میاں صاحب قومی مفاہمت کا راستہ اپنائیں/ارشد بٹ

میاں نواز شریف کی چار سال بعد پاکستان واپسی کو جمہوری سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کا ایک اہم موقعہ بنایا جا سکتا ہے۔ مگر کیا مقتدرہ کے آشیر باد کے لئے بھاگم دوڑ کرتےماحول میں میاں نواز شریف ایسا جراتمندانہ قدم اٹھانے کا حوصلہ دکھا پائیں گے۔ خیال رہے مقتدرہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی دوڑ میں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی ن لیگ، پی پی پی، پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں سے کسی کو بھی استثناء حاصل نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی ۹۔ مئی کی بے مقصد مہم جوئی نے ریاستی معاملات میں مقتدرہ کے شکنجے کو مزید مضبوط کر نے کے ساتھ سیاسی قوتوں کو مزید لاغر کر دیا ہے۔ اسی مہم جوئی کے نتیجے میں پی ٹی آئی مقتدرہ کے غیض و غضب کا نشانہ بنی اور پارٹی کے چیئرمین عمران خان کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

پاکستانی تاریخ کا المیہ ہے کہ سیاستدان ریاستی اداروں کے غیر منصفانہ اور غیر قانونی جبر کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ سیاستدان تختہ دار پر چڑھائے گئے، جبری یا خودساختہ جلاوطن ہوتے رہے، غیر قانونی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جبکہ اعلیٰ عدلیہ آمروں کی آلہ کار بنی رہی۔ جرنیلوں کے اقتدار پر قبضے کو جائز قرار دیتی رہی اور فوجی آمروں کو آئین کا حلیہ بگاڑنے کا غیر آئینی اختیار بھی تفویض کرتی رہی۔ عوامی حمائت سے محروم مفاد پرست سیاستدان آمروں کا ہتھیار بن کر جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال ہونے میں عار محسوس نہیں کرتے رہے۔ اقتدار کے بھوکے نام نہاد سیاستدان فوجی حکومتوں کا حصہ بنتے رہے۔

اس میں شک نہیں کہ نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف نے بھی بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف اسٹبلشمنٹ کے غیر جمہوری اقدامات کا ساتھ دیا تھا۔ مگر جنرل مشریف کے ہاتھوں اقتدار سے محرومی،عمر قید کی سزا اور بعدازاں جلاوطنی کے تجربات نے میاں نواز شریف کے سیاسی خیالات میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔ میاں نواز شریف کا بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ میثاق جمہوریت اس کی زندہ مثال ہے۔ پی پی پی اور ن لیگ کے اتحاد نے جنرل مشرف اسٹبلشمنٹ کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔۲۰۰۸ کے انتخابات کے بعد پی پی پی کی حکومت کے دوران ن لیگ اور پی پی پی نے میثاق جمہوریت پر کسی حد تک عمل کرنے کی کوشش کی۔ جس میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کو اصل حالات میں بحال کرنے کا کارنامہ سر انجام دینا شامل ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم نے پارلیمان کو طاقتور بنایا، صوبائی خومختاری کا تحفظ یقینی بنایا اور صوبہ سرحد کو خیبر پختون خواہ کا نام دے کر اسکی حقیقی شناخت بحال کی۔جمہوری سیاست کے دعویدار سیاستدانوں کو یاد دلانا ضروری نہیں کہ جمہوری قوتوں کا اتحاد ملک میں جمہوریت، سول بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کا آزمودہ راستہ ہے۔ تین بار وزیر اعظم رہ کر، اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اور مقابل کھڑے ہو کر، قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد میاں نواز شریف کو یہ سب ازبر یاد ہونا چاہے۔

سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ ممکن ہے میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہو جائیں۔مگر حالات نے میاں نواز شریف کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ان کے تدبر، سیاسی بالغ نظری اور جمہوری اقدار سے لگاو کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ قرائن سے ظاہر ہے پاکستان پہنچنے کے بعد میاں نواز شریف کو سیاسی کھیل کے لئے پنجاب کا میدان کھلا ملنے والا ہے۔ پنجاب طاقتوروں کا حرم ہے جس میں وہ اکیلے دندناتے پھریں گے۔ جنوری ۲۰۲۴ میں متوقعہ انتخابات سے قبل انکو پنجاب میں چیلنج کرنے والے عمران خان کا جیل سے رہا ہونے کا امکان بہت کم نظر آتا ہیں۔ جبکہ پی پی پی سندھ کو محفوظ کرتے ہوئے جنوبی پنجاب اور سنٹرل پنجاب کے کچھ چنیدہ حلقوں تک محدود رکھے ہوئے ہے۔ جے یو آئی اور ق لیگ کا پنجاب میں وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ٹی آئی کے منظر سے ہٹائے جانے کے بعد کے پی کے میں انتخابی مینڈیٹ کئی جماعتوں میں تقسیم ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہےہیں۔ لگتا ہے کہ ن لیگ کے راستے کی سب رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور ہوتی جا رہی ہیں۔

جیل میں قید عمران خان کو بھی حالات کی نزاکت کا ادراک ہوتا جا رہا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے حوالے سے با خبر صحافیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان سیاسی جماعتوں اور اسٹبلشمنٹ سے غیر مشروط مذاکرات کے لئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے عمران خان نے پی ٹی آئی راہنماوں کے ذریعے صدر علوی سے بھی رابطہ کیا ہے تاکہ صدر علوی مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرنے میں مدد گار ہوں۔ عمران خان سیاسی مذاکرات کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہیں، اس بارے کچھ رائے دینا مشکل ہے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کامجوزہ مذاکرات کے متعلق کیا ردعمل ہو گا۔ کیا میاں صاحب ملکی سیاست میں کشیدگی، شدت پسندی اور نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کے لئے عملی قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ کیا وہ متوقعہ الیکشنوں کو غیر متنازعہ، شفاف، غیر جانبدار اور آزادانہ بنانےکے لئے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے۔

مقتدرہ کسی صورت ۹ ۔ مئی کی مہم جوئی پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے میاں نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کا آغازہوسکتا ہے۔ جس کے لئے وہ ہر گز تیار نہیں ہیں۔مگر ملک میں سیاسی استحکام کی خاطر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دینے میں کوئی قانونی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی ایک قانونی سیاسی جماعت ہے اور الیکشن میں حصہ لینے کی اہل ہے۔ یہاں میاں صاحب کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان کو عمومی قانون کے تحت فیئر ٹرائل کا حق دیئے جانے کا مطالبہ آئین و قانون کی حکمرانی اور ملک کے جمہوری مستقبل کے لئے نہائت اہم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میاں صاحب اس میں شک نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ نے آپکو سیاسی سازشوں کی بھینٹ چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ۲۰۱۸ کے انتخابات میں ن لیگ کو دھاندلی کے ذریعے شکست سے دوچار کیا گیا۔ مگر میاں صاحب ۲۰۲۴ کے متوقعہ انتخابات میں ۲۰۱۸ کے انتخابات کا ایکشن ری پلے نہیں ہونا چاہے۔ آپکو بے نظیر بھٹوشہید کے ساتھ کئے گئے میثاق جمہوریت کے ایکشن ری پلے کی جانب بڑھنا چاہے۔ میاں صاحب ملک اور جمہوریت کے مستقبل کی خاطر سیاسی انتقام اور نفرت کی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کا بیڑہ اٹھا لیں۔ میاں صاحب آپ لاہور میں ۲۱۔ اکتوبر کے جلسہ میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی کو ایک معاشی اور جمہوری میثاق پر اکٹھا ہونے کی دعوت دینی چاہے۔ میاں صاحب حالات نے شائد آخری بار آپکو پاکستان کی سیاست میں ایک اہم تاریخی کردار ادا کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ اگر آپ نے یہ سنہری موقعہ ذاتی مفادات، اقتدار کی ہوس اور انتقامی سیاست کی نظر کر دیا تو تاریخ اور پاکستان کے عوام آپکو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ تاریخ میں اپنے مقام کا تعین آپ نے خود کرنا ہے۔ میاں صاحب یہ آپ کے تدبر، فراست، سیاسی تجربے اور بالغ نظری کے امتحان کا وقت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply