پہلی بار- شرم ناک- عبرت ناک/نجم ولی خان

یہ ایک شرم ناک اور عبرت ناک انجام ہے جس کا سامنا سابق وزیراعظم عمران خان کر رہے ہیں جیسے ان کے نکاح کا مقدمہ۔ جیسے ان کی اہلیہ کے سابقہ شوہر خاور مانیکا اور اس کے ملازم لطیف کے بیانات۔ ہم ان الزامات کو دیکھیں تو یہ معاملہ محض عدت میں نکاح کا نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں آگے کا ہے جس کا بہت سارا حوالہ عدالتی فیصلے میں دے دیا گیا ہے۔ کسی وزیراعظم کے حوالے سے پہلی بار ثابت ہونے والی باتیں اتنی غلیظ اور گندی ہیں کہ ہم ایک معتبر اخبار کے صفحات پر انہیں نقل بھی نہیں کر سکتے۔ ایک وقت تھا کہ پی ٹی آئی کے ٹرولز اپنی کامیابیاں بتانے کے لئے پہلی بار کی اصطلاح کا بے محابا استعمال کیا کرتے تھے مگر وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ عمران خان اس ملازم کی طرح ہیں جو سفارش پر بھرتی ہوا اورمیرٹ پر قانون کے عین مطابق نکالا گیا،وہ اسے سازش کہتے ہیں، وہ ذکر نہیں کرتے مگر سچ یہی ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم تھے جنہیں سو فیصد آئینی، جمہوری اور پارلیمانی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا۔

اس سے پہلے وہ ملکی تاریخ میں پہلی بار انڈیا اور اسرائیل جیسے سکہ بند دشمن ممالک کے شہریوں اور کمپنیوں سے ممنوعہ فنڈنگ لینے کے مجرم سیاستدان قرار پائے۔ اس سازش کی نشاندہی آج سے عشروں پہلے ڈاکٹر اسرار احمد، حکیم محمد سعید اور عبدالستار ایدھی جیسے محب وطن کر چکے۔ اسی طرح ملکی تاریخ میں پہلی بار پی ٹی آئی کے بانی نے سائفر کیس میں ایک کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اس پر جھوٹ گھڑا اور خارجہ تعلقات میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والے ملک کے ساتھ تعلقات کو داؤ پر لگایا۔

ان دونوں معاملات کو دیکھیں، جانچیں  ، یہ سراسر غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف، آصف زرداری اورد یگر نے بھی یوسف رضا گیلانی کے دور میں توشہ خانہ سے تحائف لئے مگر وہ بیان نہیں کرتے کہ وہ تحائف قواعد وضوابط کو پورا کرتے ہوئے لئے گئے۔ یہاں وزیراعظم اورخاتون اوّل نے توشہ خانہ سے ہار اڑایا، اسے غیر قانونی طور پر کسٹم کلیئرنس کے بغیر بیرون ملک بھیجا اور وہاں سے ہنڈی کے ذریعے رقم موصول کی ،کیونکہ اس ہار کی فروخت سے موصول رقم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ خانصاحب کے بہت سارے ریکارڈ واقعی پہلی بار والے ہیں جیسے ایک سو نوے ملین پاونڈ کی کرپشن۔ جرمانہ انگلینڈ میں ہوا، پاکستان کا پیسہ واپس پاکستانیوں کو ملا تو انہوں نے القادر ٹرسٹ کے نام پر زمین لی، بشریٰ بی بی  اور  فرح صاحبہ   کو اپنے ساتھ ٹرسٹی بنایا اور سب کچھ ہضم کر گئے۔ کابینہ سے منظوری اس طرح لی کہ لفافہ سامنے رکھ دیا اور بتایا کچھ بھی نہیں۔ ایسی منظوری بھی پہلی بار تھی، شرمناک تھی اور جلدیہ بھی عبرت ناک ہونے جارہی ہے۔

میں نے پنجاب میں شہباز شریف اور پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے ادوار دیکھے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ پہلی بار سرکاری عہدوں کی جس قسم کی لوٹ سیل عثمان بُزدار کے دور میں لگائی گئی ،اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیکرٹریوں سے جیلروں تک ہی نہیں بلکہ فوڈ اور ڈرگ انسپکٹروں تک لگنے کی بولیاں فرح    ایوان وزیر اعلیٰ میں لگاتی تھیں  اور مبینہ طور پر ٹی کے نامی بیوروکریٹ اس کی سہولت کاری کرتا تھا۔ پنجاب اس سے پہلے منظور وٹو اور عارف نکئی کی عجیب وغریب گورننس کے ساتھ وزارت اعلیٰ دیکھ چکا تھا مگر جو گھڑمس اس دور میں دیکھا گیا وہ پہلی بار ہی تھا اور شرم ناک بھی تھا اور عبرت ناک بھی تھا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ فوج کے ساتھ سیاستدانوں کو شکایات پیدا نہیں ہوتیں۔ پاکستان کی جیو سٹریٹجک پوزیشن ایسی ہے کہ یہاں فوج کے داخلی سلامتی کے کردار کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ ماضی میں بھی سیاستدانوں اور فوج کے درمیان تنازعات رہے جن کا اختتام متعدد  مارشل لاء پربھی ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ملکی تاریخ کا اچھا باب نہیں ہے اور نہ پرویز مشرف کے دور میں محترمہ بینظیر بھٹو جیسی رہنما کا قتل۔ ان دونوں واقعات کا شدید ردعمل ہوا ۔ بھٹو مرحوم کی پھانسی پر جیالوں نے خود کو آگ لگا لی اور بے نظیر بھٹو کے قتل پر آدھا سندھ جل گیامگر اس کے باوجود کسی نے نہ جی ایچ کیو کا رخ کیا، نہ کور کمانڈر ہاؤس اور شہدا کی یادگاروں کا۔ عمران خان نے اپنی گرفتاری پر اپنے وفاداروں مراد سعید، علی امین گنڈا پور اور یاسمین راشد وغیرہ سے جس ردعمل کی منصوبہ بندی کی وہ بھی پہلی بار تھی، شرم ناک تھی اور بہت جلد وہ بھی عبرت ناک ہونے جا رہی ہے۔

یہ کام نواز شریف نے بھی نہیں کیا اور شہباز شریف نے بھی اس وقت نہیں کیا جب لاہور ائیرپورٹ پر ان کے بھائی اور بھتیجی کو لندن سے واپسی پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ شہباز شریف نے تصادم سے بچنے کے لئے ریلی کو ائیرپورٹ سے پہلے ہی ختم کر دیا تھا۔ اس وقت شہباز شریف پر بہت زیادہ تنقید ہوئی تھی مگر آج ثابت ہوتا ہے کہ حکمت، تحمل اور تدبر ہی بہترین حکمت عملی تھی نہ کہ اداروں پر چڑھ دوڑنا۔عمران خان کے اپنے بچے ان کی ماں کے پاس   ہیں اور یہاں انہوں نے بہت سارے بے وقوفوں اور احمقوں کو اپنے ساتھ جیل کی کال کوٹھڑیوں میں پہنچا دیا ہے۔ میں پی ٹی آئی کے بانی ہی نہیں پوری پارٹی بارے اندازہ لگا سکتا ہوں کہ نو مئی کی دہشت گردی میں اس کے عہدیداروں کو سزائیں ہونے کے بعد کالعدم ہونے جا رہی ہے ۔ تہتر کے آئین کے نفاذ کے بعد کسی سیاسی جماعت کا اس قسم کا انجام بھی پہلی بار ہوگا۔

مجھے کہنے میں عارنہیں کہ ملک نے پہلی بار ایسی قیادت دیکھی ،ورنہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے پہلے بھی جھگڑے ہوئے۔ بسا اوقات ،مارو اور مرجاؤتک کی پوزیشن بھی بنی۔ نواز شریف اوربے نظیر کو ہجرت تک کرنی پڑی مگرآپ سراہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ پرویز مشرف کا مارشل لا ء ہو یا عمران خان کا، نواز شریف کے بارے میں کوئی ایک بھی ایسی مخرب اخلاق چیز پیش نہیں کی جا سکی اور جہاں تک کرپشن کا سوال ہے تو اگر وہ کرپٹ ہوتا تو اسے ثاقب نثار کبھی بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے عجیب وغریب جرم اور بلیک لاء ڈکشنری جیسی عجیب و غریب تشریحات سے نااہل نہ کرتا۔ میں پی ٹی آئی کے لوگوں کی اس بات کو مان گیا ہوں کہ عمران خان نے پاکستان کو پہلی بار بہت کچھ دیا ہے مگر وہ سب کا سب ذلت اور غلاظت سے بھرا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی پکڑ اور ایسے انجام سے دشُمن کو بھی بچائے

Advertisements
julia rana solicitors london

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply