مذہب بُرا ہے یا لوگ؟/نعیم اختر ربانی

یہ ایک انتہائی اہم اور دلچسپ سوال ہے کہ مذہب برا ہے کہ لوگ؟
یہ سوال دراصل دو طرح کے لوگوں کے دو مختلف نظریات کا مجموعہ ہے۔
ڈاکنز نے کہا تھا کہ مذہب برا ہے۔ تو مذہبی اس کے جواب میں کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ مذہب کبھی برا نہیں ہوتا لوگ برے ہوتے ہیں۔ وہ اس پر بیسیوں مثالیں بھی پیش کرتے آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس ملک میں قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور لوگ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں تو کیا وہاں کا قانون برا ہوتا ہے یا لوگ جو یہ غیر قانونی سرگرمیوں کا حصہ ہوتے ہیں ؟

یقیناً میری طرح ہر صاحبِ عقل کا جواب “لوگ’ ہے۔ اگر سچ پوچھیں تو میں کہتا ہوں کہ یہ بیانیہ بھی کچھ جچتا نہیں ہے۔ اور ایسا پائیدار بھی نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی ایسا بیانیہ پیش نہ کیا جاسکے جو اس بیانیے کی حقیقت کو سوچنے پر مجبور کر دے۔

فرض کیجیے کہ ایک اسلحہ ساز کمپنی اس دعوے کے ساتھ اپنے اسلحے کی فروخت اور نمائش کا اہتمام کرتی ہے کہ “اسلحہ حفاظت کے لیے ضروری ہے”۔ اور اس ٹیگ لائن کے ساتھ جب مارکیٹ میں قدم رکھتی ہے تو قانون کہتا ہے کہ اسلحے تک ہر ایک فرد کی دسترس معاشرے میں فساد کی موجب بن سکتی ہے اور اس کا ناجائز استعمال معاشرے کے افراد کے لیے وبالِ جان بن سکتا ہے لہٰذا ہم اس کی کھلے عام نمائش اور ہر ایک شخص کی دسترس سے دور رکھنے کا اعلان کرتے ہیں اور وہ کمپنی یہ کہے کہ دیکھیے اسلحہ تو ذاتی تحفظ کے لیے بنایا جا رہا ہے اور جو لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو وہ لوگ برے ہیں اسلحہ برا نہیں ہے۔

تو اس وقت قانون کا یا ہمارا ردعمل کیا ہوگا؟ یقیناً ہم اسلحہ کی کھلے عام نمائش کی اجازت نہیں دے سکتے۔ تو پھر مذہبی جماعتوں یا افراد کی غلط کاریوں پر ہمارے بیانیے کا کیا جواز بنتا ہے؟

اس سوال کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ مذہبی لوگ جس بیانیے، نظریے اور عمل کا اظہار اور تشہیر کر رہے ہیں جو فی الواقع برا ہے تو اسے مذہب کا نام دے رہے ہیں جبکہ مذہب نے ایسا کچھ کرنے کا حکم نہیں دیا۔

یعنی لوگ غیر مذہبی تعلیمات اور تصورات کو مذہبی لیبل لگا کر پیش کر رہے ہیں جس کا درحقیقت مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس لیے کہ جب مذہب کے نام پر کوئی چیز فروخت ہو رہی ہے تو اس میں مذہب کا کوئی قصور نہیں۔ ایسے لوگوں سے مذہب اور مذہبی تعلیمات و تصورات کو ہمیشہ پاک رکھنا چاہیے۔

زمانہ قدیم سے اہلِ مذہب کی یہ روش چلی آ رہی ہے کہ مذہب میں در آنے والے غیر مذہبی تعلیمات و تصورات کا علی الاعلان انکار کرتے ہیں اور مذہبی تعلق کی نفی کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اس کے باوجود بھی کوئی شخص غیر مذہبی تعلیمات کو مذہبی بنا کر پیش کرے اور کوئی مذہب مخالف شخص اس کو بنیاد بنا کر مذہب کو ہی قصوروار ٹھہرانا شروع کر دے تو سمجھ جائیں کہ ایسے شخص کے دل میں عناد تو ہے انابت نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply