اختلافِ رائے کا احترام۔۔مرزا یاسین بیگ

لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ دوست بنتے ہیں، پرستار بنتے ہیں اور کبھی کبھی اچانک دشمنی یا نفرت کی لکیر کھینچ لیتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جب تک ہم کسی کو اپنا ہم خیال پاتے ہیں اس کی باتوں اور تحریروں کے گرویدہ ہوتے چلے جاتے ہیں مگر جب کبھی کسی موڑ پر، کسی ایشو پر ہم خیالی اختلافی راۓ میں تبدیل ہوتی ہے، ہمیں جھٹکا سا لگتا ہے اور ہم اس شخصیت کو دل سے اتارتے چلے جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ بات ناپسندیدگی سے نفرت کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ بسااوقات اس میں ایسی شدت بھی آجاتی ہے کہ ہم اپنی اسی پسندیدہ شخصیت کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہمیں اختلاف کو برداشت کرنے اور اسے ایک ایشو کا دوسرا پہلو یا تصویر کا دوسرا رخ سمجھ کر دیکھنے یا غور کرنے کی تربیت نہیں ملی ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو ہمارا سچ ہے بس وہی سچ ہے جبکہ سچ صفت اضافی ہے۔

ہر شخص کا اپنا ایک سچ ہوتا ہے۔ شخصیت کی خوبی یہ ہونی چاہیئے کہ ہم ہر شخص کی اختلافی راۓ کا بھی احترام کریں۔ اپنی بات کہیں اور دوسرے کی بات بھی سنیں۔ اپنی راۓ ضرور پیش کریں مگر اسے منوانے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔ کسی کو ناپسند کرنا بری بات نہیں مگر کسی سے نفرت کرنا اپنی ذہنی پریشانی میں اضافہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

نفرت آپ کے منفی جذبات کو ابھارتی ہے جو شخصیت و صحت کی خرابی کی بنیاد ڈالتی ہے۔ ہم جتنے اختلافات کا سامنا کرتے ہیں ہماری سوچ اور خیالات کو اتنی ہی جِلا ملتی ہے۔ اختلاف کو صحت مند رجحان کے ساتھ قبول کرنا دوستی کو زیادہ معیاری اور پائیدار بناتا ہے۔ اختلاف میں ایک دوسرے کی عزت کا پاس رکھنا اور باہمی خوش اخلاقی کی فضا قائم رکھنا ایک اچھے معاشرے کی نمود کا باعث بنتا ہے۔

نیچا دکھانے کی خواہش، انا کے زیراثر فیصلے آپ کو تنہا کرتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی میں آئیڈیل پالنا یا کسی کی بھی شخصیت پرستی میں مبتلا ہوجانا ایک منفی رجحان ہے۔ کسی کی بھی ذات ہر عیب سے پاک نہیں ہوتی ہے۔ خاص ہنر ذات کو بلند تو بناتا ہے مگر ہر عیب سے پاک نہیں رکھتا۔ کسی سے اختلاف ہوجاۓ تو اس کے ذاتی عیوب کو اچھالنا، اس کو نفرت کے نشانے پر رکھ لینا آپ کے برے ہونے کی دلیل ہے۔ جو معاملہ جہاں ہوا اسے سوچ بچار کے بعد وہیں دفن کردیجئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ جتنی نفرتیں پالیں گے اتنے ہی بےسکون رہیں گے۔ کسی بھی سیچوایشن میں کسی کے لۓ جو پہلا ردعمل ذہن میں آۓ اسے کچھ دیر کے لۓ پی جائیے اور کچھ دیر بعد دوبارہ سے سوچ کر اپنی راۓ دیجئے۔ یہ عادت آپ کو سینکڑوں مصیبت سے بچاۓگی۔ جو آپ کے قریب آنا چاہتا ہے اسے آگے بڑھ کر گلے لگائیے اور جو چھوڑکر جانا چاہتا ہے اسے زبردستی نہ روکئے۔ گرچہ یہ فیصلہ بسا اوقات عارضی طور پر دکھ کا سامان پیدا کرتا ہے مگر اسی میں دائمی دلی سکون بھی پوشیدہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply