وہ جن کی جانیں کسی شمار میں ہی نہیں /ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

بیٹے میں جان بستی تھی اس کی، بیٹے کو دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔ حالات خراب ہوئے تو بیٹے کو سختی سے گھر سے نکلنے سے منع کر دیا لیکن گھر بھی محفوظ کہاں تھے۔
پھر بھی بیٹے کو گھر میں روکے رکھا لیکن کب تک روکا جا سکتا تھا۔ اس روز وہ کھیلنے کے لیے باہر نکل ہی گیا۔ اور کچھ دیر بعد ہی گولہ بارود کی برسات ہونے لگی۔ وہ ننگے پاؤں باہر بھاگا ، اگلی گلی میں بیٹا مل گیا لیکن زمین پہ پڑا ہوا، خون میں لت پت۔ اسے اٹھایا اور ہسپتال کی طرف بھاگا۔
ہسپتال پہنچا تو وہاں بھگدڑ ہی مچی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے قیامت کا سماں ہو۔ ہر کوئی زخمی لوگوں کو اٹھائے بھاگا چلا آ رہا تھا۔ ڈاکٹرز اور نرسز ایمرجنسی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بھاگے پھر رہے تھے ، مرتے لوگوں کی جانیں بچائی جا رہی تھیں۔ اس نے اپنا جاں بلب بیٹا بھی ان کے حوالے کر دیا۔
بیٹے کے زخموں سے رستا خون روک دیا گیا، اسے ایک ڈرپ لگا دی گئی۔ کچھ دیر بعد بیٹے کی حالت سنبھلنے لگی تو اسے بھی کچھ سکون آیا۔ اتنی دیر میں ایک ڈاکٹر نے اسے کہا
“تمھارے بیٹے کی جان بچا لی ہے ، باقیوں کی بھی تو بچانی ہے۔اٹھو اور جہاں بمباری ہوئی ہے، وہاں سے زخمیوں کو اٹھا کر لے آؤ”
یہ سن کر اسے شرمندگی سی ہوئی کہ یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔ اٹھا اور بمباری والی جگہ کی طرف بھاگا۔ وہاں جا کے دیکھا تو کتنے ہی لوگ زخموں سے کراہتے زمین پہ پڑے ہوئے تھے۔ چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ کوئی جاں بلب تھا تو کوئی جان کی بازی ہار چکا تھا۔
اپنی مدد آپ کے تحت اردگرد کے بہت سے لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے تھے اور زخمیوں کو اٹھا کر ہسپتال لے جا رہے تھے۔ اس نے بھی ایک زخمی کو اٹھایا اور ہسپتال کی طرف بھاگا۔ اس زخمی کو وہاں ہسپتال کے عملے کے حوالے کیا اور دوبارہ مزید زخمیوں کو اٹھانے چل دیا۔ کچھ لاشیں پھلانگ کر ایک درد سے کراہتے زخمی کو دیکھا تو اسے اٹھا کر کاندھے پہ ڈالا اور پھر سے تیزی سے ہسپتال کی طرف بڑھ گیا۔
ہسپتال سے وہ ابھی کچھ دور ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کی آواز سن کر اس کے قدم لڑکھڑا گئے۔ قدم سنبھلے تو سامنے نظر اٹھائی۔ سامنے جہاں کچھ لمحے پہلے تک ہسپتال تھا، وہاں اب بس مٹی اور گرد کا طوفان نظر آ رہا تھا۔ فضا سے پھینکے گئے گولے نے ہسپتال کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔
“میرا بیٹا” اس کے منہ سے چیخ نکلی۔ زخمی کو زمین پہ لٹایا اور اندھا دھند ہسپتال کی طرف بھاگا۔ لیکن اب تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ ہسپتال، نہ تسلی دینے والا ڈاکٹر ، نہ اس کا بیٹا۔
سب تباہ ہو چکا تھا ، سب کچھ لٹ چکا تھا۔ وہ زخمی جنھیں ہسپتال لے جایا جا رہا تھا ، وہ جو زخمیوں کو ہسپتال لے جا رپے تھے۔ وہ جو زخمیوں کی جانیں بچا رہے تھے، کوئی بھی نہیں بچا تھا۔
وہ پاگلوں کی طرح ہسپتال کی گری دیواریں کھودتا پھر رہا تھا لیکن اسے اپنے بیٹے کا کوئی نشان کہاں سے ملتا، وہاں تو کچھ بھی نہیں بچا تھا.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply