• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • الجھاؤ ہے زمیں سے، جھگڑا ہے آسماں سے/پروفیسر رفعت مظہر

الجھاؤ ہے زمیں سے، جھگڑا ہے آسماں سے/پروفیسر رفعت مظہر

ایک عورت ہونے کے ناطے بشریٰ بیگم سے ہمدردی کا عنصرہمیشہ موجود رہا۔ اُس کے بارے میں جادوٹونے، رشوت لے کر پنجاب میں ٹرانسفر پوسٹنگ اور تحائف جیسی خبریں سُن سُن کرکان پَک گئے لیکن پھربھی اِن خبروں پر ہمارا یقین متزلزل ہی رہا۔ اب جبکہ عدالت نے ناقابلِ تردید ثبوتوں کے ساتھ بشریٰ  بی بی  کو 14سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی ہے تو سَر شرم سے جھُک گیا اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا ایک خاتون کا اتنا کریہہ کردار بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی دھرتی ماں کو ہی لوٹنے پر تُل جائے۔ پاکستان میں کرپشن سے مفر ممکن نہیں لیکن ایسی کرپشن کبھی دیکھی نہ سُنی جس سے بشریٰ نے ہاتھ رنگے۔ رسمِ دنیا یہی کہ تحفہ ایک یادگار ہوتاہے جسے ہمیشہ سینت سنبھال کر رکھا جاتا ہے، بیچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں مگر معاملہ اُلٹ کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبِن سلیمان نے خاتونِ اوّل پاکستان (بشریٰ بی بی ) کو 3 ارب17 کروڑ سے زائد قیمت کے جیولری سیٹ کاتحفہ دیا۔ بین الاقوامی اصول یہ کہ دوسرے ملک سے حاصل کیے گئے تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتاہے اور اگر تحفہ وصول کرنے والے کو وہ تحفہ پسند آجائے تو کمیٹی مارکیٹ ریٹ پر اُس کی قیمت مقرر کرتی ہے اور ایک مخصوص رقم اداکرکے تحفہ وصول کیا جا سکتا ہے۔ اِس میں بھی یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ وہ تحفہ فروخت نہیں کیاجا سکتا۔ بشریٰ بی بی نے وہ جیولری سیٹ صرف 90لاکھ روپے اداکرکے وصول کر لیا۔ یہی نہیں اُن کے شوہرِ نامدار نے ایم بی ایس سے وصول کردہ خانہ کعبہ کے ڈائل والی گھڑی نہ صرف وصول کی بلکہ یہ تحائف بیچ بھی دیئے۔ دونوں میاں بیوی نے توشہ خانہ پر یوں ہاتھ صاف کیا کہ 108تحائف اُٹھا کرلے گئے۔ اِس جرم کی پاداش میں اُن دونوں کو 14,14سال قیدبامشقت اور ایک ارب 58کروڑ روپے جرمانہ بھی ہوا۔ ایک سربراہِ مملکت اور خاتونِ اول کی اِن حرکات پر جو جَگ ہنسائی ہورہی ہے اُس کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔

بشریٰ بیگم اور عمران خان کے خلاف ابھی 190ملین پاؤنڈز اور القادر یونیورسٹی جیسے اوپن اینڈ شَٹ کیسز باقی ہیں۔ یہ کیسز تیزی سے حتمی فیصلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سوال مگریہ ہے کہ جب بشریٰ بیگم کو جیل میں خواتین کی بیرک میں رکھا جاسکتا تھا تو پھر بنی گالا جیسے پُرتعیش محل کو اُس کے لیے سَب جیل کیوں قرار دیا گیا؟۔ 3بار منتخب وزیرِاعظم رہنے والے میاں نوازشریف کی بیٹی اور معروف صنعت کار میاں محمدشریف کی پوتی مریم نواز کے لیے تو جیل کی کال کوٹھڑی اور بطور مشقت جیل کے بچوں کو پڑھانے پر مامور لیکن بشریٰ بی بی کے لیے پُرتعیش محل۔ کیا اُسے جاتی اُمرا میں نظربند نہیں کیاجا سکتا تھا؟۔ سابق صدرِ مملکت آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو تو ہسپتال کے بسترسے گھسیٹ کر جیل میں بند کیا جاتاہے لیکن بشریٰ پر عنایتِ خسروانہ۔ اِس دو عملی کا آج نہیں توکل اربابِ اختیار کو بہرحال جواب تو دینا ہو گا۔

کیا یہی اسلامی جمہوریہ ہے جس میں عدل کا پلڑا طاقتور کی طرف جھُک جاتا ہے؟۔ تحریکِ انصاف کی کئی خواتین عمران خان کے بہکاوے میں آکر جیلوں میں سَڑ رہی ہیں۔ بُشریٰ سے کہیں عمر رسیدہ یاسمین راشد بھی جیل میں ہے حالانکہ وہ کینسر کی مریضہ ہیں۔ خدیجہ شاہ چونکہ اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھی اِس لیے اُسے رہائی مل گئی لیکن متوسط گھرانوں کی صنم جاوید اور عالیہ حمزہ اب بھی جیل میں ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی سانحہ 9مئی میں ملوث تحریکِ انصاف کی کئی خواتین اب بھی جیلوں میں ہیں لیکن اُن کا کوئی پُرسانِ حال، نہ کوئی  دادرسی کرنے والا۔ بشریٰ بیگم البتہ اپنے ہی گھر میں ہے، سزا تو اُسے بامشقت ہوئی۔ اب بنی گالا میں اُس سے مشقت کون لے گا اور کیسے؟۔

یہ بھی شاید پاکستان کی تاریخِ عدل کا پہلا واقعہ ہے کہ 14سال قیدِ بامشقت پانے والی مجرمہ کو اُس کے اپنے گھر میں ہی نظربند کر دیاگیا۔ قولِ امیرالمومنین حضرت عمرؓ یاد آیاکہ اگر کسی کی وجاہت کے خوف سے عدل کا پلڑا اُس کی طرف جھُک جائے تو پھر قیصروکسریٰ کی بادشاہتوں اور اسلامی حکومت میں کیافرق ہوا؟۔ جج محمد بشیر نے تو اپنا فرض اداکردیا پھر پتہ نہیں کیا ہواکہ اربابِ اختیار نے بشریٰ بیگم کا جیل میں رہنا پسند نہ کیا۔ احتساب عدالت کا جج محمدبشیر وہی ہے جس نے میاں نوازشریف کو پاناماکیس میں 10سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تب تو عمران خاں اور اُس کے پیروکاروں نے مٹھائیاں بانٹیں اور بغلیں بجائیں لیکن اب وہی جج بُرا کیسے ہو گیا جبکہ عمران خاں نے خود اُسے بطور احتساب عدالت جج 3سال کی ایکسٹینشن دی۔ کیا تحریکِ انصاف کے لینے کے پیمانے اور دینے کے پیمانے اور ہیں؟۔ کیا یہی وہ ریاستِ مدینہ ہے جس کا عمران خاںگلی گلی میں شور مچاتے پھرتے تھے؟۔ کیا یہی وہ نیا پاکستان ہے جس کے سہانے سپنے دکھائے گئے تھے؟۔

حقیقت یہی ہے  کہ عمران خاں کی ساری سیاست کا محور لڑائی جھگڑا، فساد، بَدزبانی اور بَدکلامی رہا ہے۔ اپنی نرگسیت کے زیرِاثر بیگانے تو بیگانے اپنے بھی اُن سے نالاں تھے۔ اُن کی فطرت یہی کہ متحارب کو ہمیشہ کے لیے نیست ونابود کردو۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے دَورمیں جلاؤ گھیراؤ، مارو مَرجاؤ جیسی سیاست نے جنم لیا۔ پوری قوم نے ایسی سیاست کا نظارہ ایک توڈی چوک اسلام آباد کے 126روزہ دھرنے میں کیا اور پھر حکومت سے نکالے جانے کے بعد اُن کے جلسے جلوسوں میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔

9مئی کا سانحہ ایساکہ جس کی نظیر پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایساتو کوئی دشمن بھی نہیں کرتا جیسا اپنوں نے کیا۔ بلاشبہ یہ بغاوت تھی، ناکام بغاوت جس کے ماسٹر مائنڈ کا طے ہونا ابھی باقی ہے۔ اطلاعات تویہی ہیں  کہ عمران خان  ہی اِس ناکام بغاوت کا ماسٹرمائنڈ ہے لیکن چونکہ یہ طے کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے اِس لیے ہمارا قلم خاموش۔

اب جبکہ  آج 8 فروری   2024ء کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں تو یہ ہم پاکستانیوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے ووٹ کا حق سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ یاد رکھیں کہ ہم نے ذات برادری اور سیاسی جماعت سے بالاتر ہو کر صرف اُسی نمائندے کوووٹ دینا ہے جو اپنی ذات کا نہیں پاکستان کا سوچے۔ اِس وقت وطنِ عزیز دَورِ ابتلاء میں ہے لیکن اُمید کا دامن تھامے رکھیں۔ رَبِ لم یزل نے زمین کے اِس ٹکڑے کو اپنی ساری نعمتوں سے مالامال کر رکھا ہے۔ ضرورت ہے تو اِس امرکی کہ ہم صرف وہ نمائندے منتخب کریں جن کے دل میں ملک و قوم کی بہتری کا درد ہو اور یہ سب کچھ آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اب ہمیں 8 فروری کو اپنے مقدر کا انتخاب کرناہے۔ یاد رکھیے کہ اگر ہم سے چُوک ہوگئی تو پھر رَبِ کائنات کے فرمان کے مطابق ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی“ (سورۃ الرعدآیت 11)۔

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply