک آدمی کی اولاد کی بھی حفاظت کی جاتی ہے۔ والدین کی نیکی اور عبادت کی برکت سے اولاد کو دنیا اور آخرت میں بھلائی ملتی ہے۔ حدیث کے مطابق جنت میں والدین سے ملنے کے لیے اولاد کے درجے بلند کیے جائیں گے۔
اس سورت میں تیسرا واقعہ ذوالقرنین بادشاہ کا ہے۔ یہ ایک عادل، نیک اور وسیع سلطنت کے مالک بادشاہ تھے۔ ان کے دور میں یاجوج ماجوج کی قوم فساد اور بد امنی کا باعث بنی ہوئی تھی۔ اس کے سدباب کے لئے انہوں نے ایک مضبوط لوہے کی دیوار بنائی، اور یہ بھی متنبہ کر دیا کہ یہ اللہ کی رحمت کے سبب ہے۔ ثابت ہوا کہ عادل بادشاہ رعایا کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرتا ہے، اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
پھر کچھ ذکر قیامت کا فرمایا گیا کہ لوگ اپنے اعمال کی بدولت جہنم میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو سب کچھ دنیا کی فکر اور فائدے میں لگا دیتے ہیں، اور اسی پر خوش ہوتے ہیں۔ ایمان کے بغیر نیک عمل قبول نہیں ہوتے۔ شرک اکبر اور شرک اصغر یعنی ریاکاری دونوں اعمال کو ضائع کرتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کفار کے اعمال تو لے نہیں جائیں گے۔ میزان صرف مومنین اور منافقین کے لیے ہوگا۔ آخر سورت میں خوشخبری دی گئی کہ ایمان اور عمل صالح والے فردوس میں رب العالمین کے مہمان ہو نگے، اور یہ وہاں کبھی اداس (بور) نہیں ہوں گے۔
اللہ کی باتیں لکھنے کے لئے سمندر بھی ناکافی ہیں۔ اعلان کردیا کہ نبی بس ایک بندے ہیں۔ جس کو رب کی ملاقات کا شوق ہے وہ نیک عمل کرے اور ریاکاری سے بچے۔
*سورۃ مریم*
یہ سورت زکریا علیہ السلام کے ذکر سے شروع ہوئی کہ اللہ نے ان کی پکار کو سنا، اور ان کی دعا کی بدولت ان کو بڑھاپے میں اولاد عطا کی، اور اس کا نام بھی خود رکھا۔ دعا کے معاملے میں اللہ سے حسن ظن رکھنا چاہیے، پختہ یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے اور ہمیشہ عاجزی کے ساتھ اللہ کو پکارنا چاہیے۔ یحیی علیہ السلام کی خوبی بیان کی کہ یہ بچپن ہی سے قوت فیصلہ کے مالک اور نرم دل تھے۔ ان کی پاکیزگی کی بھی تعریف کی گئی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ صدق دل سے مانگی جانے والی دعا کتنے احسن طریقے سے قبول ہوتی ہے۔
پھر مریم علیہا السلام اور عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے کہ کس طرح معجزانہ طور پر وہ بغیر والد کے پیدا ہوئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کو کسی کام کے کرنے کے لئے اسباب کی ضرورت نہیں۔ اس کی قدرت ہر چیز پر محیط ہے۔ انہوں نے معجزانہ طور پر پنگوڑے میں کلام کیا۔ اپنی والدہ کی برات ظاہر کی اور اپنی نبوت کا اعلان کیا۔
اس کے بعد شرک کا بطلان کیا گیا اللہ کی قدرت کا ذکر کیا کہ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو کن کہتا ہے اور وہ ہو جاتا ہے۔ یہ زمین اور اس پہ جو کوئی بھی ہے سب کا وارث اللہ ہے۔ سب اسی کے پاس لوٹ کر جائیں گے۔ قیامت کے دن سے ڈرایا گیا اور اسے حسرت کا دن کہا گیا۔ اس دن کافر ایمان نہ لانے پر حسرت کریں گے، اور مومن اس پر حسرت کریں گے کہ اور زیادہ نیکیاں کیوں نہ کی۔
ابراہیم علیہ السلام اور ان کے والد کا ذکر کیا گیا کہ کس طرح انہوں نے اپنے والد کو شرک سے روکا، توحید کی دعوت دی، اور ہر قسم کے شرک سے برات کا اعلان کیا۔ ان کی آزمائش کے صلے میں نیک اولاد عطا کی گئی، اور اس اولاد کا بھی ذکر خیر بلند کیا گیا۔
پھر موسی علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام اور ادریس علیہ السلام کا ان کی نمایاں خصوصیات کے ساتھ ذکر ہوا۔ ان سب پر اللہ کا انعام ہوا تھا اور یہ ہدایت یافتہ تھے۔ ایک صفت ان کی یہ تھی کہ اللہ کی آیات سن کر روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔
اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر ہے جو انبیاء کی نسلوں میں تھے لیکن نماز سے سستی کرتے تھے اور خواہشات کی پیروی میں پڑے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کو نالائق اولاد کہا گیا۔ ایسے لوگوں کے لئے جہنم کی ایک وادی “غی” کی وعید ہے۔ ابن مسعود کے مطابق یہ وادی نماز کو ضائع کرنے والوں کے لیے خاص ہے۔ نماز کو تاخیر سے پڑھنا بھی اس کو ضائع کرنے کے برابر ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر ایمان اور نیک عمل نہ ہو تو انبیاء کی نسل سے ہونا بھی فائدہ نہیں دیتا۔
توبہ اور ایمان والوں کے لئے جنت کی بشارت ہے۔ جنت میں کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی۔ نہ ہی کوئی بے کار اور لغو گفتگو ہوگی۔ متقین ہی اس کے حقدار ہوں گے۔
پھر فرمایا اللہ کا نام صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ عبادت صبر اور مجاہدے کے ساتھ ہوتی ہے۔
قیامت کی ہولناکی اور رؤساء شر کا انجام بتایا گیا. یہ بھی واضح کردیا کہ ہر کوئی جہنم کے اوپر سے گزرے گا. جنت کا راستہ بھی جہنم کے اوپر سے گزر کر جائے گا. پل صراط جہنم کے اوپر قائم ہے اس کے اوپر سے گزرنے کی رفتار اعمال کے مطابق ہوگی۔ متقین لوگ نہایت تیزی سے گزر جائیں گے، جبکہ ظالم جہنم میں گر جائیں گے۔
یہ بھی بتا دیا اچھے لباس اور رہن سہن کی اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں۔ گمراہ لوگ قیامت کے دن جان لیں گے کہ کس کا انجام کیسا ہوگا۔ جو نیکی کے راستے پر چلتا ہے اسے مزید نیکی کی ہدایت ملتی ہے۔ مال اور اولاد سب پیچھے رہ جائے گا۔ ہر کوئی اکیلا اللہ کے سامنے حاضر ہوگا۔ یہ معبود جنکو یہ پوجتے ہیں قیامت کے دن ان کے مخالف ہو جائیں گے۔ متقین رب کے مہمان بنیں گے، اور مجرم پیاسے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔
شرک اتنا قبیح عمل ہے کہ اس سے ساری مخلوقات کانپ جاتی ہیں۔ آخر میں بشارت ہے کہ جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جائے گی۔ مومنین کی آپس کی محبت اللہ کا انعام ہے۔ پھر فرمایا قرآن کے ذریعے سے خوشخبری دیں اور جھگڑالو لوگوں کو وعیدسنائیں۔
*سورۃ طٰہٰ*
اس سورت کی ابتداء قرآن کے ذکر سے ہوئی فرمایا یہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔ یہ تو اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے نصیحت اور رحمن کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ اللہ ہر چیز جانتا ہے حتی کہ خفی تر بھی جانتا ہے۔
اس سورت میں بہت مفصل تذکرہ موسی علیہ السلام کا آیا۔ ان کے حالات زندگی ذکر کیے گئے جس میں کوہ طور کا واقعہ، معجزہ عصا اور ید بیضا، فرعون کے گھر میں پرورش پانا، موسی علیہ السلام کا فرعون کے دربار میں پہنچنا اور جادوگروں سے مقابلہ کرنا، مدین چلے جانا، فرعون کا بنی اسرائیل کا تعاقب کرنا اپنے لشکر سمیت غرق ہوجانا، اور پھر بنی اسرائیل کا وعدہ خلافیوں اور نافرمانیوں میں حد سے بڑھ جانا، حتی کہ بچھڑے کو خدا بنا لینا ذکر کیا گیا۔
ان سب انبیاء کے واقعات میں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو نماز کا حکم دیا۔ اس سے نماز کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
موسی علیہ السلام کے قصے سے سبق ملتا ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ کچھ حاصل کرنے کے لئے مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت میں صبر اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا کام دیتا ہے۔ حق کا پیغام نرمی، حکمت اور احسن طریقے سے پہنچانا چاہیے۔ نرمی ہر بات میں ضروری ہے۔ حدیث کے مطابق نرم گفتگو کے بدلے جنت میں خوبصورت بالاخانے ملیں گے۔ تبلیغ کے معاملے میں لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عجلت پسندیدہ نہیں لیکن نیک کام میں جلدی کرنا اور اللہ کی رضا کے لیے جلدی کرنا پسندیدہ ہے۔ یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے لئے سلامتی ہے۔ ایمان والے دھمکیوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے۔
موسی علیہ السلام نے اللہ سے شرح صدر کی دعا بھی کی۔ شرح صدر کے بعد حق کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
پھر یہ بتایا گیا کہ جو اللہ کی محبت میں گناہ کرنے سے ڈرتے ہوئے ایمان اور عمل صالح کے ساتھ زندگی گزارے گا جنت کا حقدار ہوگا۔ جو مجرم بن کر رب کے سامنے حاضر ہوگا جہنم پائے گا۔
پھر فرمایا جو قرآن سے اعراض کرے گا وہ قیامت کے دن گناہ کا بوجھ اٹھائے گا۔ قیامت کی منظر کشی کی گئی کہ اس دن مجرم اکٹھے ہونگے، دہشت کے مارے ان کے رنگ نیلے پڑ رہے ہوں گے۔ آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ دنیا میں تو صرف دس دن ہی ٹھہرے ہوں گے یا بس ایک ہی دن۔ (قیامت کے دن دنیا کی زندگی بہت چھوٹی معلوم ہوگی) یہ پہاڑ دھول بن کر اڑ جائیں گے اور زمین صاف میدان بن جائے گی۔ رحمان کے آگے سب کی آوازیں دب جائیں گی۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی سفارش نہیں کرسکے گا، صرف مخصوص لوگوں کو اس کی اجازت ملے گی۔ اس دن ظلم والا نامراد ہوگا۔ سب چہرے اللہ کے سامنے جھک جائیں گے۔ نیک اعمال والے مومن بے خوف ہو گے۔
پھر قرآن کا ذکر کیا گیا کہ قرآن عربی میں اس لیے نازل کیا گیا تاکہ لوگ غور و فکر کریں اور ان کے اندر پرہیزگاری پیدا ہو۔
اس کے بعد آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ ذکر ہوا، اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ زندگی اور اختیار انسان کی کمزوری ہے۔ انہیں دونوں چیزوں کے ذریعے سے شیطان نے آدم علیہ السلام کو بہکایا۔ رب کی نافرمانی کرنے سے راستہ بھٹک جاتا ہے۔ جو ہدایت کی پیروی کرے گا تکلیف سے بچ جائے گا۔
جو اللہ کی یاد سے منہ موڑے گا اس کی زندگی گھٹن کا شکار ہوگی۔ ایسا شخص قیامت کے دن اندھا اٹھے گا۔ تمام نعمتوں کے باوجود زندگی گھٹن کا شکار ہوجائے گی اور قبر میں بھی گھٹن ہوگی۔ اللہ کی آیات کو بھلانے کا مطلب یہ ہے کہ دین کو چھوڑ دیا جائے۔ پھر فرمایا پچھلی قوموں کی ہلاکت میں اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔
سب کو صبر، اللہ کی حمد و تسبیح کی تلقین کی گئی کہ اس سے آپ خوش رہیں گے۔ فجر کے بعد اور مغرب سے پہلے تسبیح کرنا دل کی راحت کا سبب بنتا ہے۔ دنیا کی نعمتیں آزمائش کے لیے ہیں۔ اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کریں اور خود بھی اس پر ڈٹ جائیں۔ رزق اللہ کا ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔
اچھا انجام متقین کے لئے ہے۔ جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون راہ راست پر ہے اور کون ہدایت یافتہ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں